کیسے یہ لیڈر ہیں، شعبدہ بازی کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں۔ کیسی یہ قوم ہے کہ تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کر سوئی پڑی ہے۔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔
ایک دیوار کی دوری ہے قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
آپریشن وزیرستان کے ساتھ امید کی ایک کرن پھوٹی۔ بجلی کا بحران اگر تمام ہو سکے۔ دہشت گردی کا عفریت اگر زیرِ دام آ جائے؟
شیخ صاحب نے ٹرین مارچ ملتوی کیا اور عمران خاں نے بہاولپور کا جلسہ۔ اس کے بعد مگر ماڈل ٹائون کا سانحہ برپا ہوا۔ تحریکِ انصاف نے اب لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ ایک بار پھر وہی صف آرائی۔ ایک بار پھر وہی سستے اور بازاری بیانات۔ پرویز رشید حسبِ معمول۔ پانچویں سوار صدیق الفاروق کے علاوہ نئے شہسوار ارسلان افتخار ہیں۔ کس دھج سے نکلے ہیں۔ عجیب لوگ۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا انہیں دکھائی دیتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ اونٹ نگلتے اور مچھر چھانتے ہیں۔
دہشت گردی دس بلین ڈالر سالانہ کا نقصان پہنچاتی ہے۔ فقط بجلی کے بحران سے چار بلین سالانہ کا خسارہ، یہی نہیں، سرمائے کا فرار۔ صرف کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور سے روزانہ 25 ملین ڈالر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ایسی عاقبت نااندیش قوم دنیا میں کوئی دوسری بھی ہو گی؟
ارسلان افتخار کے حوالے سے بحث اٹھی تو باخبر لوگوں کو اس ناچیز نے بتایا: ملک میں سونے کے 48ذخائر ہیں۔ پاک ایران سرحد سے وزیرستان تک۔ عام طور پر رکوڈک کا ذکر ہی
کیا جاتا ہے۔ سرما میں دریائے سندھ کا پاٹ مختصر ہو جائے تو میانوالی کی خواتین ریت میں سونے کے ذرے ڈھونڈتی ہیں، صدیوں سے۔ سوات میں منبع تلاش کر لیا گیا۔ ایک ہزار بلین ڈالر کا سونا۔ حیران کن یہ کہ اس کا کچھ حصہ بالائے زمین ہے۔ جانچنے والے سرکاری ادارے کے دردمند سربراہ اس مٹی کے کچھ ٹکڑے اٹھا لائے۔ سنہرا رنگ جھلک رہا تھا۔ دس لاکھ میں سے 45 ذرے اگر سونے کے ہوں تو کان کنی قابلِ عمل ہوتی ہے، یہاں 96 تک اور کہیں اس سے زیادہ بھی۔ دو ماہ ہوتے ہیں، عمران خان کو بتا دیا تھا۔ اخبار میں پختون خوا کی معدنی پالیسی کا ذکر پڑھا، خان کا بشاش چہرہ دیکھا تو تعجب ہوا۔ اس نے فون کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ اسے میں نے بتایا تھا کہ حسنِ اتفاق سے میرے پاس کچھ ضروری اور مستند معلومات ہیں۔ کچھ لوگوں سے میں اسے ملوا سکتا ہوں۔ رنج ہوتا ہے مگر شکایت ہرگز نہیں۔ حال ان کا یہ ہے کہ دو بار پشاور کے دورے پہ اصرار کیا کہ پختون خوا حکومت کی یک سالہ کارکردگی کا محاکمہ لکھا جائے۔ مصروفیت کے باوجود، دونوں بار آمادگی ظاہر کی مگر ایک فون کرنے کی فرصت کسی فرمائش کرنے والے کو بھی نہ تھی۔
وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کو پیغام بھیجا کہ ایک مستند کمپنی کے مطابق چنیوٹ سے کالا باغ تک 50 بلین سے 100 بلین ڈالر تک کا لوہا دریافت ہواہے۔ چین جس کا بے تاب خریدار ہے۔ اگر وہ پسند کریں تو متعلقہ ماہرین سے بات کرا دی جائے۔ انتظار کے بعد قلق سے لکھا کہ حضور سیاست میرا کاروبار ہے اور نہ میں کسی مفاد کی تلاش میں ہوں۔ یہ کوفت ملک کی خاطر گوارا ہے۔ خادمِ پنجاب کی ہمالیہ ایسی انا راہ میں حائل کھڑی ہے۔
زرداری صاحب نے رکوڈ ک کو 500 ملین ڈالر میں بیچ دیا ہوتا مگر اعظم سواتی حائل ہوئے۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ بلوچستان کے مجذوب وزیرِ اعلیٰ اسلم رئیسانی بھی ڈٹ گئے۔ سپریم کورٹ بروئے کار آئی اور خفیہ سمجھوتہ منسوخ کر دیا گیا۔ ڈیڑھ سال ہوتا ہے، اس مرحلے پر امریکی کمپنی کا مجھ سے رابطہ ہوا، ایک ممتاز پاکستانی جس کا حصہ ہیں۔ تین باتیں میں نے ان سے کہیں۔ اوّل یہ کہ معاملات مکمل طور پر شفّاف ہوں گے۔ ثانیاً ٹینڈر بین الاقوامی ہو گا۔ ثالثاً سونا جس علاقے سے دریافت ہو، خاص طور پہ بلوچستان، آمدن کا ایک قابلِ ذکر حصہ اس کے غریبوں پہ خرچ ہو گا۔ پیشہ ورانہ تربیت اور روزگار کی مستقل فراہمی کے منصوبوں پر۔ یہ بھی گزارش کی کہ اگر دوسری کسی کمپنی کی پیشکش بہتر ہوئی تو آپ کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ انہوں نے اتفاق کیا۔ اس موضوع پر بعض اخبارات میں جو خبریں چھپیں، وہ انہی گفتگوئوں کا نتیجہ ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چپ رہنے کا تہیہ کر رکھا ہے وگرنہ وہ گواہی دیتے کہ سالِ گزشتہ کچھ تفصیلات ان کی خدمت میں پیش کی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نقب زنی پر تلی ایک کمپنی نے اسلم رئیسانی کا تختہ الٹنے کا ارادہ کیا۔ خون آشام بھیڑیے دبئی میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے۔ جسے بتانا ضروری تھا، بتا دیا۔
سب جانتے ہیں کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر اس کے سوا ہیں، جن کی مالیت سعودی عرب، عراق اور ایران میں تیل کے ذخائر سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے پاس ایک منصوبہ ہے، جس پر عمل ہو تو مزید آٹھ گنا زمین زیرِ کاشت آ سکتی ہے۔ یہی غنیمت ہے کہ حکومت نے انہیں گرفتار نہ کیا۔ درآں حالیکہ شہزادہ حمزہ شہباز کے کاروبار پہ انہوں نے پھبتی کسی تھی۔ شاہی خاندان کی شان میں گستاخی کے باوجود وہ بخیریت ہیں۔
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے
کتنے ہی شاندار مواقع ہم نے کھو دیے۔ 1991ء کے آغاز میں برطانیہ سے پاکستانی ماہرین کی ایک ٹیم وطن پہنچی۔ سلاطینِ وقت کو انہوں نے بتایا کہ معیشت کا مستقبل انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے۔ تب اگر آغاز کر دیا جاتا تو آج ملک 20 ارب ڈالر سالانہ کما رہا ہوتا۔ مسلّمہ طور پر پاکستانی نوجوان اس میدان میں بہترین ہیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کے صاحبزادے بی ایس سی کے طالبِ علم تھے کہ جاپانی کمپنی نے پانچ ہزار ڈالر کی پیشکش کی۔ ناچیز کا ایک فرزند اتنی ہی تعلیم کے ساتھ اس میدان میں آسودہ ہے۔ پاکستانی ماہرین نامراد لوٹے کہ جس سے بات کی، اس کی رال ٹپکی۔
عسکری قیادت کو یقین ہے کہ نائن الیون کا حادثہ اگر نہ بھی ہوتا تو افغانستان میں امریکی لازماً اترتے۔ بنیادی سبب افغانستان اور پاکستان کی معدنیات ہیں۔ سونے کے علاوہ بھی بہت سی، مثلاً ٹائیٹینیم۔ صنعتی ماہرین، کاروباری اکابر اور اسلام آباد کی غلام گردشوں میں رازداری سے اس پر گفتگو ہوتی ہے۔
ایک بدقسمت قوم، جس نے خود کو حکمرانوں کے حوالے کر رکھا ہے۔ پنجاب کے 65000 تعلیمی ادارے ضروریات سے محروم ہیں۔ چند عدد دانش سکول بنا کر احسان جتلایا گیا۔ ہسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا حال بد سے بدتر ہے اور سرمایہ میٹرو بسوں پہ اڑتا ہے۔ محترمہ مریم نواز کی سیاست کے لیے ایک سو ارب روپے مختص۔ سڑکوں، پلوں اور عمارتوں کی تعمیر میں 30 فیصد ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ ملک کی واحد سٹیل مل برباد ہو گئی اور خادمِ پنجاب چنیوٹ میں ایشیا کا سب سے بڑا کارخانہ تعمیر کرنے کا خواب دکھاتے ہیں۔ چین سے 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر بات چیت ہے۔ قوم بے خبر ہے، پارلیمنٹ اور کابینہ بھی۔ سیاسی جماعتیں افراد یا خاندانوں کی جیب میں پڑی ہیں۔ رضا ربّانی پریشان ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ کون سی جمہوریت؟
کیسے یہ لیڈر ہیں، شعبدہ بازی کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں۔ کیسی یہ قوم ہے کہ تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کر سوئی پڑی ہے۔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔
ایک دیوار کی دوری ہے قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے