لیجیے سراج الحق، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے وارث ہو گئے۔ نشیب کا سفر جاری ہے۔ مگر شاید کہ تھمے، عارضی طور پر ہی سہی۔ آخری تجزیے میں سیّد منور حسن سے وہ بہتر ہیں۔ بنیاد ہی مگر ناقص ہو تو بڑے سے بڑا ماہر تعمیرات بھی کیا کر سکتا ہے۔
درویش نے کہا تھا: کبھی اپنے پائوں کے تلوے کی خبر نہیں ہوتی‘کبھی جنگل اور بیابان روشن ہو جاتے ہیں۔پروفیسر احمد رفیق اختر سے پوچھا: آپ کا گھٹنا کیسے خراب ہو گیا؟ آپ تو علاج اور ورزش میں اس قدر محتاط تھے۔ کہا: عمر بھر لوگوںکو نصیحت کی کہ جدید ترین علاج کرانا چاہیے اور وہ بھی اگر ممکن ہو تو بہترین معالج سے۔ خود ایک اتائی سے دوا لے کر کھا لی۔ فرق یہ ہے کہ چار پانچ سال گزر جانے کے باوجود‘ نہ اس کے لیے ایک لفظ کہا اور نہ کبھی حسرت کا شکار ہوئے۔ جو گزر گیا‘ سو گزر گیا۔ یہ صوفی کا شعار ہوتا ہے۔ خود کو کبھی وہ رعایت نہیں دیتا مگر دوسروں کو ہمیشہ۔ صوفی بھی دوسروں جیسا ایک آدمی ہوتا ہے۔ اس کی معلومات ناقص ہو سکتی ہیں اور گاہے تجزیہ بھی۔
سو ات کے بادشاہ صاحب اب مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ ازراہ کرم کبھی مجھے یاد کیا کرتے۔ ایک بار پہنچا تو پاک فوج کا ایک پائلٹ ملنے آیا۔ کارگل کی جنگ کے ایام تھے اور آخری دنوں میں اس کا بہت کچھ انحصار ہوا بازوں پر تھا۔ اس سے کہا: بھاگ آئے ہو؟ وہ رو دیا۔ بولا :حضور! چھٹی لے کر آیا ہوں۔ پھر جنگ کے ممکنہ مضمرات کا تجزیہ کرنے لگے۔
مجھے یاد تھا اور خوب یاد تھا کہ ماہ محرم میںجلد ایک جنگ کی پیش گوئی انہوں نے کی تھی۔ صفر میں ہو گئی۔ عارف تو کیا کہیے مگر صاحب کشف یقیناً تھے۔ اشارۃً کئی بار کہا کہ ان کے سلسلۂ تصوف سے وابستہ ہو جائوں۔ میں خود کو اس قابل نہ پاتا تھا؛ چنانچہ خاموش رہتا۔ صوفی کبھی برا نہیں مانتا۔
ان کے گرامی قدر والد سے تھوڑی سی نیاز مندی رہی‘ جن سے قائد اعظم نے بھی کبھی رابطہ کیا تھا۔ جنہوں نے عبدالغفار خان کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا اور جن سے جنرل محمد ضیاء الحق کو کئی بار ڈانٹ سننا پڑی۔ ایک بار تو ان کی اہلیہ محترمہ کو بھی۔ مولانا کوثر نیازی سے، اس قدر ناخوش تھے کہ گو ملاقات کا وقت دیا مگر ان کی گاڑی میں سوار ہونے سے انکار کر دیا۔
جنرل چشتی کو ایک پیغام بھیجا کہ بیرونی دورے پہ مت جائیے۔ وہ حیران کہ ماجرا کیا ہے۔ مان اس لیے گئے کہ صوفی رفیق ٹنچ بھاٹہ سے سائیکل پر سوار ہو کر، تیس کلومیٹر دور اسلام آباد کلب میں بتانے گئے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ الذوالفقار نے یاسر عرفات کے ساتھیوں کی مدد سے، اس جہاز کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ آخری دنوں میں جنرل محمد ضیاء الحق سے بہت ناراض تھے۔ اتنے کہ ایک بار تو چائے یا شربت پینے سے بھی انکار کر دیا؛ اگرچہ 17 اگست سے چند دن قبل، یہ کہا تھا کہ جنرل بچ نکلا۔ قضا آئی تو پھر کہا؛ بس بچ نکلا۔
1981ء میں ایک بار مجھ سے کہا: ظاہر شاہ واپس آئے گا اور تمہارے ان لیڈروں، گلبدین حکمت یار اور دوسروں میں سے کسی کو اقتدار نہ ملے گا، وہ اور لوگ ہیں۔ 1992ء میں کمیونسٹ رخصت ہوئے اور تین برس تک خانہ جنگی رہی۔ 1995ء میں طالبان ابھرے تو میں ان خوش گمان لوگوںمیں سے ایک تھا، جنہوں نے حسن ظن کا ارتکاب کیا۔ انہی دنوں ان کے جانشین سے ملنے گیا تو انہوں نے کہا: ہمارے لوگوں کو بہت پریشان کرتے ہیں، ظلم بہت ڈھاتے ہیں مگر، اللہ مالک ہے۔
اس اثنا میں ایک صاحب سے ملاقات رہی۔ کچھ تحفظات تھے مگر بعض دوستوں کے اصرار پر، اور اس سے بڑھ کر اپنی کم علمی کے طفیل ان سے متاثر ہوا۔ کچھ زیادہ ایام نہ گزرے تھے، جب پروفیسر محمدالغزالی سے پوچھا: مشاہدہ اگر مختلف ہو اور دل مطمئن نہ رہے تو کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا: خاموشی، یکسر خاموشی۔ معاملہ روشن ہو گیا تو مکمل خاموشی ہی اختیار کر لی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی یاد آتے رہے۔ میرے بھائی میاں محمد یٰسین نے اس موضوع پر ان سے سوال کیا، جب لندن میں‘ وہ ان کے ہاں قیام پذیر تھے تو یہ کہا: ایسا ایسا اژدہا‘ اس راہ میں پڑا ہے کہ آدمی کا ایمان ہی ہڑپ کر جائے۔
بابا جی سے میری ملاقات اتفاقاً ہوئی اور یا للعجب، اہل حدیث مکتب فکر کے ایک غالی گروہ کے ہاں۔ حیرت ہوئی کہ وہ انہیں گوارا ہی کیسے کر سکے۔ یہ جولائی 1995ء کا دوسرا دن تھا‘ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پوچھا: رات کیسی گزری؟‘ کہا: بس‘ بیت گئی۔ فوج پہاڑوں سے نیچے اتر رہی ہے۔ عرض کیا: ایسی کوئی اطلاع ہی نہیں۔ بولے: ہے یا نہیں‘ اتر رہی ہے۔ بے ساختہ ان سے پوچھا: اب کیا ہو گا؟ بولے: مارشل لاء۔ میں نے کہا: دور دور تک آثار نہیں‘ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کہا: مارشل لاء تو ہے مگر اس موضوع کو رہنے دو۔ آج میں آپ سے اس پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ ایک بلند پہاڑ کے دونوں اطراف بسنے والوں کے انداز فکر میں فرق کیا ہوتا ہے۔ اگر اس دن یہ بات توجہ سے سنی جاتی تو میجر عامر کے پڑوسیوں‘ کالا گائوں کے مکینوں کا کچھ ادراک شاید ہو سکتا۔ ضرب المثل ان کے بارے میں یہ ہے: کالا گائوں کے کتے روشنی کو دیکھ کر بھونکتے ہیں۔
خیر‘ اپنا یہ مسئلہ ہی نہ تھا وگرنہ بادشاہ صاحب کا مرید ہو جانے میں کیا قباحت تھی۔ کشف و کرامات سے نہیں‘ کچھ اور چیزوں سے دلچسپی تھی۔ میری اور عمران خان کی موجودگی میں‘ میری تجویز پر جو اسامہ بن لادن کے کیمپ پر میزائلوں کی بارش کے بعد‘ ان سے ملنے آیا تھا‘ افغان سفارت خانے کے فرسٹ سیکرٹری فوزی سے بابا جی نے یہ کہا تھا۔ طالبان؟ یہ طالبان ہے؟ خواب میں میں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ نے ان سے پرچم واپس لے لیا۔ وہ جانے والے ہیں۔ گھبرائے ہوئے فوزی نے کہا: تو کیا میں الگ ہو جائوں؟ کشمیر چلا جائوں؟ عرض کیا: تمہاری مرضی‘ کشف پر نہیں‘ فیصلے دلیل پر کیے جاتے ہیں۔
دلیل؟ فوزی کو تجویز کیا کہ حکومت پاکستان اور امریکہ پر دبائو ڈالنے کے لیے‘ پشاور میں کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے۔ انہیں قابل قبول محسوس ہوئی مگر یہ کہا: قاضی حسین احمد اور عمران خان کو ہم بلا نہیں سکتے۔ امیرالمومنین ملا عمر اجازت نہ دیں گے۔ حیرت سے سوال کیا کہ کیا غیر مشروط حمایت بھی آپ کے لیے قابل قبول نہیں؟ فوزی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جارح امریکی استعمار کے مقابل میری، ایک عام پاکستانی کی ہمدردیاں‘ اب بھی افغان عوام کے ساتھ تھیں۔
جنرل حمید گل نے کہا: افغان سفیر ملا ضعیف سے ملو اور ان کی مدد کے لیے ایک میڈیا سیل بنائو۔ ان کی خدمت میں‘ میں حاضر ہوا۔ وہاں ایک مجمع۔ جب بھی بات کرنے کی کوشش کی۔ جواب ملا ''صبر کرو‘‘ ملا کی حمایت زمین پر رینگ کر ہی کی جا سکتی ہے۔ اسے ''خدا‘‘ مان کر۔ اگر یہ جملہ کسی کو گراں گزرے تو علاّمہ اقبال سے بات کر لے۔ ان کا روّیہ‘ اور بھی زیادہ سخت ہو تو ناچیز سے شکایت نہ کرے۔ انہوں نے یہ کہا تھا ؎
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملّا ہو غازی
متحدہ مجلس عمل؟ پروفیسر احمد رفیق اختر‘ عمران خان کو سمجھایا کرتے۔ سمجھاتے اتنا ہی جتنی کہ اس کی بساط ہے‘ مثال کے طور پر یہ کہ مشرف کو باردگر صدر بنانے میں وہ اس کی مدد کریں گے۔ آخری دن تک اقتدار سے چمٹے رہیں گے۔ اس کے مزے لوٹیں گے۔ ''حیرت ہے‘‘ وہ جواب دیتا، میری بات ان سے ہوئی ہے‘ خاص طور پر قاضی صاحب سے۔ نہایت ہی دھیمے انداز میں‘ بالآخر ایک دن صوفی نے یہ کہا: ہم انہیں جانتے ہیں اور آپ جانتے نہیں۔
ملک میں آج جو ہولناک فساد برپا ہے‘ اس کی بہت کچھ ذمہ داری متحدہ مجلس عمل کی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا خطرناک ہو گا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا تھا: پتلونیں اور نکٹائیاں معاف کر دیتی ہیں‘ مگر جبّے اور دستاریں کبھی معاف نہیں کرتیں۔
لیجیے سراج الحق، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے وارث ہو گئے۔ نشیب کا سفر جاری ہے۔ مگر شاید کہ تھمے، خواہ عارضی طور پر ہی سہی۔ آخری تجزیے میں سیّد منور حسن سے وہ بہتر ہیں۔ بنیاد ہی مگر ناقص ہو تو بڑے سے بڑا ماہر تعمیرات بھی کیا کر سکتا ہے۔