"HRC" (space) message & send to 7575

پامال راستوں کے مسافر

صدیوں سے مسلمان تقلید کے پامال راستوں پر چلے آتے ہیں وگرنہ وہ خوار و زبوں نہ ہوتے۔ قرآن سے انہیں کوئی واسطہ نہیں، جو صرف اللہ کی نہیں، رحمتہ اللعالمینؐ کی اطاعت کا مطالبہ بھی کرتا ہے‘ ''اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول‘‘۔ تخلیقی اندازِ فکر کے راستے ان کی راہ تکتے پتھرا گئے ہیں ؎ 
ترسے ہیں ایک بوسۂ پا کو بھی عمر بھر
ویران جنگلوں میں اُگی گھاس کی طرح
اندازہ ہے کہ اب کی بار آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کا انتخاب وزیر اعظم اور سپہ سالار کے اتفاقِ رائے سے ہو گا۔ بالعموم چیف آف آرمی سٹاف دو یا تین افسروں کے نام تجویز کرتا ہے۔ باہمی اعتماد قائم ہو تو پہلا نام ہی قبول کر لیا جاتا ہے، وگرنہ دوسرا یا تیسرا۔ انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ سول حکومت کس قدر طاقتور ہے یا خود کو کتنا طاقتور سمجھتی ہے۔ مثلاً محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک سبکدوش فوجی افسر جنرل شمس الرحمٰن کلّو کو سربراہ بنایا اور اس کی قیمت ادا کی تھی۔ اتنی ہی بڑی حماقت کا ارتکاب پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں ہوا، جب ایک شب اچانک آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کا فرمان جاری ہوا۔ وزارتِ داخلہ بھی کون سی، جس کے سربراہ ''بزرگ سیاسی مدبر‘‘ جناب رحمٰن ملک تھے۔ تقریباً یہ ایسا ہی تھا، جیسے چیچوکی ملیاں کے کسی کمپائونڈر کو شوکت خانم ہسپتال یا آغا خان ہسپتال سونپ دیا جائے۔ 
عسکری قیادت‘ پا بہ زنجیر میڈیا اور سیاسی قیادت بھی 1971ء کے المیے کی ذمہ دار تھی لیکن اس سانحے کا ایک سبق یہ بھی تھا کہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کمزور تھیں۔ آئی ایس آئی انہی میں سے ایک تھی۔ اوّل ٹکا خان اور پھر جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں اسے بہتر بنایا گیا۔ سول ایجنسیاں کمزور تر تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ 1974ء میں وزیر اعظم بھٹو نے عبدالولی خان اور اے این پی پر غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا‘ تو شواہد جمع کرنے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کو سونپی گئی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہر لحاظ سے یہ ایک تباہ کن فیصلہ تھا۔ بھٹو مگر ایسے ہی تھے۔ کارنامہ انجام دیتے تو ایسا کہ دشمن بھی داد دیے بغیر رہ نہیں سکتے اور حماقت کا ارتکاب کرتے تو خیر خواہ بھی ششدر رہ جاتے۔ 
سیاسی نظام میں فیصلہ کرنے کا ادارہ وزیر اعظم نہیں، وفاقی کابینہ ہے مگر قائد اعظم کے بعد ملک کو ایسا حکمران کبھی نصیب نہ ہوا، جو آئین کی پاسداری پر یقین رکھتا ہو۔ فوجی حکومت ہو یا سول، خوئے غلامی کا نتیجہ یہ ہے کہ شخصیت پرستی ہے اور ایسی شخصیت پرستی کہ خدا کی پناہ۔ سرکاری ڈھانچے میں آئی ایس آئی کا سربراہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پاکستان دوسرے ملکوں جیسا ایک ملک نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ سلامتی کا تحفظ ہے۔ عملاً آئی ایس آئی چونکہ حکومت کے سامنے جوابدہ نہیں؛ چنانچہ اس کے اندازِ فکر و نظر میں خرابی پیدا ہو جائے تو تباہی لاتی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے فوجی حکمران نے سیاسی مقاصد کے لیے اسے برتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ افسروں کے سوچنے کا قرینہ متاثر ہوا۔ گاہے اپنے دائرہ کار سے وہ تجاوز کرتے ہیں؛ چنانچہ خطرناک نتائج اس کے برآمد ہوتے ہیں۔ 
عارضی حل اس کا یہ ہے کہ نہ صرف وہ وزیر اعظم بلکہ آرمی چیف کے سامنے بھی جوابدہ ہو۔ مستقل حل البتہ اس کے سوا کوئی نہیں کہ سول اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ آئی بی کو اتنا ہی موثر ہونا چاہیے جتنی کہ آئی ایس آئی۔ فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ اس کی ساری کی ساری توجہ دشمن پر مرکوز رہنی چاہیے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں اور سب جانتے ہیں کہ تنہا فوج اس کی ذمہ دار نہیں۔ 
آئی بی کو ایک جدید اور سائنٹیفک ادارہ بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی بلکہ ہمیشہ وفاقی حکومت کا مرغِ دست آموز رکھا گیا۔ آخری بڑی مثال وہ ہے، جب 2009ء میں پچاس کروڑ اس کے بجٹ سے نکالے گئے۔ رحمٰن ملک اور سلمان تاثیر سے کہا گیا کہ شہباز شریف حکومت کا وہ خاتمہ کر دیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل چیختے رہ گئے کہ یہ ممکن نہ ہو گا۔ جناب زرداری کے حکم پر سلمان تاثیر اور رحمن ملک کھل کھیلتے رہے۔ باقی تاریخ ہے۔ 
حالیہ تاریخ میں جو واحد بڑی کوشش اس ادارے کو سنوارنے کے لیے کی گئی، وہ ڈاکٹر شعیب سڈل کا مختصر سا دور ہے۔ منصب سنبھالتے ہی انہوں نے پسندیدہ اخبار نویسوں کی مراعات ختم کر دیں۔ ذاتی اختیار سے رقوم صرف کرنے کا اختیار واپس لے لیا۔ صحافیوں اور سیاستدانوں کی نگرانی ختم کرنے کا حکم صادر کیا اور سختی سے اس پر عمل کرایا۔ رحمٰن ملک ان کے درپے ہو گئے۔ افسانہ یہ تراشا کہ وہ سپریم کورٹ کے ججوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں؛ حالانکہ معاملہ برعکس تھا۔
حال ہی میں آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود کہ اس کے مردانِ کار کی توانائیاں ضائع کی جاتی رہیں۔ بنیاد اس کی ایسی مضبوط ہے کہ اگر صحت مند خطوط پر اس ادارے کو استوار کیا جائے تو وہ معجزے برپا کر سکتا ہے۔ 1987ء میں براس ٹیک مشقوں کی مثال دی جا سکتی ہے، جب وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعدازاں بھارت میں شائع ہونے والی ایک سے زیادہ کتابوں میں بتایا گیا کہ بھارتیوں نے جہاں کہیں پیش قدمی کی، پاکستانی فوج کو مقابل پایا۔ ہنگامی طور پر منصوبے میں تبدیلیاں کر کے بھی وہ اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ پھر ایک دن جنرل محمد ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے بھارت گئے اور راجیو گاندھی کو انہوں نے بتایا: گولہ بارود (Live Ammunition) آپ نے اپنی افواج کو جاری کر دیا ہے۔ میں ایک سپاہی ہوں اور جانتا ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ہم افغانستان میں الجھے ہوئے ہیں اور جنگ کے متحمل نہیں۔ اگر آپ نے پاکستان پر حملہ کرنے کی حماقت کی تو ہمیں وہ اقدام کرنا پڑے گا، جو نہیں کرنا چاہیے۔ پھر دہلی ایسے شہر باقی نہ رہیں گے اور تاریخ میں فقط ان کا نام رہ جائے گا۔ 
ملک کو تباہی سے بچا لیا گیا۔ آئی ایس آئی اگر مستعد نہ ہوتی تو یہ کارنامہ کبھی انجام نہ دیا جا سکتا۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دینے کے باوجود، آئی ایس آئی اس قدر طاقتور تھی کہ سینئر بش نے اس کے پر کاٹنے کا حکم دیا۔ فوراً بعد جنیوا میں ''را‘‘ اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کے خفیہ اجلاس میں، پاکستان کی نمائندگی جنرل حمید گل نے کی۔ بھارتی افسر نے ایسی شرائط پر مصالحت کی پیشکش کی، آج جس کا تصور بھی عجیب ہو گا۔ 
جنگ ہر حال میں بری ہے۔ ان گنت بحرانوں میں گھرا ہوا، آج کا پاکستان کسی حال میں اس کا متحمل نہیں۔ ایسے میں پہلی دفاعی لائن انتہائی مضبوط ہونی چاہیے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر کرتے ہوئے اس نکتے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم اور سپہ سالار اگر اتفاقِ رائے سے فیصلہ کریں تو یہ ملک کے بہترین مفاد میں ہو گا۔ وزیر اعظم ملک کے آئینی سربراہ ہیں اور چیف آف آرمی سٹاف کی خوش دلانہ تائید کے بغیر آہنگ پیدا نہیں ہو سکتا۔ سول بالا دستی بتدریج بڑھنی چاہیے۔
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے ''جنگ دھوکہ ہے‘‘ دوسرا ارشاد یہ ہے ''اپنے کاموں میں رازداری سے مدد لیا کرو‘‘ سیرت کا اگر انہماک سے مطالعہ کیا جائے تو کتنے ہی پہلو روشن ہو جائیں۔ سیرت اور تاریخ کا مطالعہ مگر کون کرتا ہے۔ صدیوں سے مسلمان تقلید کے پامال راستوں پر چلے آتے ہیں وگرنہ وہ خوار و زبوں نہ ہوتے۔ قرآن سے انہیں کوئی واسطہ نہیں، جو صرف اللہ کی نہیں، رحمتہ اللعالمینؐ کی اطاعت کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ ''اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول‘‘۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں