اصول اور اقدار؟ کون سا اصول اور کون سی اقدار؟ ان سب کے لیے سیاست ایک کاروبار ہے ، کاروبار!
کیا جمعیت علمائِ اسلام اقتدار سے الگ ہو جائے گی ؟ مجھے اس میں شبہ ہے ۔ سیاست کا مقصد اگر حصولِ اقتدار ہے اور ظاہر ہے کہ حصولِ اقتدار ہی ہے تو یہ صرف سودے بازی کی ایک کوشش ہے ۔
مولانا فضل الرحمن کے تحفظات کیا ہیں ؟ ہر باخبر جانتاہے کہ اگرچہ مولانا سمیع الحق کو مذاکرات سونپنے پر انہیں دکھ پہنچا مگر زیادہ بڑا سبب دوسرا ہے ۔یہی مسئلہ ہوتا تو حکومت میں شمولیت ہی کے موقع پر وہ یہ شرط تسلیم کراتے۔نون لیگ والے ایک اور ہی کہانی سناتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن مولانا عبد الغفور حیدری کے لیے ہائوسنگ اور اکرم درّانی کے لیے مواصلات کی وزارت کے آرزومند ہیں ۔ قاعدے کی بات تو یہ تھی کہ کابینہ میں شمولیت کے موقع پرفیصلہ کر لیا جاتا ۔ کیسے مگر کر لیا جاتا؟ مولانا حکومت کا حصہ بننے کے لیے بے تاب تھے اور میاں صاحب بنانے پر۔ دونوں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ حالات کے جبر نے انہیں ہاتھ ملانے اور ملائے رکھنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ جدّہ میں میاں صاحب مولانا کے ذکر پہ بد مزہ ہو تے۔ اپنے ساتھیوں سے یہ کہا کرتے کہ عمران خان سے ہاتھ ملالوں گا،حتیٰ کہ قاضی صاحب سے مگر ان صاحب سے کبھی نہیں ۔سیاست کے عملی تقاضے لہو رلا دیتے ہیں ۔ مشرف کے ساتھیوں تک سے سمجھوتہ کر نا پڑا ۔ اس لیے کہ 30اکتوبر 2011ء کے بعد عمران خان ایک ہولناک خطرہ تھے ۔ اگر وہ حماقت در حماقت پر تل نہ جاتے تو ملک کے وزیراعظم وہ ہوتے اور میاں صاحب اپوزیشن لیڈر۔لاکھوں مخلص نوجوان ان کے لیے سر بکف تھے۔ عمران خان یہ بات نہ سمجھ سکے کہ سیاست صرف عوامی مقبولیت کا نام نہیں ۔سب سے بڑھ کر تنظیم ضروری ہو تی ہے ، تنظیم، سلیقہ مندی اور ترجیحات کا تعین۔پھر یہ کہ فوج ، کاروباری طبقات اور عالمی قوتوں کو نظر انداز کر کے اس ملک میں سیاست کی نہیں جا سکتی۔ اس ملک میں کیا، کہیں بھی نہیں ۔ آخری تجزیے میں یہ فعال طبقات بھی ہوتے ہیں، جنہیں ملحوظ رکھنا ہوتاہے ، فقط ووٹر ہی کو نہیں ۔
خیر اس موضوع پر پھر کبھی ۔ فی الحال صرف یہ کہ لاہور کے اس تاریخی جلسۂ عام کے بعد میاں محمد نواز شریف خود کو پھیلاتے اور عمران خان خود کو محدود کرتے گئے۔ بے لچک میاں صاحب بھی ہیں ۔ کارِ سیاست کو مگر عمران خان سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ عملی آدمی ہیں اور جوڑ توڑ کا تجربہ ۔ پارٹی پہلے ہی کپتان کے ہاتھ میں کہا ں تھی ، پھیلی تو قابو سے بالکل ہی باہر ہو گئی ۔ مردم شناسی کا نام و نشان تک نہیں ۔ بار بار ان کے خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ مشاورت کے لیے وہ ڈھنگ کی ایک سیاسی کمیٹی بنائیں اور اسی پر انحصار کریں ۔ وہ اپنے غیر سیاسی دوستوں اور ان کے نرغے میں رہے ، غالبؔ نے جن کے بارے میں کہا تھا: بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے۔ انتخابات کا پورا سال پارٹی الیکشن میں برباد کر دیا۔ بے تکے ، بے سرے لوگ مسلّط ہو گئے تو ان سے نجات کے بارے میں سوچا تک نہیں ۔ انہیں بتایا گیا کہ ووٹر دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک لیڈر یا پارٹی کے ، دوسرے امیدوار کے ۔آنجناب کا خیال یہ تھا کہ 61فیصد ووٹر
ان کے حامی ہیں ۔ ان سے عرض کیا کہ ٹکٹ اس طرح دیجیے ، جیسے قائدا عظمؒ نے دیے تھے ۔مقبول اور جیتنے والوں کو ۔ چن چن کر نالائق ترین کو ٹکٹ دیے اور سب جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اب بھی ان کے مرکزی دفتر پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے ، جن کے بارے میں ہر واقفِ حال یہ کہتاہے ع
ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کاآسماں کیوں ہو ؟
دہشت گردی کے بارے میں بظاہر اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے میاں صاحب نے امریکہ کو آسودہ کیا، عرب ممالک اور جس حد تک ممکن تھا، فوج کو بھی ۔ ہر اس شخص کو پارٹی میں شامل کر لیا، جسے کر سکے ۔ نوجوانوں میں لیپ ٹاپ بانٹے ۔ پروپیگنڈے میں نون لیگ کا کوئی ثانی کبھی تھا ہی نہیں ۔ اس محاذ پر تحریکِ انصاف ہر روز پٹتی رہی اور بری طرح ۔ جو چند لوگ ان کے حامی تھے ، ایک ایک کر کے ان سب کو دھتکارا۔ باقی تاریخ ہے ۔ کپتان کے بارے میں اور کچھ ہی کہیے مگر وہ روپے لے کر ٹکٹ دینے والا ہرگز نہیں ۔اس کے نائبین میں سے البتہ بہت سارے۔
معلوم نہیں کیوں ،مولانا فضل الرحمن پختون خوا میں حکومت بنانے کے لیے پُراعتماد تھے اور میاں صاحب مرکز میں ۔ اپنی پسند کا الیکشن کمیشن بنوانے میں وہ کامیاب رہے ۔ پنجاب کی انتظامیہ ان کی تھی اور پیپلز پارٹی سے خلقِ خدا ناراض۔ ناراض نہیں برہم۔ میڈیا کا بندوبست انہوں نے کر لیا تھا۔ عمران خان کا حال یہ تھا کہ انتخابات سے صرف تین ہفتے قبل وہ ٹکٹ جاری کر پائے۔ ٹیپو سلطان کی طرح ،خود کو انہوں نے ساتھیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
پنجاب میں کتنی نشستوںپر دھاندلی ہوئی ؟ اغلباً چالیس ۔ یہ سیٹیں نون لیگ سے نکال کر تحریکِ انصاف کی 35اور قاف لیگ کی 5بڑ ھا دیجیے تو باقی کیا بچا؟ 80عدد؟ باقی آزاد امیدوار، جنہیں بہرحال پیا کا ساتھ دینا ہوتاہے ۔ صداقت عباسیوں اور علیم خانوں کے ساتھ جنگیں نہیں لڑی جاتیں؛چہ جائیکہ کہ جیتی جا سکیں ۔ زرداری صاحب ہتھیار ڈال چکے تھے ۔ ان کا دردِ سر فقط یہ تھا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد احتساب سے محفوظ رہیں۔ اس کا ان سے وعدہ کر لیا گیا۔
فوج کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی کے باوجود ، میاں صاحب کا چہرہ مہینوں تک مسکراہٹ سے محروم کیوں تھا ؟ عمران خان اگر دھاندلی کے خلاف تحریک اٹھادیتے؟ کیسے مگر وہ اٹھاتے؟ پارٹی نہیں ، ان کے اردگرد ایک نہیں ، کئی میر جعفر تھے ، کئی میر غلام علی لنگڑے ۔ ان کی مرضی سے نہیں ، پرویز خٹک ، جہانگیر ترین کی منصوبہ بندی سے پختون خواکے وزیراعلیٰ بنے اور اس سے پہلے پارٹی کے سیکرٹری جنرل۔ یہ ہے وہ پسِ منظر، جس میں میاں صاحب کو مولانا ایسے حلیفوں کی ضرورت تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ مجبوری کی شادی... اور مجبوری کی شادی اسی طرح نبھا کرتی ہے ۔
اقتدار سے مولانا فضل الرحمن دور نہیں رہ سکتے، الّا یہ کہ شدید مجبوری ہو ۔ میاں صاحب پسند انہیں بالکل نہیں کرتے مگر عمران خان کے ہوتے ہوئے ، ان سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتے ۔ گیلپ کا اعتبار اب پہلے سا ہرگز نہیں ۔ تازہ ترین سروے مگر چونکا دینے والا ہے ۔ پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کسی بھی د وسری صوبائی حکومت سے کہیں زیادہ مقبول ہے ۔ دہشت گردی پہ عمران خان کاموقف فعال اور فہمیدہ طبقات کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں مگر ان کے صوبے میں کچھ ایسا نا مقبول بھی نہیں ۔ پولیس اور ہسپتالوںکوانہوں نے بہتر بنایا اور جیسا کہ بہت پہلے عرض کیا تھا، پٹواری کا مسئلہ بڑی حد تک حل کر دیا ہے ۔ میاں صاحب عمران خان کی سیاسی تباہی کے آرزومند تو ضرور ہیں ۔ حمزہ شہباز تحریکِ انصاف کے کم از کم چار ارکانِ صوبائی اسمبلی سے پیہم رابطے میں رہتے ہیں ۔ اطلاعات ہیں کہ آفتاب شیرپائو اور مولانا فضل الرحمن تحریکِ عدم اعتماد کی تیاریوں میں لگے ہیں۔ میاں صاحب مگر خطرہ مول لینے کے حق میں نہیں ۔ تحریکِ انصاف کے چودہ ناراض ارکان کی حمایت حاصل کر بھی لی جائے تو نون لیگ نہیں ، وزارتِ اعلیٰ مولانا فضل الرحمٰن کو ملے گی یا ناراض گروپ کو ۔ قیمت میاں صاحب کو چکانا ہوگی، پنجاب میں ۔ نہیں ، میرا خیال ہے کہ میاں صاحب مولانا صاحب کو مستقل طور پر ناراض کرنے کے متحمل نہیں ۔
اصول اور اقدار؟ کون سا اصول اور کون سی اقدار؟ ان سب کے لیے سیاست ایک کاروبار ہے ، کاروبار!