پوٹھوہار میں یہ بہار کا موسم ہے اور اندیشوں کا !
پھر موجِ ہوا پیچاں، اے میرؔ نظر آئی
زنجیر نظر آئی، شاید کہ بہار آئی
جیسا کہ عرض کیا تھا ، شیشے میں بال آگیا ہے اور اس کا بھدّا پن دکھائی دیتا رہے گا۔ آرزو تو ہر مثبت اندازِ فکر رکھنے والے کی یہی تھی کہ ایسا نہ ہو مگر طاقت خمار پیدا کرتی ہے ۔ان لوگوں میں اور بھی زیادہ ، جو کبھی اپنی خامیوں پر غور نہیں کرتے ۔ جو مہلت کو نعمت سمجھتے اور ''کوس لمن الملک الیوم‘‘ بجانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔
حقیقی جمہوری نظام میں سبھی کا اقتدار محدود ہوتاہے ۔ وزرائے اعلیٰ، چیف آف آرمی سٹاف ، وزیراعظم ، سبھی کا۔ پارلیمان ہی کا ایک اہم کردار ہوتاہے ، جہاں پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں ۔ فیصلے کابینہ میں صادر کیے جاتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں پر وہ استوار ہوتاہے ۔ فوج ، پولیس اور ٹیکس وصول کرنے والے آئین اور قوانین کی حدود میں آزادی سے بروئے کار آتے ہیں ۔ انتظامیہ یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ریاست کا مرکزی ستون ہوتی ہے ، عدلیہ اور فوج بھی ۔ میڈیاکو چوتھا ستون کہا جاتاہے ؛حالانکہ آئین میں اس کے کردار کاذکر تحریری طور پر نہیں ہوتا۔
اس پر تعجب نہ ہونا چاہیے کہ پاکستان ایسے نو تشکیل ملک میں، حکومت کی حیثیت غالب تر رہی ۔ قوموں کی عادات صدیوں میں بنتی ہیں اور آسانی سے تبدیل نہیں ہوا کرتیں ۔ قائداعظم کے بعد، جو دستور ی حکمرانی کی بہترین مثال تھے ، پاکستان کے حکمران خود کو غیر ملکی آقائوں کا وارث سمجھے اور بعض تو مغل بادشاہوں کا بھی ۔ فوجی حکمرانی الگ کہ وہ ایک یکسر دوسرے اندازِ فکر کی حامل ہوتی ہے ، منتخب حکومتیں بھی اپنے مزاج میں جمہوری نہ تھیں ۔ جاگیرداروں اور صنعتی اشرافیہ کی نمائندہ ۔ زرداروں کے مختلف موثر خاندان ، جن میں سے اکثر فوجی آمروں کی گود میں پروان چڑھے۔
پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ، پیپلز پارٹی اور نون لیگ عسکری ادوار کا اثاثہ ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو آٹھ سال تک فیلڈ مارشل ایّوب خان کے وزیر تھے ۔ غیر معمولی ذہانت کے اس آدمی نے جو عالمی تحریکوں کا ادراک رکھتا تھا، ایّوب خان کو کبھی ایشیا کا ڈیگال کہا ، کبھی صلاح الدین ایوبی۔ اچھے منتظم مگر سیاست کی باریکیوں سے نا آشنا ڈکٹیٹر نے ملک کو صنعتی افزائش کی راہ پہ ڈالا مگر عوامی امنگوں کی اس کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں تھی ۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اصلاً اسی لیے پیش آیا ؛اگرچہ آخر آخر میں اس کے جانشین یحییٰ خان اور اسی کی گود میں پلنے والے بھٹو کا حصہ بھی کم نہ تھا۔ دونوں کی ہوسِ اقتدار۔
بھٹو نے آہنی ہاتھ سے حکومت کرنے کی کوشش کی۔ تیسری دنیا کے کسی بھی آمر کی طرح نہ صرف تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیے بلکہ ہمیشہ وہ مخالفین کی توہین اور تحقیر پر تلے رہتے ۔ 23مارچ 1973ء کی دوپہر کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی ، جب ان کے غنڈوں نے لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسۂ عام پر گولیاں برسائیں ۔ اے این پی کے لیڈر عبد الولی خاں نے، جوتب نیپ کہلاتی تھی ، درجن بھر لاشیں اٹھائیں اور گھر لوٹ گئے ۔ اگر وہ شائستگی اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے تو پختون خوا میں علیحدگی کی تحریک برپا ہو سکتی تھی ۔ اس تحمّل اور صبر کے باوجود ، تین برس بعد ایک زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے محروم ہوئے تو عبد الولی خاں اور ان کے ساتھی حیدر آباد جیل میں پڑے تھے ۔ مشہور شاعر حبیب جالبؔ بھی ان میں شامل تھے ، ایک شب جو گنگناتے ہوئے پائے گئے ؎
محسوس یہ ہوتا ہے ابھی جاگ رہے ہیں
لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں
یہ بھٹو تھے، جنہوں نے خفیہ ایجنسی کو پہلی بار ایک سیاسی کردار سونپا۔ فوج کی خفیہ ایجنسی کو حکم دیا کہ وہ عبد الولی خان کو سپریم کورٹ میں غدّار ثابت کرنے کے شواہد مہیّا کرے ۔ بینکوں ، انشورنس کمپنیوںاور صنعت و حرفت کو انہوں نے تباہ کر دیا۔ یہ ایک چھوٹی سی معیشت تھی ، جسے انہوں نے کم از کم 50بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ ذہانت نے راہِ فرار اختیار کی اور قوم کو تقسیم کر کے ، 1979ء میں وہ جنرل محمد ضیاء الحق کے ہاتھوں پھانسی پا گئے ۔
اب ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر میاں محمد نواز شریف اسی جنرل کی یادگار ہیں ۔ 1985ء میں جب ان کے مخالفین نے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو جنرل محمد ضیاء الحق بے تاب ہو کر لاہور پہنچے اور اعلان کیا کہ ان کا ''کلّہ‘‘ مضبوط ہے۔ یہ بھی کہا کہ کاش ان کی باقی زندگی نواز شریف کو لگ جائے ۔ تین برس بعد اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی ۔ جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کی سرپرستی میں ، اب وہ جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث تھے، جن کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے ۔ بھانت بھانت کے ان سب لوگوں کو جوڑنے والی چیز پیپلز پارٹی کی نفرت تھی ، جس سے وہ خوف زدہ تھے ۔
12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف کے چوتھے مارشل لا نے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقعہ دیا۔ فعال طبقات اگرچہ اب بھی ان دونوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے مگر عوام کی اکثریت بیزار تھی ۔ 2000ء کے موسمِ بہار میں منظرِ عام پر آنے والے گیلپ سروے کے مطابق 70فیصد شہریوں نے مارشل لا کا خیر مقدم کیا تھا ۔ حالات کی خرابی کے لیے وہ میاں محمدنواز شریف کو ذمہ دار سمجھتے تھے ۔ صرف 20فیصد ان کے حامی تھے اور 10فیصد غیر جانبدار۔ گیلپ کے ایک اور سروے کے مطابق ، جو کئی سال پہلے ہوا، ملک کے دو تہائی سے زیادہ شہری بھٹو خاندان، چوہدریوں اور شریف خاندان کو ایک سا بد عنوان سمجھتے تھے ۔ ان کی ''مقبولیت‘‘ ایک برابر تھی ۔
سیاسی پارٹیوں سے اسی بیزاری کے طفیل پرویز مشرف 9سال حکومت کر سکے ؛حتیٰ کہ مارچ 2007ء میں انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کرنے کی کوشش کی اور وکلا تحریک نے انہیں اکھاڑ پھینکا۔ اسی دور میں عمران خان ابھرے ۔ اگر زعم کا شکار نہ ہوتے اور ان کے گرد میر غلام علی لنگڑے جمع نہ ہو جاتے تو آسانی سے وہ مرکزی حکومت حاصل کر سکتے ۔ نئی نسل ان کی ہمنوا تھی ۔
اب وہ سب کے سب روبہ زوال ہیں ۔ پیپلز پارٹی پٹ چکی۔ عمران خان نے اپناکاتا ہوا سوت خود ہی نوچ ڈالا۔ نون لیگ نامقبولیت کی راہ پہ بگٹٹ بھاگ رہی ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ اگر کوئی دوسرا ہوتا تو نومبر 2008ء سے نومبر 2013ء کے درمیان شاید کسی وقت بھی مارشل لا نافذ ہو گیا ہوتا۔
بدعنوان اور نا اہل سیاسی لیڈر اس چھپکلی کی مانند ہیں ، جو سانپ کے منہ میں پھنس جاتی ہے ۔ اگلتے بنتی ہے اور نہ نگلتے ۔ فوجی اقتدار کی اپنی خرابیاں ہیں اور بہت بڑی خرابیاں ۔ سیاسی قیادت نابالغ رہتی ہے اور سول ادارے پروان نہیں چڑھ سکتے ، جن کے بل پر امن و امان قائم کر کے مضبوط معیشت اور بہتر خارجہ پالیسی تشکیل دی جا سکتی ہے ۔ مدتوںسے قوم مخمصے کا شکار ہے ۔ ایک طرف عسکری حکمرانی ہے اور دوسری طرف بدعنوان لیڈروں کی بیمار جمہوریت۔
موثر میڈیااور طاقتور عدلیہ اسی خلا میں ابھرے ہیں ۔ تاریخی عمل میں ایسا ہی ہونا تھا۔ عدالتیں تو عوامی تحریک کی کوکھ سے ابھریں ۔ آزاد میڈیا کے لیے منصوبہ بندی انکل سام نے بھی کی۔ 14اکتوبر 1999ء کی سویر اسلام آباد میں یہ امریکی سفیر تھے، جنہوں نے جنرل مشرف سے کہا کہ اخبارات پر پابندیاں عائد نہ کی جائیں۔
انتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی رہی اور فوجی قیادت بھی ۔ پھر عدلیہ اور میڈیا کے کچھ خاص لوگوں نے بھی یہی وتیرہ اختیار کر لیا۔ غیر ملکیوں سے انہوںنے مراسم استوار کیے۔ خارجہ پالیسی اورقومی سیاست کی ترجیحات طے کرنے لگے ۔ متوازی طور پر امریکیوں نے این جی اوز کا جال بنا اور بعض پریشر گروپوں کے علاوہ ، ملک کی اہم شخصیات سے رابطے استوار کیے۔ عالمی منظر پر چین کے نمایاں ہو جانے کے بعدامریکہ نے بھارت سے گٹھ جوڑ کیاتو پاکستان میں خریدار ی کے لیے جامع منصوبے بھی تشکیل دیے ۔ صدیوں سے بد عنوان چلا آتا حکمران طبقہ اور اس کے سائے میں پروان چڑھتے عوام کالانعام۔
ملک کو ایک اخلاقی تحریک کی ضرورت ہے ، فقط شائستہ جمہوریت کی نہیں ۔ ایسے پریشر گروپ ، جو انتظامیہ ، عدلیہ ، میڈیا اور عسکری قیادت کو آئین کی حدود میں کاربند رکھنے پہ اصرار کریں۔
جہاں تک موجودہ محاذ آرائی کا تعلق ہے ، ا س میں فوج کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں ۔ فوجی افسر شاد ہیں کہ مدتوں کے بعد عوامی محبت کی لہر ان کے لیے اٹھی ہے ۔ میڈیا کمزور ہوگا ۔ میڈیا گروپوں کی سرپرستی کرنے والی منتخب حکومت بھی۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ احمقوں کے ٹولے فرضی جنتوں میں گل گشت فرما رہے ہیں ۔ اسی دیوانگی میں رہے تو کوئی دن میں شایدنیا تماشا ہوگا، وہی مگر با اندازِ دگر۔ پوٹھوہار میں یہ بہار کا موسم ہے اور اندیشوں کا!
پھر موجِ ہوا پیچاں، اے میرؔ نظر آئی
زنجیر نظر آئی، شاید کہ بہار آئی