جب تک علم کے بل پر ان کی اجتماعی قوت اور بصیرت بروئے کار نہ آئے گی ، اسی طرح لاچار وہ رہیں گے ۔ اقبالؔ نے کہا تھا: اے کشتۂ سلطانی و ملّائی و پیری ۔ احمد ندیم قاسمی یاد آتے رہے ؎
ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
بالشت بھر کی لونڈیا اٹھی اور جدید ملائیشیا کے معمار مہاتیر محمد سے (معاذ اللہ) اس نے کہا : اگر قرآنِ کریم میں کچھ خامیاں ہیں تو ہم انہیں دور کیوں نہیں کر لیتے۔ اتفاق سے یہ ناچیز وہاں موجود تھا۔ اسی کی تجویز پر تحریکِ انصاف نے آہنی عزم اور جذباتی توازن کے اس رہنما کو مدعو کیاتھا۔ سوا ل ، جواب کا وقفہ تھا اور تمام ہونے والا تھا۔ کبھی لفظ نہ چبانے والے آدمی نے آواز بلند نہ کی اور یہ کہا: خامیاں قرآنِ کریم میں نہیں ، ہم میں ہیں اور ہمیں ان سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
اگر تم مسلمان کی زندگی چاہتے ہو تو اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں کہ قرآنِ کریم کے سانچے میں ڈھلو۔ اقبالؔ کی وفات کے فوراً بعد سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا تھا: جس شراب(مغربی تہذیب ) کے دو چار جام پی کر لوگ بہکنے لگتے ہیں ، مرحوم اس کے سمندر پیے بیٹھا تھا۔ جوں جوں وہ اس کی تہہ میں اترتا گیا، وہ اور زیادہ مسلمان ہوتا گیا ، حتیٰ کہ قرآن اس کے لیے شاہ کلید (Master Key)بن گیا۔
مغرب سے مرعوب یہ صرف جدید تعلیم یافتہ لوگ ہی نہیں ، جو قرآن سے بے نیاز ہیں‘ ایک دوسرے انداز سے ملّا نے بھی یہی مسئلہ پیدا کیا ؎
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ملّا سے اقبالؔ کیوں بے زار تھے ؟ اس لیے کہ وہ فرقہ پرست ہے ۔ اللہ کی کتاب، رسولِ اکرمؐ کی سیرت اور عہدِ اوّل کی تاریخ سے اکتسابِ نور کی بجائے، وہ اپنے اپنے اساتذہ کے اسیر ہیں ۔ ایک آدھ نہیں ، آج بھی ہزاروں علما موجود ہیں ، جو قائداعظم سے عناد رکھتے ہیں ۔ اس آدمی سے، دشمن بھی جس کے اجلے کردار کا شاہد تھا۔ آخر کیوں ؟ اس لیے کہ فرقہ پرستوں کو اس نے شکست سے دوچار کیا تھا۔ وہ آدمی جس نے متحدہ ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ ٹھکرا دی تھی ۔ جس نے مسلم لیگ کی مستقل صدارت قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
2000ء کو ایک چاندنی شب میں ، خشک سالی کے مارے بلوچستان کے ایک ریگ زار میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کا ایک واقعہ میں نے ہم سفر علمائِ کرام کو سنایا۔ ایک شام ان کے شاگردِ عزیز مفتی محمد شفیع نے انہیں اداس پایا۔ پوچھا تو یہ کہا : میری زندگی رائیگاں رہی ۔حیرت سے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی زندگی رائیگاں رہی تو ہم جیسوں کا کیا ہوگا؟ فرمایا: جی ہاں ، ضائع ہو گئی اور فقۂ حنفی کی بالادستی ثابت کرنے کی جدوجہد میں ۔ ان علماء میں سے ایک قادرالکلام نے ، جس کا ارشادتھا کہ ملّا عمر کے اقتدار میں اصحابِ رسولؓ کا دور واپس آگیا ہے ، برا سا منہ بنا کر یہ کہا : کیسی کیسی کہانیاں لوگ گھڑلیتے ہیں ۔ گزارش کی: تحقیق فرمالیجیے ۔ یہ رودادانہوں نے خود اپنے قلم سے لکھی ہے ۔
امام ابو حنیفہؒ کی عظمت میں کس کو کلام ہے؟ علی بن عثمان ہجویری (داتا گنج بخشؒ ) جامعہ دمشق میں محوِ خواب تھے کہ سرکارؐ کی زیارت نصیب ہوئی ۔ ایک نحیف بزرگ ان کے ہمراہ تھے ، بائیں ہاتھ جنہیں لے رکھا تھا۔ خوابوں کی تعبیر رکھنے والا عظیم سکالر یہ جانتا تھا کہ یہ اپنائیت کا اظہار ہوتاہے ۔فرمایا: یہ ابو حنیفہ ہیں۔برسوں بعد انہوں نے لاہور کا رخ کیا۔ دیوار بند چھوٹے سے شہر کے باہر، جسے ابھی ابھی محمود غزنوی نے آنند پال کے وحشیانہ اقتدار سے نجات دلائی تھی ، ایک کٹیا میں انہوں نے بسیرا کیا۔ پھر دھیرے دھیرے ، رفتہ رفتہ لاہور کو آباد کرنے والے بھٹی ،ر اجپوت اور گرد و نواح کے جاٹ مسلمان ہونے لگے ۔ شیخِ ہجویرؒ نے کیا انہیں فقۂ حنفی کی عظمت کا درس دیا تھایا اپنے پروردگار سے تعلقِ خاطر کا ؟ وہ آدمی، جس کا قول یہ ہے : ہر علم میں سے اتنا تو حاصل کرو، جتناخدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔
کئی دن سے طبیعت بوجھل ہے ۔ ٹیلی ویژن پر فلسطین کے خونیں مناظر۔ اپنے مرحوم دوست فاروق گیلانی یاد آتے رہے۔ افغانستان پر امریکی بمباری کے ہنگام انہوں نے یہ کہا تھا: اس زندگی سے موت بہتر ہے ۔ اسامہ بن لادن کی مہم جوئی نے انکل سام کو افغانستان پر آگ برسانے کا بہانہ فراہم کیا اور پاکستان ہم نوائی پہ مجبور تھا۔
مغرب کی خیرہ کن ترقی سے مسافروں کا ایمان متزلزل ہو جاتاہے۔ اقبالؔ بھی وہاں گئے تھے اور یہ کہا تھا ؎
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سیپارہ
مغرب کی برتری علم کے طفیل ہے ۔ قانون کی بالاتری اور اداروں کی تشکیل۔ یہ آزادی ہے، جو بہترین انسانی صلاحیت بروئے کار لاتی ہے ۔ مصطفی کمال اتا ترک نے مغرب سے مسحور ہو کر اس کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈال لیا۔ پھر کیا وہ فروغ پا سکا؟ فوج گردنوں پہ مسلّط ہو گئی ۔
چا ک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
اذان پہ پابندی لگا دی گئی اور دینی تعلیم پر بھی ؛حتیٰ کہ اپنی زبان کو انگریزی حروف میں ڈھالا۔ آخر اقتصادی نمو ممکن ہوئی تو چھ عشروں کے بعد اس وقت، جب اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانے والے اقتدار میں آئے۔ ہاں مگر وہ مولوی نہیں، سیاستدان ہیں ۔ مہاتیر محمد بھی نہیں ۔ کاروبارِ حکمرانی سیاست کاروں کا کام ہے، علمائِ دین کا نہیں ۔ ان کا اپنا میدان ہے ، جس سے وہ وفا نہیں کر سکے ۔ ایک دوسرے کو تباہ کرنے میں لگے رہتے ہیں یا حصولِ اقتدار کی اس کوشش میں جو بے ثمر رہتی ہے یا فساد پہ منتج!
حکمران مغرب کے معنوی فرزند ہیں۔ اس کے باجگزار اور اس کے دریوزہ گر۔ادھر دانشور ہیں ،کبھی سوویت یونین ، کبھی امریکہ کے گیت گانے والے ۔ روسی سفارت خانے سے الکحل کی بھیک مانگنے یا این جی اوز کے لیے کشکول پھیلانے والے ؎
ہوائیں ان کی فضائیں ان کی، سمندر ان کے جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
فلسطین ہی لاچار نہیں ، کشمیر بھی ہے ، افغانستان ، عراق، شام ، بوسنیا اور چیچنیابھی ۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان بھی۔ کہا جاتاہے کہ ایک ارب مسلمان ہیں اور بے بس۔ مسلمان وہ تھا، فاروقِ اعظمؓ سے جس نے پوچھنے کی جرأت کی تھی : ایک ہی چادر تھی ،اتنے لمبے قد کے ساتھ آپ کا کرتا کیسے بن گیا جنابِ والا؟ مسلمان وہ خاتون تھی ، جس نے کہا تھا: خطاب ؓ کے فرزند ، اللہ نے مہر مقرر نہیں کیا تو آپ یہ حکم کیونکر دے سکتے ہیں ؟ ملائیشیا اور ترکی میں مسلمان کو قدرے آزادی ملی تو وہ سرخرو ہونے لگے ۔ معاشی آزادی ، فکری حریت، علوم کا فروغ۔ فلسطین ہو یا کشمیر، مدد کرنی چاہیے اور فریاد بھی۔ مستقل علاج مگر مستقل حل چاہتاہے ۔ مسلم عوام جب تک آزاد نہیں ہو ں گے ، جب تک علم کے بل پر ان کی اجتماعی قوت اور بصیرت بروئے کار نہ آئے گی ، اسی طرح وہ درماندہ رہیں گے ۔ اقبالؔ نے کہا تھا: اے کشتۂ سلطانی و ملّائی و پیری ۔ احمد ندیم قاسمی یاد آتے رہے ؎
ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا