دعا ہی دروازہ ہے ۔ شرط یہ ہے کہ دل کی گہرائیوں سے اٹھے مگر عارف نے کہا تھا: تسبیح و مناجات سے نہیں ، زندگی اپنی خامیوں اور تضادات سے برسرِ جنگ ہونے والوں کی بدلتی ہے۔ فرد کی بھی ، معاشرے کی بھی !
اوّل ایک معذرت کہ کل کے کالم میں گیلپ کے حوالے سے پختون خوا کی حکومت سے متعلق ایک بالکل ہی بے بنیاد بات لکھ دی۔ سفرمیں لیپ ٹاپ موجود تھا۔ اس کی ویب سائٹ دیکھی ہوتی مگر میں نے تحریکِ انصاف کی طرف سے بھیجے گئے پیغامات کو قبول کر لیا۔ غلطی میری ہے اور اس پر غیر مشروط معذرت۔ مشتاق احمد یوسفی نے سچ کہا تھا: جھوٹ تین طرح کے ہوتے ہیں: جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔
آج اس رپورٹ کو پوری توجہ سے پڑھنے کی کوشش کی۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ شریف حکومت مقبول ہے اور میاں محمد نوا ز شریف سب سے زیادہ ہر دل عزیز رہنما۔ عمران خاں سمیت ، سب دوسرے لیڈروں کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آغازِ جنوری میں کیاجانے والا سروے تین ماہ بعد کیوں شائع ہوا؟ کیا آج بھی حالات وہی ہیں ، جو سالِ رواں کے آغاز میں تھے ؟ ثانیاً ،پیپلز پارٹی کے آخری برس سے نئی حکومت کے اوّلین چھ ماہ کا موازنہ کرنے کا مطلب کیا ہے ؟
کیا یہی وہ شعبدے بازی نہیں ، جسے اردو کے لاثانی ادیب نے سفید جھوٹ سے بڑا فریب قرار دیا تھا ۔ گیلپ والے پسند کریں تو ان سوالات کا جواب عنایت فرمائیں ۔ اسی کالم میں من وعن شائع کر دیا جائے گا۔ ایک اور سوال سال بھر سے ناچیز پوچھ رہا ہے ۔یہ کہ 30اکتوبر 2011ء کو لاہور کے تاریخی جلسۂ عام کے بعد، اگلے چند ماہ کے دوران ، جب دنیا بھر کے ادارے تحریکِ انصاف کو ملک کی مقبول ترین پارٹی قرار دے رہے تھے، گیلپ کے کسی سروے میں بظاہر یہ مستند حقیقت کیوںنہ سامنے آسکی؟ ممکن ہے کہ ہم لوگ ہی بدگمانی کا ، مغالطے کا شکار ہوں۔ معتبر اور مستند ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کو وضاحت فرمانی چاہیے ۔ ا س لیے بھی کہ 1983ء سے اب تک اپنے خاص میدان میں گیلپ کو ملک کا اہم ترین ادارہ سمجھا جاتاہے ۔ اس طرح کے ادارے کسی شخص یا گروہ نہیں ، پوری قوم کی مِلک ہوتے ہیں ۔ ان کا اعتبار کسی صورت مجروح نہ ہونا چاہیے ۔
اپنی ذاتی حیثیت میں ڈاکٹر صاحب ایک ایماندار اور شائستہ آدمی مانے جاتے ہیں ۔ با ایں ہمہ، یہ بھی واضح ہے کہ میاں محمدنواز شریف کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے اور عمران خان کو نا پسند کرتے ہیں ۔ 1996ء میں کپتان سے پہلی ملاقات کے بعد انہوں نے کہا تھا: وہ اپنا وقت ضائع کرے گا اور قوم کا بھی ۔ جیسا کہ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا : ہر شخص کا اپنا سچ ہے اورہر آدمی اپنے سچ کا ذمہ دار۔ عمران خان کو ئی فرشتہ تو نہیں کہ ان کے باب میں ذہنی تحفظات پیدا نہ ہوں مگر ڈاکٹر صاحب کا اندازہ ایک نہیں ، کئی بار غلط
نکلا۔ مثال کے طور پر 30اکتوبر کے اس جلسہ ٔعام کے بعد بھی وہ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ملک میں دو ہی بڑی پارٹیاں ہوتی ہیں (تیسری نہیں ہو سکتی )۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے اس قول کی ایک اور توجیہ پیش کی : دیکھ لیجیے ، دو ہی جماعتیں ہیں ۔ ایک نون لیگ اور دوسری تحریکِ انصاف۔جی نہیں تین پارٹیاں ہیں ۔ کسی کو پسند ہو یا ناپسند۔ پیپلز پارٹی موجود ہے ۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کا تعلق اسی جماعت سے ہے ۔ ایسے لوگ موجود ہیں ، جویقین رکھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی قیادت میں وہ پھر سے ابھر سکتی ہے ۔
رہی تحریکِ انصاف تو اس کی تباہی کے لیے دشمن کو کچھ زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں ۔ اس کے معمار اور اس کا سب سے بڑا اثاثہ جناب عمران خان خود ہی اس کارِ خیر کے لیے کافی ہیں ، جیسے شاندار مشیر انہوں نے چن رکھے ہیں ، جو کمال امیدواروں کے انتخاب میں انہوں نے دکھایا ، جس طرح 80فیصد پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ بھیجنے سے گریز کیا، اس کے بعد اس جماعت کو کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں ۔ غلطیاں سبھی سے سرزد ہوتی ہیں مگر کچھ نہ کچھ ان سے سیکھنے کی کوشش بھی سبھی کرتے ہیں۔ اس باب میں تحریکِ انصاف ایک عظیم الشان استثنیٰ ہے۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی الیکشن میں امیدواروں کا چنائو اور بھی بے نیازی کا مظہر تھا۔ میانوالی کے لوگ روتے رہے مگر ٹکٹ ایک گمنام کو دیا بلکہ ایسے شخص کو ، جس سے کوئی خوبی ، کوئی ہنر وابستہ نہ کیا جا سکے ۔ پشاور شہر میں ، جہاں کپتان کو خیرہ کن کامیابی نصیب ہوئی تھی ، کسی پاکستانی شہری کی بجائے ، ایک افغانی کو ٹکٹ تھما دیا گیا۔ آج تک اس امر کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ کیوں ؟ بار بار یہ نکتہ دہرانا شاید بد ذوقی ٹھہرے مگر خود پارٹی کے اکثر لیڈر یہ کہتے ہیں کہ ہر کہیں ٹکٹ بکے۔ تحریکِ انصاف پنجاب کے صدر، اعجاز چوہدری نے مجھے لکھا: میں تو کبھی کسی سے چائے کی ایک پیالی کا روادار بھی نہ تھا ۔ جہاں تک صدر دفتر کے بدنام آدمی کا تعلق ہے ، وہ دودھ کے دھلے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ میں نے نہیں ، پیسے فلاں نے لیے تھے ۔
اور کچھ بھی اعتراض ہو ، جماعتِ اسلامی کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتاہے کہ وہ ٹکٹ نہیں بیچتی ۔ باقیوں میں سے اکثر کا حال بُرا ہے ۔ زرِ ضمانت کے طور پر کروڑوں روپے جمع کر لیے جاتے ہیں اور کبھی واپس نہیں کیے جاتے۔ لین دین بھی تقریباً کھلے عام ہوتا ہے ۔ بڑی پارٹیوں میں تو ڈھٹائی کے ساتھ ۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت سینٹ کے زیادہ تر ٹکٹ فروخت کرتی ہے ، تقریبا ً نیلامی کے انداز میں ۔ نام کیا لکھیے ، سبھی جانتے ہیں ۔
مایوسی کے پیامبر یہ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ معاشرہ بگڑ چکا اور سدھرنے کا کوئی امکان نہیں۔ انسان کا پورا تاریخی تجربہ اس کے برعکس ہے ۔ بہترین معاشرے زوال پذیر ہوئے ہیں اور بدترین میں بہتری آئی ہے ۔ کسی ہجوم کی نہیں ، تبدیلی کو گاہے، فقط ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے ، چند ایک جس کے گرد جمع ہو جائیں ۔ فیڈل کاسترو کا ایک قول کبھی تحریکِ انصاف کے صدر دفتر میں آویزاں تھا: اپنی جدوجہد کا آغاز میں نے آٹھ آدمیوں کے ساتھ کیا تھا۔ دوسری بار موقعہ ملے تو چار کے ساتھ کروں گا۔کیا وہ عبارت اب بھی وہاں درج ہے ؟
کیا تماشا ہے کہ تین ماہ میں حالات یکسر بدل گئے ۔ نواز شریف تنہا ہو گئے اور فوج سے متصادم ۔ سروے مگر آج چھپتا ہے ، تین ماہ بعد۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ چند صاف ستھرے لوگ جمع ہوں اور ایک نئی تحریکِ کے بارے میں غور کریں ۔ سیاسی پارٹی نہیں تو ایک پریشر گروپ ہی سہی ۔ ایک متحرک تھنک ٹینک ہی ۔
اللہ کے آخری رسول ؐ کا فرمان ایک بار پھر: اگر برائی سے روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلّط ہوں گے ۔ وہ تمہیں سخت ترین ایذا دیں گے اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔
دعا ہی دروازہ ہے ۔ شرط یہ ہے کہ دل کی گہرائیوں سے اٹھے مگر عارف نے یہ کہا تھا: تسبیح و مناجات سے نہیں ، زندگی اپنی خامیوں اور تضادات سے برسرِ جنگ ہونے والوں کی بدلتی ہے۔ فرد کی بھی ، معاشرے کی بھی !