کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ بادشاہوں کے زمانے لد گئے اور کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ قوموں کی اقتصادی، سیاسی اور سفارتی ترجیحات اب خود اقوام طے کرتی ہیں، لیڈر لوگ نہیں۔ بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ وہ بہت بڑے مغالطے کا!
دہلی کے دورے کی دعوت وزیر اعظم کو قبول کرنا چاہیے۔ اندیشوں پر فیصلے نہیں کیے جاتے اور خوف کوئی حکمتِ عملی نہیں۔ سوچنا صرف تدابیر پہ چاہیے، جس طرح نریندر مودی کی ٹیم نے سوچا۔
واٹر گیٹ سکینڈل میں صدر نکسن اس طرح الجھے، جس طرح کوئی پرندہ جال میں۔ فرانس کے عسکری اور سیاسی ہیرو صدر ڈیگال کو انہوں نے لکھا کہ کیا ان کے لیے عافیت کی کوئی راہ باقی ہے؟ ڈیگال کا جواب یہ تھا: ایک نہیں، کئی راستے اور آخری قرینہ خاموشی ہے۔
عافیت کس چیز میں ہوتی ہے؟ یہ سوال بغداد کے صوفی سے پوچھا گیا تو اس نے یہ کہا تھا۔
عافیت گمنامی میں ہوتی ہے‘
گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں ‘
تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں‘
اور خاموشی نہ ہو تو صحبتِ سعید میں۔
رحمتہ اللعالمینؐ کا ایک فرمان یہ ہے: میری امّت کے بہترین لوگ وہ ہیں، جو کسی محفل میں جائیں تو ان کا تعارف نہ کرایا جائے اور جب وہ اٹھ کر چلے جائیں تو ان کا ذکر نہ ہو۔ یہ مگر مستثنیات ہیں۔ خال خال، النّادر کالمعدوم۔ لاہور کے بانساں والا بازار کی مسجد میں مولوی محمد شریف ذکر و فکر میں محو رہتے یا عبادت میں مصروف۔ کوئی ان سے ملنے جاتا تو شاد ہوتے اور مہمانوں کو شاد رکھتے، وگرنہ تنہائی میں آسودہ۔ سینیٹر طارق چوہدری کے والد میاں محمد حسین نے ایک بار ان سے پوچھا: آپ نے شادی کیوں نہ کی؟ بولے ''بس سستی سی ہو گئی‘‘۔
انسانی جبلّت کے تقاضے مختلف ہیں۔ آدمی شہرت، ناموری، نمود اور غلبے کا آرزومند ہوتا ہے۔ چالیس برس ہوتے ہیں، گورنمنٹ کالج لاہور کا فارغ التحصیل، ایک سرخ و سفید نوجوان شام کو باغِ جناح میں ٹہلا کرتا۔ ہر وقت کچھ کر گزرنے کی دھن اس پہ سوار رہتی۔ مسلسل ایک ہی بات کیا کرتا ''اگر مجھے اقتدار مل جائے، اگر مجھے موقع ملے‘‘ کیسے کیسے سنہرے سپنے وہ دیکھتا۔ ایک کامیاب آدمی مگر اس کے باوجود مضطرب‘ اس آدمی کا نام محمد نواز شریف ہے۔
مواقع کی ارزانی تب اسے عطا ہوئی، جب گرامی قدر والد کے مشورے بلکہ حکم پر اس نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، بلکہ پوری طرح تو برسوں بعد‘ جب وہ ایوان اقتدار میں داخل ہوا۔ روایت یہ ہے: آزردہ اور دل گرفتہ ایک سرکاری دفتر سے باہر نکلتے ہوئے، میاں محمد شریف نے یہ کہا تھا: ہم سے تو یہ سیاستدان ہی اچھے۔
خاندان کا کاروبار قومیا لیا گیا تھا۔ منتقم مزاج سیاسی مدبّر ذوالفقار علی بھٹو کوس لمن الملک بجاتے تھے۔ اپوزیشن لیڈر ہی نہیں، مخالف سیاسی کارکن ہی نہیں، کتنے ہی بے شمار دوسرے لوگ تھے، جن کی زندگیاں اس شخص نے ویران کر دیں۔ تاجر، صنعت کار، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو چلانے والے تر دماغ۔ ان میں سے بعض بیرونِ ملک چلے گئے۔ بے بسی کے احساس میں مبتلا ان لوگوں میں سے بعض نے 1977ء میں انتقام لیا اور کچھ نے بعد میں موقع پایا۔ نواز شریف کا خاندان ان میں سے ایک تھا۔ اب ایک اور ہدف ان کے سامنے ہے۔
ملک کے فوجی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق کو ناراض لوگوں کی ضرورت تھی، جو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ہاتھوں ستائے گئے ہوں۔ حبّ ِعلی نہیں، فرسودہ معاشروں کی سیاست کا انداز بغضِ معاویہ پہ استوار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جواں سال محمد نواز شریف بھٹو خاندان سے حساب برابر کرنے کے آرزومند تھے۔ اس پر کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے کہ سیاسی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے انہوں نے تحریکِ استقلال کا انتخاب کیا۔ اس پارٹی کے لیڈر ایئر مارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ کی حیثیت سے ایک ہیرو کے درجے پر مامور ہوئے۔ دیانت داری اور حسنِ انتظام کی شہرت رکھنے والا ایک عسکری ہیرو، پاک فضائیہ کی تعمیر میں جس کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا۔ موصوف کی ظاہری شخصیت نہایت پُرکشش اور بارعب تھی۔ بعد میں گو اندازہ ہوا کہ وہ اتنے ہی بڑے سیاستدان ہیں، جتنے کہ اب عمران خان۔ فرق یہ ہے کہ وہ جلد مایوس ہونے اور روٹھ جانے والے آدمی تھے، کپتان کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے نہیں۔ نوجوان نواز شریف نے اصغر خان کی پارٹی کا انتخاب کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ بھٹو کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ جیسا کہ بعد میں لکھی گئی، ان کی کتب سے بھی واضح ہے، وہ انہیں ایک مکار آدمی سمجھتے تھے۔ جھوٹا، شعبدے باز اور فریب کار۔ مقبول لیڈر کے محاسن پہ خان صاحب نے کبھی نظر نہ کی۔ 1977ء کی احتجاجی تحریک کے ہنگام انہوں نے یہ کہا تھا ''میں اسے کوہالہ کے پل پر پھانسی دوں گا‘‘ 36 برس بعد میاں شہباز شریف نے لاہور میں بار بار اعلان کیا کہ وہ آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔
خدا کی زمین پر کبھی کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، کچھ کر دکھانے کا جو آرزومند نہ ہو مگر بعض میں تڑپ زیادہ ہوتی ہے۔ اس جواں سال میں بہت ہی زیادہ تھی۔ گھریلو پابندیاں اور گورنمنٹ کالج کے مہ و سال میں پیش آنے و الے واقعات، جن کی وضاحت ایک مفصل خاکے میں ہی ممکن ہے۔ دولت سے محبت اسے ورثے میں ملی، کاروبار کی سوجھ بوجھ ماحول سے اور دوسروں کو برتنے کا سلیقہ بھی۔ آئے دن کسی سرکاری افسر کو لبھانے کی ذمہ داری؛ چنانچہ ایک احساس کی بے پایاں شدّت اس میں کارفرما ہوئی کہ جس طرح بھی ممکن ہو، اقتدار حاصل کرنا چاہیے، اقتدار۔ گمان یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ہی ان کا رول ماڈل تھے اور انتقام ہی جذبۂ محرکہ۔
قرآنِ مجید جسے ''طولِ امل‘‘ قرار دیتا ہے، ماہرینِ نفسیات اسے جبلّتوں کی حکمرانی کہتے ہیں۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ غور و فکر سے کام لو اور قدرت کے قوانین کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اہلِ علم کہتے ہیں کہ کامیابی کا انحصار ریاضت‘ علم‘ جذباتی توازن اور فہم و فراست پر ہوتا ہے‘ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی کے تنوّع کا ادراک کرنے سے۔
کوئی بھی عامی ہو یا لیڈر‘ اپنی ترجیحات وہ کیسے مرتب کرتے ہیں؟ خواہشات کی پیروی یا کوئی بلند مقصد؟ دولت، شہرت، رسوخ اور لذت اندوزی یا صداقت شعاری، امانت داری اور ایثار؟ بنیادی نکتہ بس یہی ہے اور اکثر یہی فراموش کر دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کو بھارت جانا چاہیے اور سامنے کی بات یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی نہج طے کرتے ہوئے، قومی مفادات کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ تحمل سے کام لینا چاہیے‘ تعجیل سے نہیں۔ انتظار ہی بعض اوقات بہترین حکمت عملی ہوتی ہے‘ اس کے لیے مگر صبر درکار ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ گھریلو محاذ پر وہ کمزور ہیں۔ گرہیں اگر کھولی نہ گئیں تو گزشتہ دو ادوار کی طرح ان کی حکومت چند ماہ کی مہمان ہو گی۔ ان الجھنوں کو سلجھانے کی بجائے، وہ غیر ملکی دوروں اور ان خیرہ کن ترقیاتی منصوبوں کی نوید سنانے میں لگے رہتے ہیں، جن پر عمل درآمد کی شاید کبھی نوبت ہی نہ آئے۔ کچھ دن اگرچہ قوم بہلتی رہے گی۔ مسئلہ دہشت گردی ہے، بجلی کا بحران، امن و امان اور میڈیا کے بعض بے لگام۔ ان میں سے اکثر حکومت کے حلیف ہیں۔ جوڑ توڑ اور بیان بازی نہیں، یہ مسائل سنجیدہ حکمتِ عملی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لچک اور مکالمے کا۔ کوئی توجہ اس پر نہیں بلکہ شعبدہ بازی پر۔ پاک بھارت تعلقات بھی اہم میدان ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قومی ترقی کا انحصار بہت کچھ سرحدوں کے امن پہ ہوتا ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار مراسم ایک طیّب خواہش ہے۔ اس کی مخالفت ہرگز نہ کی جانی چاہیے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے آرزومند ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں، کسی طرح بھی نہیں۔ قرآن مجید یہ کہتا ہے: تمہیں صبر کیسے آئے‘ تم علم جو نہیں رکھتے۔ کوئی جائے اور جا کر میاں محمد نواز شریف کو بتائے کہ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی۔ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔
کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ بادشاہوں کے زمانے لد گئے اور کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ قوموں کی اقتصادی، سیاسی اور سفارتی ترجیحات اب خود اقوام طے کرتی ہیں، لیڈر لوگ نہیں۔ بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ وہ بہت بڑے مغالطے کا!