ادبار سے نجات پانے اور اپنی تعمیر کے لیے ہمیں ایک سمت کی ضرورت ہے۔ ایک مربوط نظام کی۔ نئی نسل میں فروغِ تعلیم سے، ایک کے بعد دوسری جست بھرنے کی۔ کیا رہنمائوں کو اس کا ادراک ہے؟ اگر نہیں تو بخدا وہ فنا ہونے والے ہیں اور دوسرے ان کی جگہ لیں گے۔
دل دکھ سے بھر گیا اور بھرا ہی رہا۔ اگر کھجور کے تنے کی طرح اوپر اٹھتی اس طویل قامت خاتون کو میں نہ دیکھتا؟ راستے کے سب منظر دھندلا گئے۔ برسات کی بارش میں نہائے سر سبز شجر اداس سے لگے۔ ایک نئے موسم کے منتظر اور حیران۔ جی ایچ کیو سے لے کر مرکزی شاہراہ پر استوار اس سفید مکان تک، جس کی سادگی میں پرکاری اور پاکیزگی میں جلال ہے۔ گویا ایک کہر نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا ہو۔ اپنے آپ سے میں نے کہا: بہار کی صبا ملال کو لے جاتی ہے تو برسات کی بھیگی ہوا؟
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے حجاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز
نغمہ ساز میں ہوتا ہے؛ حتیٰ کہ انگلی کا لمس اسے بیدار کرتا اور کہرام مچا دیتا ہے۔ ابوالکلام نے لکھا تھا ''چاندنی رات ہوتی تو ستار لے کر میں تاج (محل) پر چلا جاتا۔ میری انگلیوں کے زخموں سے نغمے چھڑنے لگتے اور آسمان سے ستارے‘‘ نادر روزگار نثر نگار کی بہت سی دوسری تحریروں کی طرح یہ بھی شاید ایک افسانہ ہے۔ خیال و خواب کی دنیا میں برپا ہونے والی واردات، جسے خبر بنا دیا گیا۔ ایک خیال جی میں پلتا رہتا ہے، پھر کوئی منظر اسے اظہار کے لیے بے تاب کر دیتا ہے۔
جنرل عاصم باجوہ سے ملاقات تھی کہ وزیرستان اور دہشت گردی کی صورتِ حال پہ رہنمائی ہو۔ ان سے اجازت چاہی تو خیال آیا کہ دانشور بریگیڈیئر انوار سے ایک ذرا سی بات کی جائے۔ وہیں اچانک وہ خاتون نمودار ہوئی۔
بارہا عرض کیا کہ فوج ہی ملک کا واحد ادارہ ہے۔ آئی ایس پی آر کا اندازِ کار، وزارتِ اطلاعات سے مختلف ہے۔ نوجوانوں کی ایک پوری ٹیم ٹی وی پروگراموں، خبروں اور کالموں کا تجزیہ کرتی ہے۔ یہ انکشاف کئی سال پہلے ہوا، جب آئی ایس پی آر کے منہدم ہو جانے والے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے ایک تازہ دم سے ملاقات ہوئی۔ پوچھا: اس کے فرائض کیا ہیں؟ کہا: تجزیہ و تحلیل۔ سوال کیا: مثال کے طور پر اس ناچیز کی تحریریں؟ جواب ملا: سیاست ہی مگر تصوف، تاریخ، ادب اور حکایت۔ ایک ایسے آدمی کی تحریر، حیرت زدہ جو بیتے زمانوں میں جیتا ہے۔ میں حیران رہ گیا۔ تجزیہ کیا اس طرح بھی ہوتا ہے؟ جانچ اس طرح بھی کی جاتی ہے؟ ایک ہوک سی دل میں اٹھی اور کب نہیں اٹھتی۔ ملک میں صلاحیت کی کیا کمی ہے، کاش ہمارے سول ادارے بھی ایسے ہی سلیقہ مند ہوتے۔ فوج نہیں، سول ادارے تانا بانا تعمیر کرتے ہیں ۔ بے مثال فوج نہیں، بہترین پولیس استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ وہ نہیں، جو منہاج القرآن یونیورسٹی پہ چڑھ دوڑی اور کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ وہ نہیں جو چک لالہ ہوائی اڈے کے نواح میں پیہم پٹتی رہی۔
ایک فائل اٹھائے دو خواتین کمرے میں داخل ہوئیں۔ اس مودب اور شائستہ لہجے میں، جو فوجی دفتروں سے خاص ہے، دھیمی آواز میں اس نے کچھ کہا۔ ایک باپ کی سی نگاہِ شفقت سے بریگیڈیئر نے انہیں دیکھا اور کہا: یہ نادیہ ہیں۔ پہاڑوں پر چڑھتی ہیں اور اس میں ایک نیا ریکارڈ انہوں نے قائم کیا ہے۔ گلائیڈنگ کرتی ہیں، عظیم الجثہ غبارے میں سوار ہو کر وادیوں کی سنسنی خیز مسافت۔
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
مزاحاً کہا: اس طرح کے کام پشتون ہی کیا کرتے ہیں۔ بولی: جی بالکل، قبائلیوں کو لوگ ذہنی طور پر پسماندہ سمجھتے ہیں۔ قلق ہوا اور کہا: میں نے تو برعکس بات کی، آپ کی حوصلہ مندی کی۔ بتایا کہ حال ہی میں وہ بنکاک گئی تھیں، ایک عالمی مقابلے میں شرکت کے لیے۔ ''پھر آپ کام کس وقت کرتی ہیں؟‘‘ نظر اٹھا کر اس نے دیکھا اور اپنی نورِ نظر یاد آئی جو برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں ایم فل کی ریاضت میں مصروف ہے۔ رنجیدہ کہ دو کم سن بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ یہ بوجھ اس پر آپڑا ہے۔ باپ کا دل بھی دردمند ہوتا ہے مگر وہ یہ سوچتا ہے۔
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
ایک گھریلو سی خاتون، نجیب سی ایک بچی۔ اس نے کہا: تفریح فارغ اوقات میں ہوتی ہے، باقی سارا وقت کام ہی۔ پوچھا: آپ نے پڑھا کیا ہے۔ ''بین الاقوامی تعلقات پڑھ رہی ہوں‘‘ رسان سے اس نے جواب دیا اور چلی گئی۔
چلی کہاں گئی، ایک کہرام برپا کر دیا۔ ایک مجرمانہ احساس کے ساتھ میں نے سوچا: نئی نسل کو ہم نے ایک خلفشار کے سوا دیا کیا؟ ایک جواں سال آدمی عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو دنیا کا یہ سٹیج اپنے عزائم کے مقابل اسے چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے کوئی میدان ان کے لیے کشادہ نہ کیا کہ کہتے۔
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
آئی ایس پی آر کی تھکا دینے والی نوکری، اس پر کوہ پیمائی، بین الاقوامی سیاست کا مطالعہ اور پھر گلائیڈنگ۔ بریگیڈیئر نے مجھے اور بھی حیرت زدہ کر دیا۔ تعلق اس کا باجوڑ سے ہے اور اس کے والد جی ایچ کیو میں حوالدار ہیں۔ کاش ان کے لیے ہم نے بہتر ماحول مہیا کیا ہوتا، بہتر ادارے تعمیر کیے ہوتے، میں نے سوچا۔ جہاں وہ عصری علوم میں دریافتوں کے نئے جہان کھوجتے۔ غور و فکر تو مسلمانوں کا شعار تھا، پھر وہ علم سے دستبردار ہوئے۔ یورپ کی یونیورسٹیوں میں کبھی غزالی اور ابنِ رشد پڑھائے جاتے۔ ایک آدھ عشرہ نہیں، دو سو برس تک۔ اس عظیم فلسفی ڈیکارٹ کا سارا اندوختہ ہی غزالی تھا۔ اس کا ترجمہ کیا اور حوالہ تک نہ دیا۔ مسلمان معاشروں سے انہوں نے عدالت، علم اور تحقیق کا سبق پڑھا اور کمال یہ ہے کہ اپنا طریق مسلمانوں نے ترک کر دیا۔ ترک کیا اور تقلید کو شعار کر لیا۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ وہ مسلمان سحر سے شام تک پانی ڈھونے والے گدھے کی مانند ہے، ہمہ وقت جو عبادت میں لگا رہتا ہے (اور غوروفکر نہیں کرتا) اللہ کن سے محبت کرتا ہے؟ فرمایا: وہ جو اٹھتے بیٹھتے، پہلوئوں کے بل لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ وہ جو زمین اور آسمان کی تخلیق میں غور کیا کرتے ہیں... سائنس دان، جی ہاں سائنس دان۔
مغرب کا فروغ علوم کی نشاۃِ ثانیہ اور صنعتی انقلاب کا مرہونِ منت ہے، جس کے نتیجے میں جمہوری اداروں، قانون کی بالاتری اور تعلیم کے تصورات پھوٹے۔ اقبالؔ نے دیکھا اور آزردہ ہوئے۔
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
قرآنِ کریم کہتا ہے کہ درجات علم کے ساتھ ہیں۔ ہم مگر اس سے گریزاں۔ دہشت گردی کا مسئلہ اب حل ہو سکتا ہے، حادثے ہوں گے مگر رمضان المبارک کے بعد بھی ایک سے ایک اچھی خبر آتی رہے گی۔ بجلی کا بحران نمٹ سکتا ہے۔ اس کے بعد کیا؟ پولیس اور نچلی عدالتوں کی اصلاح ، صحت اور اس سے زیادہ تعلیم کی نگہبانی۔ ہم مگر خود شکنی میں مگن ہیں۔ اپوزیشن حکومت کو گرانے، حکومت اپوزیشن کو تباہ کرنے میں، حکمران ذاتی کاروبار میں مشغول۔ خدا کی پناہ، خدا کی پناہ!
قیامت کا ایک پہر گزرا۔ دل دکھ سے بھر گیا اور بھرا ہی رہا۔ ادبار سے نجات پانے اور اپنی تعمیر کے لیے ہر معاشرے کو ایک سمت کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک مربوط نظام کی۔ نئی نسل میں فروغِ تعلیم سے، ایک کے بعد دوسری جست بھرنے سے۔ کیا سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو اس کا ادراک ہے؟ اگر نہیں تو بخدا وہ فنا ہونے والے ہیں اور دوسرے ان کی جگہ لیں گے۔