وزیر اعظم کو نئی گاڑیاں مبارک ہوں اور ملک بھر میں در در بھٹکتے‘ ایک ایک لقمے کو ترستے مفلسوں کو کفایت شعاری کا درس۔
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
یورپ میں صنعتی انقلاب نے سر اٹھایا تو دعویٰ یہ کیا گیا کہ کام اب مشین کرے گی اور آدمی کا بہت سا وقت بچ رہے گا۔ زندگی سہل ہو جائے گی۔ زیادہ تر کام واقعی مشین کرنے لگی مگر وہ بچا ہوا وقت کہاں گیا؟ زندگی سہل کیوں نہ ہو سکی؟
عارف سے پوچھا تو اس نے یہ کہا: اضطراب اسی قدر ہوتا ہے‘ جس قدر آدمی فطرت سے گریزاں ہو اور اطمینانِ خاطر اسی قدر جتنا کہ وہ اس سے ہم آہنگ ہو جائے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے حفاظتی دستے کو وسعت دی ہے۔ اس میں دو عدد نئی بلٹ پروف گاڑیوں کا اضافہ کیا ہے۔ ان کی مالیت 22 کروڑ 40 لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔ دستاویزات کی تصدیق کے ساتھ‘ کابینہ ڈویژن کے متعلقہ افسر نے اگرچہ یہ کہہ کر تفصیل بتانے سے انکار کر دیا کہ یہ معلومات خفیہ ہیں۔ یہ اعتراف بھی لیکن کیا کہ پہلے ہی کافی سے زیادہ گاڑیاں موجود ہیں۔
حفاظتی دستے کو مزید کاروں کی ضرورت کیوں پڑی؟ ظاہر ہے وزیر اعظم کے لیے ہرگز نہیں بلکہ عملے کے لیے۔ انٹلی جنس بیورو کے سربراہ نے ایف بی آر کو لکھا اور وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بھی جو اتفاق سے وزیر اعظم کے سمدھی ہوتے ہیں۔ وزیر خزانہ کی فکر مندی یہ تھی کہ حکومت کفایت شعاری پر تلی ہے؛ چنانچہ جس قدر بچت ممکن ہو‘ کر لی جائے۔ ایف بی آر کے چیئرمین سے انہوں نے کہا کہ سرکار نے چونکہ سادگی اختیار کرنے اور قومی سرمایہ بچانے کا تہیہ کر رکھا ہے‘ لہٰذا اس پر عائد ٹیکس معاف کر دیے جائیں۔ قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں‘ قانون حاکموں کے حق میں بہت فیاض‘ نہایت مہربان واقع ہوا ہے۔
یاد آیا کہ کسی زمانے میں ایک اور وزیر خزانہ بھی ہوا کرتے تھے۔ اسحق ڈار ایسے زاہد اور متقی تو بالکل نہیں بلکہ کم نام بلکہ دانشوروں کے معتوب۔ اس لیے بھی کہ بعدازاں وزیر اعظم ہو گئے تھے۔ قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو انہوں نے ملک غلام محمد کو ملک کے مالی امور سنبھالنے کی دعوت دی۔ تب وہ نظام حیدر آباد کی سلطنت میں اسی منصب پر فائز تھے‘ جو برصغیر کی امیر ترین ریاست تھی۔ آٹھ ہزار کی بجائے تین ہزار تنخواہ قبول کر کے حیدر آباد دکن سے وہ کراچی آن پہنچے۔ چیلنج قبول کرنے کے وہ عادی تھے۔
گورنر جنرل بیمار تھے‘ بیمار بھی کس قدر۔ ان کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے ایک شب کا حال بیان کیا تھا۔ برسوں پہلے لندن میں گول میز کانفرنس کے ہنگام‘ رات گئے‘ وہ قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک حیران کن منظر سامنے تھا۔ سوٹ پہنے نکٹائی لگائے‘ جرابیں اور جوتا پہنے‘ صوفے پر وہ گہری نیند میں گم تھے۔ لیاقت علی خان نے لکھا کہ انہوں نے پردے برابر کیے‘ بلب بجھائے اور دروازہ بند کر کے لوٹ آئے۔
ایسا ہی ایک واقعہ ڈان کے مدیر الطاف حسین نے رقم کیا تھا۔ اپنے اعتماد کے اخبار نویس سے اسی کانفرنس کا احوال بیان کرتے ہوئے‘ جملہ مکمل کیے بغیر قائد اعظم نے صوفے سے ٹیک لگائی اور سو گئے۔ برسوں سے ٹی بی کے مریض تھے اور اس زمانے میں یہ مرض لاعلاج تھا۔ اس کے باوجود توانائی کا آخری قطرہ تک نچوڑ دیا کرتے۔ صلاح الدین ایوبی کے سوا‘ تاریخ میں کسی دوسرے رہنما کا ذکر نہیں ملتا‘ ایسی علالت اور بڑھاپے میں جس نے‘ اس قدر ایثار سے کام لیا ہو۔ کہا یہ جاتا ہے: درویش وہ ہوتا ہے‘ جو دوسروں کو ہمیشہ ہی رعایت دے سکتا ہے مگر اپنے آپ کو کبھی نہیں۔
سوانح نگار کہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی دنیا سے اٹھے‘ تو دمشق کے کسی گھر میں کوئی مکین نہ تھا۔ سب گلیوں اور بازاروں میں نکل آئے۔ کئی دن تک عالم یہ تھا کہ جہاں کہیں کوئی ہجوم سلطان کے پوتوں کو دیکھتا‘ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا۔ ان کی وفات پر فرزندوں سے کسی نے سوال کیا ''کیا کوئی زر نقد انہوں نے چھوڑا ہے؟‘‘ جواب ملا: ''ایسے بھی ہم مفلس نہیں کہ کفن دفن کا بندوبست نہ کر سکیں‘‘۔
ایک واقعہ محترمہ فاطمہ جناح نے بیان کیا۔ راتوں کو ریل میں سفر کرتے ہوئے‘ کسی سٹیشن پر خواہ کیسا ہی ہجوم ہو‘ وہ کبھی سامنے نہ آیا کرتے۔ داد وصول کرنے کی فکر کبھی انہیں لاحق ہوئی اور نہ مقبولیت کی پرواہ۔ بس اپنا مقصد انہیں عزیز تھا۔ اپنے اللہ اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ۔ ایک شب نواح لاہور کے ایک ریلوے سٹیشن پہ مگر وہ جاگ اٹھے اور دروازے پر کھڑے ہو کر ہجوم سے خطاب کیا۔ تکان ایسی اور طبیعت اس قدر ماند تھی کہ نڈھال ہو گئے۔ لوٹ کر اپنی نشست پر پہنچے تو فوراً ہی بے ہوش ہو گئے۔ کبھی کسی نے پوچھا تھا: قائد اعظم کیا آپ برِّصغیر کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ سوال کرنے والے کے ذہن میں شاید پنڈت جواہر لعل نہرو کے خطوط رہے ہوں گے‘ بندی خانے سے انہوں نے جو اپنی صاحبزادی اندرا کے نام لکھے۔ قائد اعظم کا جواب یہ تھا: جی نہیں‘ میں تاریخ بنا رہا ہوں۔ کسی کم تر ترجیح کے لیے ان کے پاس کبھی وقت نہ تھا۔ غیر ضروری جسمانی راحت تو الگ اکثر لیڈروں اور دانشوروں کے برعکس وہ ذہنی تعیش کے قائل بھی نہ تھے۔ ان کے ہم عصر'' امام الہند‘‘ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: اصل عیش دماغ کا عیش ہوتا ہے۔
اپنے درد کی حکایت انہوں نے کبھی بیان نہ کی۔ آخری ایام میں ڈاکٹر کے ٹوکنے پر انہوں نے یہ کہا تھا: کچھ کام صحت سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ہزار طرح کے چیلنجوں سے دوچار ملک کے طول و عرض میں جا پہنچنے کے لیے طیارہ درکار تھا۔ دو نشستوں والا چھوٹا سا سیسنا۔ چاہتے وہ یہ تھے کہ اس میں ایک چھوٹی سی میز لگا دی جائے تاکہ دوران سفر وہ کام کر سکیں۔ گورنر جنرل کے دفتر سے وزارت خزانہ کے نام ایک خط اس سلسلے میں لکھا گیا۔ وزیر خزانہ ملک غلام محمد نے ایک جملہ اس پر لکھا: قانون اگرچہ اجازت نہیں دیتا کہ طیارے میں مزید کسی سہولت کا بندوبست کیا جائے‘ مگر اجازت دی جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ قوم کے باپ ہیں۔
قوم کے باپ نے مگر دوسرا ہی فیصلہ کیا۔ اپنے قلم سے اس خط پر انہوں نے لکھا کہ طیارے کو جوں کا توں رکھا جائے۔ کسی سہولت کا اضافہ نہ ہونے پائے۔
زیارت میں تھے کہ بھوک مرنے لگی۔ معالج پریشان تھے۔ کسی نے بتایا کہ جالندھر کے دو باورچی ہجرت کر کے لائل پور آ پہنچے ہیں۔ ان کا پکایا ہوا کھانا قائد اعظم کو پسند تھا۔ مشرقی کھانے انہیں مرغوب تھے۔ ناشتے میں کبھی کبھی پائے کا سالن بھی۔ وہ بلائے گئے۔ اس دن کھانا قدرے رغبت سے کھایا پھر پوچھا کہ کیا یہ نئے باورچی ہیں۔ تفصیل سن چکے تو چیک بک منگوائی۔ ان کی آمدورفت کے اخراجات کا حساب لگایا اور چیک لکھ کر دیا کہ سرکاری خزانے میں جمع کرا دیا جائے۔ کہا '' قوم کی یہ ذمہ داری نہیں کہ گورنر جنرل کے لیے مرغوب کھانے کا بندوبست کرے‘‘۔
وہ لوگ کیا ہوئے‘ کہاں چلے گئے۔ وہ سرکاری افسر کیا ہوئے جن سے قائد اعظم نے کہا تھا: سیاستدان آتے جاتے رہیں گے‘ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ قوانین کی پاسداری کریں۔ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دیا کریں۔ آج بھی کہیں کوئی ہیرا سا دمک اٹھتا ہے۔ مایوس اور مجبور لوگوں کے ہجوم میں‘ ناگہاں کوئی صاحب ضمیر دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ڈاکٹر شعیب سڈل‘ کوئی شاہد حیات‘ کوئی ذوالفقار چیمہ ہی۔ چیمہ صاحب کے بارے میں گاہے کوئی ذہنی تحفظ کا اظہار کرتا ہے۔ ممکن ہے شاہد حیات پر بھی۔ رشید چودھری کے احوال سے یہ ناچیز واقف نہیں لیکن وہ یہ جانتا ہے کہ جب ایک اصولی مؤقف انہوں نے اختیار کر لیا تو اللہ نے انہیں عزت بخشی۔
قرآن کریم یہ کہتا ہے: ساری عزت اللہ کے لیے ہے اور اہل ایمان کے لیے۔ یزید کے کارندے ابن زیاد نے یہ کہا تھا: دنیا نقد ہے اور آخرت ادھار۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ جن اقوام نے قدرت کے قوانین کو ملحوظ رکھا‘ وہی سرخرو ہیں مگر کتاب تو کہتی ہے کہ انسانوں میں سے اکثر ظالم اور جاہل ہیں۔ آخرت افضل‘ اعلیٰ اور دائمی ہے ''مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘‘۔ آدمی خود کو لائق سمجھتے ہیں اور اپنے فرض کی اہمیت کو کم۔ ورق تمام ہوا۔ وزیر اعظم کو نئی گاڑیاں مبارک ہوں اور ملک بھر میں در در بھٹکتے‘ ایک ایک لقمے کو ترستے مفلسوں کو کفایت شعاری کا درس۔
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر