بحران کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ فیصلہ صادر کرنے والی قوتیں اگر ہیجان میں مبتلا ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ احتیاط جناب والا‘ احتیاط!
میاں محمد نوازشریف آزادی پریڈ کے لیے روانہ ہو رہے تھے کہ ایک مشیر نے ان کے کان میں کچھ کہا: بتایا گیا ہے اور ایک قابل اعتماد ذریعے نے بتایا ہے کہ ان کی طبیعت بجھ گئی۔ اپنے بعض ساتھیوں کو انہوں نے روک دیا اور خود تقریب میں تشریف لے گئے۔ ان کی طبیعت بجھی ہوئی نظر آئی اور ملک بھر میں مبصرین نے اس کا ادراک کیا۔ وزیراعظم کو رانا مشہود کی اس غیر ذمہ دارانہ گفتگو کے بارے میں بتایا گیا‘ جس میں وزیراعلیٰ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور محترمہ مریم نواز کے بارے میں انہوں نے ایسے جملے ارشاد کیے‘ اب جن کا ہمیشہ حوالہ دیا جاتا رہے گا۔ میاں محمد شہباز شریف کو تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنا پڑی۔ کیا موزوں نہ تھا کہ کم از کم کچھ دن کے لیے وہ خاموش ہو جاتے۔ اگر اللہ نے اس قدر سوجھ بوجھ انہیں عطا نہیں کی تو پارٹی کی قیادت انہیں ایسا کرنے کا حکم دیتی۔
بالکل برعکس گوجرانوالہ کا المناک واقعہ رونما ہوا تو ٹیلی ویژن پر وہ نمودار ہوئے۔ دو منٹ پہلے ایک پولیس افسر یہ کہہ چکا تھا کہ نون لیگ کے کارکن ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے جوتے لہرائے۔ جلوس کے شرکا ہی نہیں‘ عمران خان کے کنٹینر پر بھی انہوں نے پتھر برسائے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو مارا پیٹا اور فضا میں جوتے
لہراتے رہے۔ بہت دیر تک یہ تماشا جاری رہا۔ صورت حال اتنی سنگین تھی‘ نون لیگ کے کارکن اس قدر بے قابو تھے کہ پولیس کو گولی چلانا پڑی۔ رانا مشہود کو ایسے میں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے تھا؟ اگر ان کارکنوں کے احمقانہ طرزِ عمل پر وہ افسوس کا اظہار کرتے اور یہ کہتے کہ انشاء اللہ اب ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہوگا۔ حیران کن طور پر اول تو انہوں نے یہ ارشاد فرمایا کہ حملے کا آغاز عمران خان کے حامیوں نے کیا ہے‘ پھر ششدر کر دینے والا یہ انکشاف کیا کہ جلوس کے شرکا کی تعداد زیادہ سے زیادہ چھ ہزار ہے۔ ان کے بقول مایوسی کا شکار عمران خان اب اسلام آباد پہنچنے سے گریزاں ہیں۔ وہ ناکامی کا شکار ہیں اور کوئی بہانہ تلاش کر رہے ہیں۔ ٹی وی میزبان چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے کسی نازیبا حرکت کی ہرگز کوئی اطلاع نہیں۔ رانا مشہود نے مگر شرمندہ ہونے سے انکار کردیا۔
فضا میں تلخی پہلے سے موجود تھی۔ دو دن قبل نون لیگ کے ایک احتجاجی جلوس نے زمان پارک کا رخ کیا اور عمران خان کے گھر پر پتھر پھینکے۔ گلو بٹ جیسا کوئی جیالا ان کی قیادت فرما رہا تھا‘ جسے بعدازاں راہ فرار اختیار کرتے ہوئے دیکھا‘ سرپٹ! لاہور سے عمران خان کا جلوس روانہ ہوا تو آزادی چوک پر نون لیگ کے سینکڑوں حامی یکایک امنڈ آئے۔ اپنے لیڈر کا خیرمقدم کرنے کے لیے ان کے کارکن پہلے سے موجود تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔
رونما ہونے والا ہر واقعہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ زمان پارک اور آزادی چوک والے واقعات کے بعد‘ حکمران پارٹی کو احتیاط کا رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے۔ ہفتہ بھر سے پنجاب اور اسلام آباد میں کنٹینروں کی بھرمار نے پہلے ہی صورتِ حال ابتر کر رکھی ہے۔ حکمران پارٹی کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ عام طور پر باور کیا جاتا ہے کہ فوجی قیادت کے مشورے پر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کو اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی گئی۔ بعض حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے تھے کہ امریکی اور برطانوی حکومت نے بھی اعتدال اختیار کرنے کی تلقین کی۔
عمران خان اور علامہ صاحب تو ہیجان کا شکار ہیں ہی۔ ایک کے بعد دوسری وضاحت انہیں پیش کرنا پڑی۔ علامہ نے انقلاب کے بغیر لوٹ آنے والوں کو شہید کرنے کا حکم صادر کیا تو خود ان کے فدائین میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بظاہر یہ بھی دکھائی دیا کہ اب ان کے لیے کینیڈا میں پناہ حاصل کرنا بھی مشکل ہو جائے گا‘ کسی وقت بھی جہاں جانے کی ضرورت انہیں پیش آ سکتی ہے۔ مسلسل کئی کئی دن سے جاری شعلہ فشانی کے ہنگام‘ ایسے ایسے ارشادات انہوں نے کیے ہیں کہ عدالت میں ان کی توجیہہ پیش کرنا مشکل ہوگا۔ بعض قانونی ماہرین کو یقین ہے کہ سزا سے وہ بچ نہ سکیں گے اور ممکن ہے کہ برسوں انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیام فرمانا پڑے۔ اسی طرح عمران خان نے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا مطالبہ کر کے‘ خود اپنی پارٹی کو حیرت زدہ کردیا۔ جاوید ہاشمی اگرچہ اور اسباب سے بھی ناخوش تھے مگر اس مطالبے پر اپنے لیڈر کے اصرار نے انہیں خود کو الگ کرنے پر آمادہ کر لیا‘ جس کی قیمت پارٹی کو چکانا پڑی۔
سب سے زیادہ تعجب خیز لاہور ہائی کورٹ کے دو فیصلے ہیں‘ جن پر اعلانیہ تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ اول یہ کہ ''غیر ضروری‘‘ کنٹینر ہٹا دیئے جائیں۔ اگلے ہی دن عدالت عالیہ کا یہ حکم کہ عمران خان اور علامہ کے لانگ مارچ غیر آئینی ہیں۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ کیا 1935ء کے ایکٹ کی موجودگی میں آزادی اور پاکستان کے مطالبے کیا دستور کے مطابق تھے۔ فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے خلاف 135 دن تک جاری رہنے والی عوامی تحریک کیا آئین کے مطابق تھی۔ اس کا مطالبہ یہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام بحال کیا جائے اور ون یونٹ کو ختم کردیا جائے۔ صدر سے مستعفی ہونے کا تقاضا بھی پیہم جاری رہا اور ان کے خلاف ناقابل بیان نعرے لگائے جاتے رہے۔ صدر ضیاء الحق نے آئین میں جو ترامیم کی تھیں‘ قومی اسمبلی کے علاوہ سینٹ نے جن کی منظوری دی تھی‘ ان کے خلاف بھی عوامی جدوجہد برپا رہی‘ تاآنکہ ظفرمندی پر تمام ہوگئی۔ کسی مرحلے پر کسی عدالت نے مداخلت کی ضرورت محسوس نہ کی۔ ہمارے سامنے کچھ اور واقعات بھی ہیں۔ 2010ء میں معزز جج صاحبان نے چینی کا نرخ مقرر کیا اور اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس نرخ کچھ اور بڑھ گئے۔ اس طرح لاہور کی مال روڈ پر جلوس نکالنے پر پابندی عائد کی گئی مگر اس پر عمل درآمد نہ کرایا جا سکا۔
صورتِ حال پہلے ہی خطرناک ہے۔ سویلین قوتوں کے ہاتھ سے نکل کر معاملات فوج کے ہاتھ میں جاتے نظر آ رہے ہیں۔ دانائی تو یہ ہوتی کہ سراج الحق ایسے ثالثوں پر انحصار کیا جاتا‘ مگر ایسا لگتا ہے کہ ملّاحوں نے خود کو لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
بحران کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ فیصلہ صادر کرنے والی قوتیں اگر ہیجان میں مبتلا ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ احتیاط جناب والا‘ احتیاط!