بار مکرر عرض ہے کہ زندگی دوسروں کے عیوب نہیں‘ اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے۔
تحریک انصاف کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔ نہ صرف یہ کہ مظاہرین کی تعداد کے بارے میں ان کے اندازے نادرست ثابت ہوئے بلکہ انتظامی سطح پر نااہلی کا خوفناک مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ تین دن قبل پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرلوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ پٹرول سمیت ہر ضروری چیز کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ تیاریوں کے عرصے میں بار بار سوالات ذہن میں ابھرتے رہے کہ کیا کھانے پینے اور بارش سے بچنے کا اہتمام موجود ہے۔ مون سون کی بارشیں اب کی بار تاخیر سے شروع ہوئیں۔ محکمہ موسمیات نے اعلان کیا تھا کہ اگست کے وسط اور آخری دنوں میں جل تھل کا امکان زیادہ ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ دوسری چیزوں پر کروڑوں روپے صرف کیے گئے‘ چھتریوں یا کم از کم پولی تھین کا بندوبست ضرور کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کے لیے دو تین کروڑ روپے درکار ہوتے۔ مطلع کھلا تو معلوم ہوا کہ بنیادی چیزیں ہی نظرانداز کر دی گئیں۔
شیخ رشید کی سیٹ بھی شمار کی جائے تو جڑواں شہروں سے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ کامیاب رہنما اگر اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے تو ہر حلقہ انتخاب میں سے‘ دس سے پندرہ ہزار مظاہرین جلسہ گاہ تک پہنچا سکتے تھے۔ اس کے برعکس لیڈران کرام لہو گرمانے اور حکومت کی مذمت کرنے میں مصروف رہے۔ کیا پارٹی نے انتظامی کمیٹی نام کی کوئی چیز تشکیل دی تھی؟ اگر ایسا ہے تو یہ لوگ اہل ثابت نہیں ہوئے۔ محض مثال کے طور پہ عرض ہے کہ اگر لاہور کے ہارون خواجہ کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی تو تحریک انصاف کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ دو ہفتے قبل پارٹی کے رہنمائوں نے مشورے کے لیے طلب
کیا تو یہ بات ان کی خدمت میں عرض کی تھی۔ یہ گزارش بھی کہ کپتان کو گوجر خان جانا چاہیے۔ اس باب میں ان کی حیثیت ایک نادہندہ کی سی ہے۔ وہ ایک بڑا قبیلہ ہیں۔ اسلام آباد کے چند بازاری لیڈروں کی وجہ سے‘ ان کے ایک بھی امیدوار کو ٹکٹ دینے سے گریز کیا گیا۔ جن لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا‘ ان کا مذاق اڑایا گیا۔ ایک صاحب نے بدتمیزی کی حد کردی اور ایسے لوگوں پر امیدواروں سے روپیہ اینٹھنے کا الزام لگایا‘ خود عمران خان بھی جن کی دیانت کے قائل اور مداح ہیں۔ جن کی حمایت حاصل کرنے کی بعدازاں بھی وہ کوشش کرتے رہے۔
میرا خیال ہے حکمت عملی کے اعتبار سے کپتان کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ پشاور کے جلوس کی قیادت کرنے کی بجائے انہوں نے لاہور کا انتخاب کیا۔ لاہور کے دارالحکومت میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد انہیں پختون خوا کا قصد کرنا چاہیے تھا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو پشاور سے آنے والا جلوس دو گنا تک ہو سکتا تھا۔ لاہور میں لگ بھگ دس گھنٹے انہوں نے ضائع کر دیئے۔ اس اثناء میں دریائے سندھ کو عبور کرنے والے اسلام آباد میں اتر گئے تھے اور ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔
مبصرین نے اس پہلو پر بہت کم غور کیا ہے کہ عمران خان نے پشتون سیاست کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ وہ پٹھانوں کے مقبول ترین رہنما ہیں‘ اسفند یار ولی خان نے جنہیں خفت میں مبتلا کردیا تھا (اور اب یہی کارنامہ محمود خاں اچکزئی نے انجام دیا ہے)۔ یہی نہیں‘ پختون خوا کی حد تک ایک مذہبی مکتب فکر کی گرفت بھی کمزور کردی تھی۔ کراچی میں منصوبہ بندی سے کام نہ کیا گیا‘ وگرنہ 2013ء کے الیکشن میں‘ وہ اس شہر سے قومی اسمبلی کی کم از کم چار نشستیں آسانی سے جیت جاتے۔ اس سیاست کا روشن پہلو یہ ہے کہ پشتون ووٹروں کو وہ قومی دھارے میں لے کر آتے۔ باچا خان کا خاندان تو ایک صدی سے انہیں لسانی اور نسلی تعصب کا درس دے رہا تھا۔
کپتان کی بڑی کامیابی ہے کہ اگرچہ پشتونوں کے مقبول ترین رہنما بن کر ابھرے مگر معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالاتر رہے۔ یہ پہلو آئندہ بھی ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے‘ بشرطیکہ وہ پارٹی کی تنظیم کر سکیں‘ جسے ادنیٰ مقامی لیڈروں کے رحم و کرم پر انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ علامہ طاہر القادری سے دس گنا زیادہ مقبول ہونے کے باوجود اگر آج اسلام آباد میں ان کے حامیوں کی تعداد‘ پاکستان عوامی تحریک سے کم ہے تو اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے غیر ذمہ دار لیڈر ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسی ہے کہ باتیں تو وہ بہت بناتے ہیں مگر عمل کے میدان میں کم تر ہوتے ہیں۔
تین ہزار برس ہوتے ہیں‘ بلاد شام کے حکمران بخت نصر نے ایک پریشان کن سپنا دیکھا۔ ملک بھر سے خواب کی تعبیر کرنے والوں کو اس نے جمع کیا۔ بادشاہ کا اصرار تھا کہ فقط تعبیر ہی نہیں‘ وہ اس کے سپنے کی تفصیل بھی بتائیں۔ اللہ کے حکم سے جناب دانیال علیہ السلام بروئے کار آئے اور بادشاہ کو انہوں نے بتایا‘ دیوار پر لکھا ہوا تو نے دیکھا ''تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا‘‘۔ افغانستان اور پاکستان کے پشتون قبائل‘ سرزمین شام کے انہی باشندوں کی اولاد ہیں‘ جو بعد میں عتاب کا شکار ہو کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ خراسان کے دشوار گزار مقامات ان کی منزل تھے‘ جہاں سے بتدریج وہ برصغیر میں پھیلتے چلے گئے۔ مسلم برصغیر کی تشکیل میں ان کا کردار بے حد اہم رہا اور اگر ایک دانا لیڈر میسر آئے‘ جو نسل پرستی کی بجائے وحدانیت کا بھولا ہوا سبق انہیں یاد دلائے تو مستقبل میں اور اہم ہو سکتا ہے۔
حکمران پارٹی کے لیڈروں نے قبل از وقت فتح کے جشن کا آغاز کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما ضرور نالائق ثابت ہوئے مگر اس کے کارکن مخلص اور باہمت ہیں۔ صورت اب یکسر تو نہیں بدل سکتی لیکن اگر ان میں سے دس پندرہ ہزار بھی ڈٹے رہے تو حکمرانوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی علامہ طاہرالقادری ان کے لیے دردِ سر بنے رہیں گے۔
حکمران ٹولے کو اصل خطرہ عمران خان اور طاہرالقادری سے نہیں‘ خود ان کے طرزِ عمل اور انداز فکر سے لاحق ہے۔ چودہ ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود‘ قومی زندگی کے کسی پہلو میں بہتری کا سامان وہ نہیں کر سکے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک یکسر ناکام ہو جائیں گی تو اس کے نتیجے میں‘ برسراقتدار گروہ پر عظمت و حشمت کا دروازہ نہیں کھلے گا۔ ان کی ناکامی اظہر من الشمس ہے۔ ملک کا وزیراعظم ایک ایسا شخص ہے‘ جس کی دولت بیرون ملک پڑی ہے اور جس نے بیرون ملک اب تک پاکستان کا مقدمہ لڑنے سے انکار کیا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر وہ اس وقت آمادہ ہوا‘ جب قوم اور افواج نے ایسا کرنے پر اسے مجبور کردیا۔ اب تک جسے احساس نہیں کہ نئی بھارتی حکومت کے جارحانہ رویے پر اس کی مصلحت پسندی قوم کے حوصلے پست کرنے کا موجب ہو گئی ہے۔ جو ادراک ہی نہیں رکھتا کہ سول اداروں کی تعمیر کے بغیر فوجی بالادستی ختم نہیں ہو سکتی۔ کل تک نون لیگ کے رہنما شدید گھبراہٹ کا شکار تھے۔ اب سوکنوں کی طرح وہ طعنہ زنی پر اتر آئے ہیں۔ جس عمران خان کا وہ مذاق اڑاتے ہیں‘ دہشت گردی کے باوجود ملک کی تاریخ میں پہلی بار‘ پٹوار کا مسئلہ تقریباً مکمل طور پر اس نے حل کردیا۔ پولیس میں سیاستدانوں کی مداخلت کم ہوتے ہوئے برائے نام رہ گئی ہے۔ سول سروس میں تقرر پنجاب اور اسلام آباد کی طرح نہیں ہوتے‘ جہاں خوشامد اور ابن الوقتی واحد معیارِ فضیلت ہے۔ ایک خاص میڈیا گروپ نے عمران خان کی کردار کشی کا تہیہ کر رکھا ہے وگرنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے زیر نگیں صوبے ہی میں ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ پنجاب کے سکول اور کالج تو مسلسل زوال کے عمل سے دوچار ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ کہ ان کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔
با ایں ہمہ‘ عمران خان کا سیاسی مستقبل خطرناک چیلنج سے دوچار ہے۔ آئندہ چند روز میں اندازہ ہو جائے گا کہ وہ زوال آمادہ ہے یا پھر سے سرخروئی کے سفر پہ روانہ ہو سکتا ہے۔ غالباً یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہے‘ جس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ اس کے ناقص مشیر بھی۔ حالیہ بحران نے ایک قوم کی حیثیت سے ہماری بنیادی کمزوریوں کو آشکار کیا ہے۔ خواب دیکھنے والا حقیقت پسندی سے گریزاں معاشرہ۔ بار مکرر عرض ہے کہ زندگی دوسروں کے عیوب نہیں‘ اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے۔