"HRC" (space) message & send to 7575

خودشکنی‘ خودشکنی!

کشتی ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ڈوبتی جاتی ہے مگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ملاح ہی در پے ہوں تو ساحل کے فریادی کیا کریں۔ زیاں بہت ہے‘ اللہ کی کائنات میں زیاں بہت۔ 
جماعت اسلامی پر‘ کل روزنامہ 'دنیا‘ کے صفحہ اوّل پر چھپنے والے طویل تجزیے کا خلاصہ کیا ہے؟ کوئی شخص اپنا جج نہیں ہوتا‘ دوسرے ہوتے ہیں۔ آواز خلق کو نقارۂِ خدا سمجھو۔ بنیادی طور پر دو نکات عرض کرنے کی کوشش کی۔ اوّل یہ کہ جماعت اسلامی کے زوال کا سفر کم از کم وقتی طور پر تھم جائے گا۔ بحیثیتِ مجموعی سراج الحق‘ دوسروں سے بہتر ہیں۔ اس لیے نہیں کہ اکثریت نے ان کا انتخاب کیا۔ چار سال قبل منتخب ہوئے سید منور حسن تب شاید ان سے زیادہ مقبول تھے۔ جیسا کہ بار بار اس کالم میں عرض کیا: نسبتاً زیادہ پڑھے لکھے‘ سادہ اطوار‘ کذب بیانی سے گریزاں اور تہجد گزار‘ البتہ اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کیا کہ اس اہم منصب کے لیے ہرگز ہرگز وہ موزوں نہ تھے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: جو کام بندے سے اللہ کو لینا ہو‘ وہ اس کے لیے سہل کر دیتا ہے۔ اپنی پارٹی کو انہوں نے نقصان پہنچایا۔ اگر ایک ذرا سا ذاتی تعصب بھی ان سے ہوتا تو اکثریت سے متعلق مذکورہ بالا جملہ لکھنے سے میں گریز کرتا، ''اس لیے نہیں کہ اکثریت نے ان (سراج الحق) کا انتخاب کیا‘‘۔ اس کے بجائے‘ زیادہ زور اس پر دیتا کہ جماعت اسلامی کے اجتماعی ضمیر نے انہیں مسترد کر دیا۔ ان کے عیوب بیان کرتا‘ مثلاً ان کی زود رنجی کے اذیت ناک واقعات۔ پارٹی ہی نہیں‘ ان کا ذاتی تاثر بھی جن سے برباد ہوا۔ 
فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا: لکھنے والا کتنے مترادفات مسترد کرتا ہے‘ قاری کبھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہ ہر صنف کے اپنے تقاضے ہیں۔ یہ ناچیز تو خیر کالم میں بھی تمہید باندھنے کا قائل نہیں۔ توازن برقرار رکھنے کا سودا بھی سر پہ سوار ہونے نہیں دیتا۔ خبری تجزیے میں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ جو چیز ذمہ دارانہ صحافت میں بالکل ہی ممکن نہیں‘ وہ ایک اردو محاورے سے واضح ہوتی ہے‘ اکثر جس کا حوالہ دیتا ہوں ''گھوڑا اگر گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟‘‘ مزید یہ کہ گھوڑا اگر گھاس کے کسی قطعہ پہ نگاہ الفت ڈالے بھی تو کوئی اسے گدھا چر جائے گا۔ ڈاکٹر مریض سے محبت کر سکتا ہے‘ مرض سے نہیں۔ 
بیس برس ہوتے ہیں‘ لاہور میں ایک خاتون ہوا کرتی تھیں۔ ان کے بچوں میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو ڈاکٹر کے سر پہ سوار ہو جاتیں کہ فوراً ہی صحت یاب ہونا چاہیے۔ آخرکار اپنی پسند کے معالج اسے مل گئے۔ ان بچوں پر کیا گزری؟ درد کی اس داستان کو مجھ سا معمولی لکھنے والا رقم نہیں کر سکتا۔ قصور کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والی ایک بزرگ خاتون سے برسوں پہلے ملاقات ہوئی۔ ان کی داستان ایسی ہے کہ منو بھائی یا امجد اسلام امجد ایک عدد شاہکار ڈرامہ لکھ سکتے ہیں۔ میاں ان کے سی ایس ایس افسر تھے اور بائیسویں گریڈ تک پہنچے۔ چار ان کے بچے تھے۔ کلیجے سے لگا کر انہوں نے رکھا‘ اپنے گائوں میں۔ ایک بڑے زمیندار کی نورِ نظر تھیں۔ سکول کا منہ دیکھنے نہ دیا۔ کسی کے توسط سے ایک قطعہ اراضی ان سے خریدا گیا۔ اس اثنا میں قیمت بڑھ گئی تو چاروں فرزند شش و پنج میں پڑے۔ اٹھارہ لاکھ روپے نقد مزید آمدن ممکن تھی۔ قانون میں اس کی گنجائش تھی کہ مکر جائیں۔ اس حقہ نوش بزرگ خاتون نے‘ جو دن بھر میں مشکل سے چند جملے ادا کرتیں‘ ڈانٹ کر انہیں چپ کرا دیا۔ یہ تب کی بات ہے‘ جب ان روپوں سے‘ اسی ہائوسنگ سوسائٹی میں 300 گز کا پلاٹ خریدا جا سکتا‘ جس کی مالیت اب 70 لاکھ 
روپے سے کم نہ ہو گی۔ نازیبا ہوتا کہ ان سے سوال کرتا۔ یوں ان کی دردناک خاموشی بجائے خود ایک جواب تھی۔ 
ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بہت ہوتے ہیں‘ جو اپنی محبت میں گرفتار ہو کر خود کو مار ڈالتے ہیں‘ حتیٰ کہ اپنی اولاد کو بھی۔ قرآنِ کریم کیا اسی لیے نہیں کہتا کہ اولاد اور مال فتنہ ہیں؟ بزرگ کشمیری لیڈر کو اللہ تعالیٰ صحت کاملہ عطا کرے‘ ایک بار کسی نے یہ بات ان سے کہی تو فرمایا: وہ میرا بیٹا ہے‘ باپ نہیں کہ مجھ پہ اثرانداز ہو سکے۔ ایسا ہی ہوتا ہے‘ جب آدمی سننے سے انکار کر دے تو ایسا ہی۔ 
تجزیے میں دوسرا نکتہ یہ تھا کہ پارٹی کی مجموعی حکمت عملی میں لازماً کچھ خامیاں ہیں‘ وگرنہ 72 برس میں بوٹا کچھ تو بڑھتا۔ بنیادی اصولوں اور عصری حقائق کی روشنی میں‘ ان کا جائزہ لے کر ہی ظفرمندی اور سرفرازی ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ تجزیہ خوش آیا اور کچھ کو ناگوار۔ جنہیں اچھا لگا اور تحریری طور پر جنہوں نے تحسین کی‘ ان میں منصورہ کے بعض مکین بھی ہیں۔ اخبار نویس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے نام پوشیدہ رکھے۔ معلومات فراہم کرنے والوں کے بھی۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو ان معلومات تک اس کی رسائی کیسے ہو‘ جو اخباری صفحات کے پیچھے کسمساتی رہتی ہیں۔ وہ لوگ جو نمودونمائش کے آرزو مند نہیں ہوتے مگر اظہارِ صداقت کے آرزو مند۔ ظاہر ہے کہ گاہے ان کے ذاتی تناظر بھی ہوتے ہیں اور کبھی تعصبات بھی۔ ان سے مگر کس کو رہائی ہے؟ 
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے 
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے 
اخبار نویس کا کام یہ ہے کہ خالص معلومات اخذ کرنے کی کوشش کرے اور حشو و زواید کو ترک کر دے۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے ''خذ ما صفا ودع ما کدر‘‘۔ 
تعجب تب ہوا‘ جب ایک صاحب نے لکھا: تم بڑے ہی متعصب آدمی ہو‘ سراج الحق کو سید ابوالاعلیٰ مودودی کا جانشین کہتے ہو۔ جماعت اسلامی میں وراثت نہیں ہوتی۔ عرض کیا: اللہ آپ پہ کرم فرمائے‘ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلیفۃ الرّسول کہا جاتا۔ جانشین منتخب اور محترم بھی ہو سکتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس تشبیہ کے بعد وہ آسودہ ہو جائیں گے مگر وہ ڈٹے رہے۔ کج بحثی‘ کج بحثی۔ 
ملے جو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی 
عجیب چیز ہے یہ طولِ مدّعا کے لیے 
اتنی فراغت اخبار نویسوں کو کہاں ہوتی ہے کہ اس طرح کے مباحث میں الجھیں‘ مگر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نہ مانے اور اچھل کر امام ابو حنیفہؒ کی مسند پر فائز ہو گئے۔ وہی طالبان کا روّیہ جو مذہبی جماعتوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔ جو اللہ نہ کرے انہیں تحریک پاکستان سے بڑے المیے کی طرف لے جائے۔ وعظ جاری رکھا تو عرض کیا: سو فیصد میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں‘ جماعت اسلامی میں وراثت کا کوئی وجود نہیں۔ 
اس کے بعد کیا چاہیے تھا؟ یاللعجب! انہوں نے مجھے بتایا کہ آئندہ جماعت اسلامی کے بارے میں مجھے کیا لکھنا چاہیے‘ حتیٰ کہ اصطلاح بھی ارشاد کی اور وہ بھی در زبان انگلیسی‘ جو ناقص تعلیمی نظام پہ نوحہ خواں تھی۔ اس ناچیز سے بھی بدتر‘ یکسر غلط۔ 
اب میں تنگ آ چکا تھا۔ عرض کیا: معقولیت اختیار فرمائیے۔ انہوں نے فرما لی اور یہ کہا: آپ بھی ایسا ہی کیجیے‘ جناب! 
اختلاف اپنی جگہ اور وہ بنیادی ہے۔ دو پہلوئوں میں جماعت اسلامی قابلِ صد تحسین ہے۔ اول خدمت خلق کے میدان میں اس کی بے کراں خدمات کے ساٹھ برس۔ بعض اوقات‘ مثلاً واجپائی کی لاہور آمد پر ہونے والے رقصِ ابلیس کے بعد‘ سفاک افسروں اور لیڈروں کے باب میں اس کا تحمّل‘ مگر بعض اوقات ہی۔ کارکن اس کے پڑھے لکھے اور مخلص ہیں۔ سراج الحق کا انتخاب ان کے اجتماعی شعور کا مظہر ہے۔ 
متوازی طور پر عشروں پہلے‘ تحمل کے تحلیل ہونے کا عمل شروع ہوا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے طفیل۔ 2007ء کی جامعہ پنجاب میں عمران خان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اس کی بدترین مثال تھی۔ کچھ اس سے سیکھا ہوتا مگر انکار کر دیا۔ الٹا ہم لوگوں کو دھمکیاں دیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ سید منور حسن سمیت‘ طالب علم لیڈروں نے جو طرز عمل اختیار کیا‘ وہ حیران کن حد تک اذیت ناک تھا‘ خود شکنی‘ خود شکنی۔ پچاس ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو بہیمانہ انداز سے قتل کرنے والے طالبان کی حمایت بھی‘ اسی طرزِ عمل کا شاخسانہ ہے ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں 
کشتی ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ڈوبتی جاتی ہے مگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ملاح ہی در پے ہوں تو ساحل کے فریادی کیا کریں۔ زیاں بہت ہے‘ اللہ کی کائنات میں زیاں بہت۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں