سب ظفر مندیاں اور سب کامیابیاں داخلی ہوتی اور آدمی کے طرزِ احساس سے پھوٹتی ہیں ۔ مشورہ اسے دیا جا سکتاہے ، جو سننے پر آمادہ ہو ۔کسی عقلِ کل کو کون سمجھا سکتاہے ، کون سکھا سکتاہے ؟
ایک حد تک قابلِ فہم ہے ۔ اگر فوجی قیادت حکمرانوں اور سیاستدانوں کو شائستگی سے توجہ دلائے کہ دفاعِ وطن کے لیے ان کا اتحاد مطلوب ہے ۔ سوال دوسرا ہے ، کیا بالآخر حالات اتنے سنگین ہو سکتے ہیں کہ براہِ راست مداخلت کرنی پڑے؟ مارشل لا نہ سہی مگر بعض چیزوں پہ اصرار؟
بدھ کو احسن اقبال کی پریس کانفرنس کا مفہوم اگر وہی ہے ،جو سمجھ میں آیا تو صورتِ حال خطرناک ہے ۔ اس لیے نہیں کہ سول اور فوج میں اختلاف بڑھ گیا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ کم ہوا ہے ۔ اسی روز جنرل راحیل شریف وزیراعظم سے خوشگوار ماحول میں ملے ۔ مشکوک میڈیا گروپ کی حمایت اور دوسرے معاملات پر تلخی کے بعد وزیراعظم اور ان کے رفقا محتاط ہیں اور خود جنرل حضرات بھی ۔ یہ ایک نیک شگون ہے۔ احسن اقبال نے مگر جو کچھ کہا، وہ چونکا دینے والا ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھاکہ مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے۔ پیر کو رانا ثناء اللہ نے کہاتھا کہ احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کی پشت پر خفیہ ہاتھ ہے ۔ یہی بات احسن اقبال نے کہی اور قدرے مختلف پیرائے میں ۔ رانا صاحب جیسے ہیں ،ویسے ہی نظر آتے ہیں ۔ احسن اقبال کا ہنر یہ نہیں کہ بہتر اظہارِ خیال پہ قادر ہیں بلکہ یہ کہ فنِ اداکاری میں کمال رکھتے ہیں ۔ اچھے بھلوں کو میں نے دیکھا ہے کہ انہیں دانشور سمجھتے ہیں ؎
اہلِ دانش عام ہیں، کمیاب ہیں اہلِ نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایّاغ
نصرت جاوید کہتے ہیں : اقبالؔ ایک عظیم شاعر تھے اور بے پناہ امید پرست۔ نہیں ، وہ اس سے کہیں زیادہ تھے ۔ ایک عظیم مفکر ، جو دینیات، فلسفہ ، تاریخ اور انسانی جبلّتوں کے تعامل کو خوب سمجھتے تھے۔ اگر عہدِ رواں میں وہ موجود ہوتے تو کس طرح کی شاعری کرتے ؟
امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے
یہ خاک باز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند
یا اس خیال کو با اندازِ دگر وہ پیش کرتے ، جس کا اظہار پنجاب اور یوپی کے بعض لیڈروں کے بارے میں کیا تھا۔
اس دور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک
وہ سب ،حافظ شیراز نے جن کے بارے میں یہ کہا تھا ''چوں بہ خلوت می روند‘ کارِ دیگر می کنند‘‘
بظاہر احسن اقبال نے فوج کی طرف اشارہ کیا ہے ۔بیچارے ہیں ، قابلِ معافی ہیں ، گھبرائے ہوئے ۔ درآں حالیکہ کوئی بڑا بحران درپیش نہیں ۔ ذرا سی سلیقہ مندی سے اگر کام لیں تو دلدل سے نکل کر کنارے پہ استراحت فرما سکتے ہیں، چھائوں میں۔ سناہے کہ بالآخر اس پر آمادگی ہے ؛اگرچہ بھروسہ ان کا کوئی نہیں۔
آدمی کا معاملہ عجیب ہے۔ اپنی افتادِ طبع کا وہ اسیر ہوتاہے ۔ نون لیگ ایک عجیب ٹولہ ہے ۔ اپنے آپ سے ہمدردی (Self Sympathy) ان میں بہت ہے۔ بار ہا عرض کیا تھا کہ شریف خاندان کو اقتدار ملا تو میڈیا کو اندازہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی میں تحمل زیادہ ہے ۔ عدالتوں کو انہوں نے برداشت کیا، اپوزیشن اور اخبار نویسوںکو اس کے سوا۔ وہ جیسے ہیں ، خود کو ویسا ہی سمجھتے ہیں ۔ اپنے آپ کو پارسا بناکر پیش نہیں کرتے ۔ نون لیگ کے حکمرانوں کی نفسیات قدرے پیچیدہ ہے ۔ وہ واعظ ہیں ، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل غلام جیلانی خان کی گود سے ابھرنے کے باوجود جمہوریت کے ایسے علمبردار کہ کبھی کوئی تھا ہی نہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے ہی سخت گیر اور منتقم مزاج تھے مگر کیا وہ تصور کر سکتے تھے کہ حمزہ شہباز کی طرح مرتضیٰ بھٹو سندھ میں شریک وزیرِ اعلیٰ ہوں ؟ کیا وہ جواں سال بے نظیر کو سیاست میں متعارف کرانے کے لیے اربوں روپے کا منصوبہ شروع کرنے کا خواب بھی دیکھ سکتے ؟ کامیابیاں آدمی کو گمراہ کرتی ہیں ۔ وہ اپنے تصورات کے جال میں پھنس جاتاہے ۔ اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں گرجاتا اور تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتاہے ۔ تمام حکمران خاندانوں کا انجام یہی ہے ۔
نپولین کا وہ جملہ پھر یاد آیا: سیاست میں دشمن ہوتے ہیں یا حلیف، دوست کوئی نہیں ہوتا۔اگرچہ شہباز شریف خطابت کا مظاہرہ فرمایا کرتے، زرداری صاحب کی حکومت کو شریف خاندان نے گرنے نہ دیا ۔ پنجاب میں مرکز کی ذرا سی مداخلت بھی نہ تھی ۔ ثانیاً اگلی بارکا ان سے وعدہ تھا۔ سندھ میں ویسی ہی آزادی کے اب وہ طالب ہیں ۔ پولیس افسروں کے بارے میں موقف وزیراعظم کا بجا سہی ۔ مفاہمت تو مگر یہ تھی کہ مداخلت ہرگز نہ ہوگی۔ سندھ کے جنگل میں وہ انڈے دیں یا بچّے ۔ اربوں کی خریداری کے موقع پر اپنی مرضی کا آئی جی وہ کیوں نہ مقرر کریں ۔ کیا حمزہ شہباز ، چینی کمپنیوں سے لین دین یا میٹرو بس میں وہ مداخلت کرتے ہیں ؟ احسن اقبالوں اور پرویز رشیدوں کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ آصف علی زرداری سے معاملہ طے ہو جائے گا۔ وہ ایک سادہ سے تجارت پیشہ آدمی ہیں ۔
رہی فوجی قیادت ، خواجہ آصف ، خواجہ سعد رفیق ، پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ جس سے سر ٹکراتے رہے تو ہم ناچیز لوگوں کی رائے میں وہ حکومت سے الجھنے کی آرزومند ہے اور نہ ان کے مخالفین کی پشت پناہ۔ ایک بڑی جنگ اسے درپیش ہے۔ اپنی توجہ اسی پر وہ مرکوز رکھنا چاہتی ہے ۔
بعض پالیسی امور پر اختلاف ہے اور ڈھکا چھپا نہیں ۔ مثلاًبھارت سے مراسم بہتر بنانے کے عمل میں کمزوری اور بے تابی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ، معمول کا سفارتی انداز اختیار کیا جائے۔ حامد کرزئی ناقابلِ اعتبار ہے ۔ دہشت گردوںکو وہ پناہ دیتا اور اس کی خفیہ ایجنسی خدمتِ اطلاعاتِ دولتی بھارتی ''را‘‘ سے مل کر کام کرتی ہے ۔وہ ایک بلیک میلر ہے اور ایسے لوگوں سے مفاہمت ممکن نہیں ہوتی ۔عسکری قیادت دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر نواز حکومت کو قائل کرنے میں کامیاب رہی ۔ باقی امور میں بھی تلخی شدید نہیں ۔ مثال کے طور پر جنرل پرویز مشرف کا مسئلہ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، نون لیگ کے لیڈروں کی اکثریت اس معاملے کو سلجھانے کی حامی ہے ۔ نادان آدمی ایک خیال کو سینچتا رہتاہے ۔ دستبردار ہونا پڑے تو اذیت ہوتی ہے ۔ وزیراعظم اور ان کے ساتھیوںکا مخمصہ یہی ہے ۔ بھٹو دانا تھے کہ ایوب خان اور یحییٰ خان سے انتقام کی آرزو نہ پالی ۔
فوج نے اپنے تجربات سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہے ۔ مارشل لا کی نوبت انشاء اللہ اب نہیں آئے گی ۔ ملک کو سول ادارے ہی ڈھنگ سے چلا سکتے ہیں ۔ فوج سٹیرائیڈ (Steroid)دوا کی طرح ہوتی ہے ۔ وقتی فائدہ اور دیر پا نقصان۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی افواج کو بتدریج سیاست سے دور لے گئے ۔یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہیے۔ پیشکش یہ کرنی چاہیے کہ فوج ،سول اداروں ،پولیس، انٹیلی جنس اور تعلیم کوبہتر بنانے میں غیر مشروط تعاون کرے گی ۔ پچھلی صدی میں فرانس کے تعلیمی اداروںکو اس کی سپاہ نے سنوارا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مداخلت کم سے کم ہونی چاہیے۔ نجات کی راہ یہی ہے ۔
رہا چودہ اگست تو جعلی تفاخر اور ضد کا بے لچک روّیہ تباہی لا سکتاہے ۔ کیا کیجیے ، مگر کیا کیجیے ۔ آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ سب ظفر مندیاں اور سب کامیابیاں داخلی ہوتی اور آدمی کے طرزِ احساس سے پھوٹتی ہیں ۔ مشورہ اسے دیا جا سکتاہے ، جو سننے پر آمادہ ہو ۔کسی عقلِ کل کو کون سمجھا سکتاہے ، کون سکھا سکتاہے؟