فرمایا: تلک الایّام نداولھا بین الناس۔ یہ دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیا کرتے ہیں۔
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
خدا لگتی یہ ہے کہ دھرنے کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں... نوّے فیصد! خرم دستگیر اور احسن اقبال ایسے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ساڑھے پانچ نکات قابلِ قبول ہیں۔ سبھی کے لیے اگر قابلِ قبول ہیں تو دھرنے کے شرکا جرائم پیشہ کیسے ہو گئے؟ وزیرِاعظم کے جھٹ استعفے اور پٹ الیکشن پر قوم کی اکثریت کو اتفاق نہیں۔ کم از کم فعال طبقات نے کپتان کا یہ مطالبہ پوری یکسوئی سے مسترد کر دیا ہے۔ اب وہ خود بھی اشارہ دے رہا ہے کہ نظرِ ثانی ممکن ہے؛ بشرطیکہ واپسی کا راستہ کانٹوں سے بھر نہ دیا جائے۔ وزیر اعظم کے مشیر اگر دانا ہوتے تو مسئلہ حل ہو گیا ہوتا۔ لڑائی تب ہوتی ہے، جب دو آدمی لڑنا چاہیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی بچنے کا تہیہ کر لے تو جنگ جاری نہیں رہ سکتی۔ میاں صاحب کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ اختلافِ رائے ان کی صحت کو کبھی سازگار تھا ہی نہیں۔
ایک تنازعے کا تصور کیجیے اور کچن کیبنٹ کے ایک اجلاس کا۔ پانچ پیاروں میں سے چار قائد اعظم ثانی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور ملاتے ہی رہتے ہیں۔ پانچواں خاموش ہے۔ اتفاق سے کل شب اس کی ملاقات ایک دانا آدمی سے ہو گئی تھی۔ آخرکار وہ اختلاف کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ مودبانہ! حیرت سے وہ شخص ان کی طرف دیکھتا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ کشمیریوں کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر ہے۔ چبھتی ہوئی نظروں کے درمیان کسی نہ کسی طرح، سلیقہ مندی اور احتیاط کے ساتھ وہ اپنی بات کہہ گزرتا ہے۔ جان پر کھیل جاتا ہے۔ اپنا مستقبل دائو پر لگا ہی دیتا ہے مگر نتیجہ کیا؟ چہار درویش جب ایک طرف تو اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا؟
دوسری بار۔ ٹھیک وہی کچھ دوسری بار بھی۔ تیسری بار ایسا نہیں ہو گا۔ اب ''ضبطِ نفس‘‘ سے وہ کام لے گا۔ ہر آدمی کا ایک مستقبل ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے مستقبل کو عزیز رکھتا ہے۔ اس ایک جسارت کرنے والے کے جواب میں چار عدد ہیں: جناب اسحٰق ڈار، حضرت احسن اقبال، قبلہ خرم دستگیر اور عالی جناب پرویز رشید موجود ہوں تو وہ دیوار سے کیوں سر ٹکرائے گا؟ سیاستدانوں میں خود کشی کی شرح سب سے کم ہوتی ہے۔
سی ایم ایچ راولپنڈی میں ایک مریض گزشتہ تین ہفتوں سے داخل ہے۔ کبھی اسے مرگی کے دورے پڑا کرتے۔ ایک سال قبل وہ بھلا چنگا ہو گیا۔ اب پھر اسی حال میں ہے۔ وجہ؟ غلطی یہ ہوئی کہ مسلسل بارہ دن تک ٹی وی نشریات دیکھتا رہا۔ قریب کے ایک اور کمرے میں ایک اور مریض بھی ہے۔ دھرنے کے دو بڑے لیڈروں میں سے ایک کا ساتھی۔ اس کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ وہ ایک ہوش مند آدمی ہے۔ دھرنے سے ایک ہفتہ قبل وہ ہسپتال میں جا داخل ہوا۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں مکمل طور پر صحت یاب مگر کمرہ خالی کرنے پر اب تک وہ آمادہ نہیں۔ ڈسچارج ہونے کا پیغام پہنچتا ہے تو اس
کے پیٹ میں شدّت کا درد اٹھتا ہے، کمر میں یا دل میں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ایک شفاخانہ ہے، تھانہ یا کابینہ تو ہے نہیں کہ بیک بینی دو گوش نکال دیا جائے۔
بس کرو، خدا کے لیے بس کرو۔ تین آدمیوں کے سوا سبھی کے لیے ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ اوّل علّامہ طاہرالقادری، ایک شام جنہوں نے اعلان کیا تھا: اب تو ستّر شہادتیں ہو چکیں (امید ہے دو تین سو اور ہو جائیں گی)۔ دوسرے اپنے میاں صاحب، جدّہ میں جو اپنے پیارے بھائی شہباز شریف کو سمجھایا کرتے۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار اختلاف کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر بند کمرے میں۔ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ اخبار نویس ایسے بدبخت ہیں کہ دیواروں کے ساتھ بھی سازباز کر لیتے ہیں۔ تیسرے برادرم عمران خان۔ آج تک جو سمجھ نہیں سکے کہ کرکٹ اور سیاست کے میچ میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے۔
اللہ کی ساری کی ساری مخلوق اب رہائی چاہتی ہے۔ بندوبست ہو گیا تھا اور پکا بندوبست۔ کپتان نے ٹھیک کہا: واضح الفاظ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے ضمانت کی پیشکش کر دی تھی۔ بہت ہی سادہ سا نسخہ تھا۔ تینوں فریق سمجھوتہ کر لیں۔ ظاہر ہے کہ آئین کی حدود کے اندر۔ ازراہِ احتیاط اٹارنی جنرل، آرمی کے ایڈووکیٹ جنرل اور تین ممتاز وکلا کی رائے معاہدے پر لے لی جاتی۔ صرف ایک سوال ان کے سامنے رکھا جاتا... عدالتِ عظمیٰ کیا اس سمجھوتے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے گی؟
پہلا کارنامہ شیخ الاسلام نے انجام دیا۔ سات بار انہوں نے تکرار کی ''فوج کی ضامنی میں، فوج کی ثالثی میں‘‘ خوب وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح کے مذاکرات میں پہلی چیز رازداری ہوا کرتی ہے اور آخری بھی رازداری۔ باقی ماندہ کام حضرت مولانا فضل الرحمن مد ظلہ العالی، فخرِ افاغنہ حضرت محمود اچکزئی اور ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری نے کر دکھایا... ''سمجھوتہ اگر ہو گیا تو ہمیں کون پوچھے گا؟‘‘
رہی سہی کسر میاں صاحب نے پوری کر دی۔ اچانک انہیں یاد آیا۔ میں قائد اعظم ثانی ہوں تو فوج کی کیا جرأت کہ مداخلت کرے۔ عمران خان اور طاہرالقادری ایسوں کی کیا مجال کہ مجھ سے اپنی بات منوا سکیں۔ باقی تاریخ ہے، باقی پرویز رشید۔
جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ 14 اگست 2014ء کے بعد کا پاکستان بھی ویسا ہی رہے گا، جیسا کہ اس سے پہلے تھا، تو گستاخی معاف، وہ احمقوں کی جنّت میں بستے ہیں۔ لال بیگ قسم کے جن ٹی وی میزبانوں کا خواب یہ ہے کہ آئندہ بھی وہ صحافت اور کاروبار ایک ساتھ جاری رکھیں گے، ان کا باقی ماندہ مغالطہ بھی جلد ہی دور ہو جائے گا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہو گا، جو رحمن ملک اور رمیش کمار بیچارے کے ساتھ پیش آیا۔
تین چار دن ادھر کی بات ہے۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر سردار یوسف کے بڑے بھائی کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی میں داخل تھے۔ (مرحوم کا اب انتقال ہو چکا)۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان سے ان کے احباب تیمارداری کرنے آئے۔ اس خیال سے کہ مشکل نام ممکن ہے، وہ سمجھ نہ سکے، ایک ریڑھی والے سے انہوں نے پوچھا ''شہباز شریف کا ہسپتال کہاں ہے؟‘‘ پلٹ کر اس نے جواب دیا: نام نہ لو اس کا (جس نے چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا)۔ رہا دل کا ہسپتال تو وہ سامنے ہے، ادھر بائیں جانب۔
پرویز رشید، خرم دستگیر اور احسن اقبال کا خیال اگر یہ ہے کہ دھرنا ختم ہو جانے کے بعد ناپسندیدہ لوگوں کو وہ پٹواریوں، تحصیل داروں یا تھانیداروں کے سپرد کر ڈالیں گے تو وہ خاطر جمع رکھیں۔
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
وقت بدلتا رہتا ہے۔ حالات کے تیور تبدیل ہوا کرتے ہیں۔ گزرے ہوئے دن لوٹ کر کبھی نہ آئیں گے۔ فرمایا: تلک الایّام نداولھا بین الناس۔ یہ دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیا کرتے ہیں۔
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ