گاہے خاموشی ہی زیبا ہوتی ہے۔ جنرل اطہر عباس نے سکوت توڑ کر‘ وقار کا آئینہ ہی توڑ ڈالا۔
سیاست الگ مگر میاں محمد نوازشریف امرتسری کشمیریوں کی خاص حسِ مزاح کے حامل ہیں۔ پانچ سال ادھر جنرل اطہر عباس کو جنرل کیانی نے آئی ایس پی آر کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا۔ صبح سویرے صحافی عباس اطہر کے فون کی گھنٹی بجی اور میاں صاحب کی آواز انہیں سنائی دی۔ مبارک ہو‘ شاہ جی‘ آپ ڈی جی ہو گئے۔
وہ افسانوی اخبار نویس جس کی جمائی ہوئی سرخیوں کا مجموعہ ''اِدھر ہم‘ اُدھر تم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ سرخی انہوں نے تب رقم کی تھی‘ الیکشن 1970ء کے بعد بھٹو‘ جب نئے آئین میں اپنے لیے خصوصی اختیار کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لیڈر کی ہوس اقتدار کو اخبار نویس نے چار الفاظ میں بیان کردیا۔ اس دانش پر افسوس جو آج بھی‘ ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے۔ قدرت نے اس شخص کو نمونۂ عبرت بنا دیا لیکن ترس کھانے والے معاشرے کا اجتماعی لاشعور‘ آج تک فیصلہ صادر نہ کر سکا۔ تاریخ ایسے بہت سے عجوبوں کی کہانی ہے۔
پچھلے دنوں کسی نے لکھا کہ حسین بن منصور حلاج جنیدِ بغداد کے شاگرد تھے۔ جنید اور حسین؟ وہ واحد مکالمہ جو حسین بن منصور کے حامیوں نے اس باب میں نقل کیا‘ وہ یہ ہے: حسین دیر تک اپنی مسحور کن قلبی کیفیات کی داستان سناتے رہے تو جنیدؒ نے کہا: حسین یہ کاروبار دنیا ہے‘ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اس کے باوجود سلسلہ جاری رہا تو اس آدمی نے تاریخ جسے سیدالطائفہ قرار دیتی ہے‘ یہ ارشاد کیا: حسین! میں لکڑی کے ایک ٹکڑے کو دیکھتا ہوں‘ جسے تم اپنے لہو سے سرخ کرو گے۔ ہندو اور مسیحی تصوف سے متاثر حسین اس پر تڑپ کر بولے: اور اس دن آپ اہلِ اصول کی قبا پہنے ہوں گے۔
مہنگائی اور اس کے نتیجے میں بدامنی سے پھوٹنے والی سیاسی شورش کے ہنگام لکڑی کے تختے پر حسین کے لیے کیل گاڑے گئے تو جنید اس دنیا میں نہیں تھے۔ عجمی تصوف کا مارا ہوا آدمی اب بھی ترنگ میں تھا۔ شاگرد احمد آگے بڑھا اور ایرانی نژاد سے اس نے پوچھا: کیا آپ کا نو روز آ پہنچا۔ جواب ملا: ہاں میرا نو روز آ پہنچا۔ سوال کیا گیا: اس کا تحفہ کیا ہے؟ کہا: اس کا تحفہ کشف اور یقین ہے اور میں اسے عجلت میں پا لینے پر شرمندہ ہوں۔ عباس اطہر شاعر تھے اور اپنے انداز کے مختلف شاعر‘ شب کے آخری پہر مجھے ان کی آواز سنائی دی ع
جانے والوں کا غم‘ آنے والوں کی چاہت میں گم ہو گیا
جنرل اطہر عباس کی بجائے‘ کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی تو شاید بے ساختہ یہ ناچیز اس لہجے میں لکھتا‘ جس میں لکھا کرتا ہے۔ ان کا مگر ذاتی طور پر اکرام ہے۔ وہ ایک بے حد ذہین آدمی ہیں‘ دلیل سے بات کرنے اور دلیل سے سننے والے۔ سبکدوش ہوئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور گزارش کی: آپ اہل ہیں کہ ایک تھنک ٹینک بنا لیں۔ میں اپنے لاہور‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد اور کراچی کے دوستوں سے گزارش کروں گا کہ سرمایہ فراہم کریں۔ آپ مغربی میڈیا میں‘ پاکستان کا مقدمہ لڑسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ آزادی اور جوش و جذبے کے ساتھ‘ جتنا کہ اپنے منصب و مقام پر فائز رہ کر۔ پھر میں نے پایا کہ وہ مائل نہیں۔
آتی ہے صدائے جرسِ ناقۂ لیلیٰ
صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا
زندگی ماضی میں نہیں‘ مستقبل میں ہوتی ہے۔ جو بیت گیا‘ سو بیت گیا۔ گزرا ہوا وقت صرف شاعری میں گونج سکتا‘ یا اس سے سبق سیکھا جا سکتا ہے... جنرل حضرات کا معاملہ مگر مختلف دیکھا۔ سبکدوشی کے بعد تین طرح کے رجحانات ان میں جنم لیتے ہیں۔ داڑھی بڑھا کر تبلیغی جماعت کے ہو جاتے ہیں۔ ثانیاً اپنی کھال میں داخل ہو کر گم سم‘ آزردہ اور اداس۔ یا پھر لیڈری چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی وہ کام جو ان کا نہیں۔ اول الذکر دونوں‘ ایک ہی طرزِ احساس کا الم ہیں۔ نفسیات کی اصطلاح میں اسے Self Sympathy کہا جاتا ہے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مانند‘ عزتِ نفس کے معاملے میں جو زیادہ حساس اور صاحب ظرف ہوتے ہیں‘ وہ چپ اوڑھ لیتے ہیں۔ زبانِ حال سے یہ کہتے ہوئے ؎
دیار ''شب‘‘ کی مسافت نے کیا دیا ہم کو
ہوائے شام ہمیں اب گھروں میں رہنے دے
جنرل جہاں داد ایسے کم ہوتے ہیں۔ سبکدوش ہوئے تو الشفا آئی ہسپتال قائم کیا۔ ملک میں کئی اس کی شاخیں ہیں اور 90 فیصد مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ جنرل صاحب مرحوم سے جب بھی ملاقات ہوئی‘ ایک سرور کے عالم میں دیکھا۔ بہشت بریں کی مسافت میں جی رہے تھے ؎
یوں شام و سحر کے پردے سے امید جھلکتی رہتی ہے
جیسے کسی سلمیٰ کا آنچل اٹھتا جائے‘ گرتا جائے
اختر شیرانی کی سلمیٰ ایک مفروضہ تھی‘ صاحبِ ایثار کا محبوب متشکل ہوتا ہے۔ فرمانِ رسولؐ یہ ہے کہ جو بندوں کے کام میں لگا رہے‘ اللہ اس کے کام میں لگا رہتا ہے۔
جنرل کیانی کا اکرام اس دل میں بہت ہے۔ شکایت ان سے یہ ہے کہ انہوں نے پتوار ہی ڈال دیئے۔ کہا اس مداح سے یہ تھا: میں فوج سے ریٹائر ہو رہا ہوں‘ زندگی سے نہیں۔ کاش وہ اپنی سوانح رقم کرتے‘ کاش‘ مغرب کے تھنک ٹینکس میں لیکچر دیتے۔ آج روئے زمین پر کوئی دوسرا لیڈر نہیں‘ افغانستان کو جو ان سے زیادہ جانتا ہو‘ مگر افسوس کہ انہوں نے خامشی کو شعار کیا۔
وہ اسباب تو خود جنرل اطہر عباس کے کلام میں آشکار ہیں‘ جن کی بنا پر تب‘ شمالی وزیرستان میں کارروائی ممکن نہ تھی۔ اگر اس وقت ایسا کیا جاتا تو امریکی فیصلہ گردانا جاتا اور ممکن ہے کہ قومی اکثریت ناراض و نالاں ہو جاتی۔ سامنے کا یہ نکتہ جنرل اطہر عباس کیسے بھول گئے کہ ایسے کسی فیصلہ کن اقدام کے لیے قومی اتحاد کی ضرورت کتنی شدید تھی۔ انہیں یاد ہوگا‘ سوات میں اقدام کا فیصلہ تب ہوا تھا‘ صوفی محمد کی طرف سے پارلیمنٹ‘ آئین اور عدالتوں کی مذمت کے بعد‘ جب ملک گیر ردعمل نے جنم لیا۔ جن مہ و سال کے رائگاں ہونے کا انہوں نے ذکر کیا‘ انہیں رائگاں ہونا تھا۔ پاکستان کو تاریکی میں رکھ کر یہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر امریکی حملے کے دن تھے‘ یہ سلالہ کی چوکی پر انکل سام کی یلغار کے ایام تھے۔ جب سات ماہ کے لیے نیٹو کی سپلائی روک دینا پڑی۔ اس وقت آپریشن اول درجے کی حماقت ہوتی۔ پاک فوج کے اس فرزند کرنل راجل کو وہ دن آج بھی یاد ہے کہ امریکیوں نے کس طرح پاک فوج کے فرزندوں پر آگ اور لوہے کی بارش کی تھی۔ سانحۂ ایبٹ آباد کے فوراً بعد جنرل کیانی سے ملاقات ہوئی تو جنرل شجاع پاشا بھی موجود تھے۔ بولے: اگر وہ ہمیں شریک کر لیتے تو دس سال تک امریکہ میں کوئی ہمارے خلاف بات نہ کر سکتا۔ ناچیز نے لکھا‘ حضور! بالکل نہیں‘ قوم تقسیم ہو گئی ہوتی۔ جنرل کیانی اداس تھے۔ اس شب کی روداد سنائی۔ وہ ایٹمی تنصیبات کو خطرے میں پاتے تھے۔ ایک ایک کی خبر لیتے رہے۔ قرار آیا تو میکملن کو فون کیا: اگر ایسا ایک واقعہ اور ہو گیا تو پاک امریکہ تعلقات ہوا میں ہوں گے۔ عسکری قیادت نے اس پر غور کیا کہ اس رشتے کو توڑ ڈالا جائے لیکن پھر حکمت غالب آئی۔ چار نکات ہمیشہ جنرل کیانی کے سامنے تھے‘ عوامی تائید‘ سرکاری حمایت‘ آزادانہ فیصلہ اور کارروائی پر امریکی ضمانت کہ دوسری طرف وہ سامنے موجود ہوں گے۔ ان میں سے کوئی چیز حاصل نہ ہو سکی۔ نہیں‘ اس وقت یہ ممکن نہیں تھا۔ بعد میں انہوں نے تیاری کر لی اور نومنتخب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو بتایا۔ دو ہفتے کے نوٹس پر‘ تین ہفتے کی کارروائی میں‘ زیادہ تر کام نمٹ جائے گا۔ کارروائی کے لیے یہی وقت موزوں تھا کہ مذاکرات ناکام ہو چکے تھے۔ نون لیگ کی حکومت‘ عمران خان اور میڈیا کی تائید حاصل ہو گئی۔ سرکارؐ یاد آئے: جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتا ہے‘ وہیں سے شیطنت آغاز کرتی ہے۔
حسین بن منصور حلاج کے لیے شبلی کا پھول ایک حکایت ہی تھا مگر بامعنی حکایت۔ جنرل کیانی کو کسی دشنام سے بھی اتنا صدمہ نہ ہوا ہوگا‘ جتنا جنرل اطہر عباس کے پھول سے۔ باقی حد ادب۔ شبلی نے درحقیقت یہ کہا تھا: حسین! کیا میں نے تمہیں جنوں اور انسانوں سے منع نہ کیا تھا۔ گاہے خاموشی ہی زیبا ہوتی ہے‘ جنرل صاحب خاموشی۔ سکوت توڑ کر آپ نے وقار کا آئینہ ہی توڑ ڈالا۔