آدمی کا ایک المیہ ہے: اپنے آپ کو وہ overestimate کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری کو underestimate۔ خود کو برتر سمجھتا ہے، اپنے کام کو کمتر۔ نتیجہ معلوم، نتیجہ معلوم!
ایک گہری اداسی نے دل میں گھر بنا لیا ہے۔ میرے محترم عمران خاں نے گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران خود کو اس طرح برباد کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہی اپوزیشن لیڈر ہیں اور وہی رہیں گے۔ لاکھوں پُرجوش کارکن ان کے ساتھ ہیں، جو گلے سڑے بدبودار نظام سے رہائی چاہتے ہیں۔ دلدل سے باہر نکلنے کے لیے مگر جرأت سے زیادہ ہوش مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دانش و دانائی کہاں ہے؟ آکسفرڈ میں پولیٹیکل سائنس پڑھنے اور انگلینڈ میں دو عشرے گزارنے والے آدمی کے اندر سے بالآخر میانوالی کا ایک جذباتی شخص نمودار ہوا ہے اور ڈٹ گیا ہے۔
ایک آیت پر ذہن نے پڑائو ڈال دیا ''اے محمدؐ تیری عمر کی قسم‘‘... تیری زندگی کے ایک ایک معطّر سانس اور ایک ایک بابرکت لمحے کی۔ ایک قدیم صوفی کا وہ جملہ یاد آتا رہا: نفس کے فریب اتنے ہیں کہ شمار نہیں ہو سکتے اور مصطفیؐ کے مقامات اتنے ہیں کہ کوئی ان کا احاطہ نہ کر سکے گا۔
خیرہ کن کامرانی تو آپؐ کے لیے روزِ ازل سے لکھی تھی۔ وہ اس خاکدان کی تاریخ میں پروردگار کی رحمت کا سب سے بڑا مظہر تھے۔ کتابِ نور انہیں دمکتا ہوا سورج کہتی ہے۔ رب العالمین نے انہیں رحمتہ اللعالمینؐ کہا اور قرار دیا کہ ان کا ذکر ابدالآباد تک بلند رہے گا۔
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ ''ورفعنا لک ذکرک‘‘ دیکھے
یہ خیال جی کو چمٹا رہا کہ پروردگار کے کیسے کیسے کرم عالی جنابؐ پہ دائم سایہ فگن تھے۔ آنجنابؐ نے کبھی کسی سے اندھی تقلید کا مطالبہ نہ کیا۔ اپنی نہیں، لوگوں کو وہ اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ جبریل امینؑ زمین پر اتر کر آتے اور ان سے بات کرتے تھے۔ عرشِ بریں پر وہ لے جائے گئے۔ دنیا کو الوداع کہنے کا وقت آیا تو فرشتہ حاضر ہوا اور گزارش کی: دائمی عمر اور دنیا کے تمام خزانوں کی چابیاں۔ فرمایا: مگر میں تو اپنے اس اعلیٰ رفیق سے جا ملنے کا خواہاں ہوں۔ عقل سکتے میں آ جاتی ہے۔ یا رب! ایسا بشر بھی اس دنیا میں ہو گزرا ہے، جو حیّ و قیوم رب کا رفیق ہے۔
اس کے باوجود عالم یہ تھا کہ صلحِ حدیبیہ کے ہنگام سیدنا عمر ابنِ خطابؓ نے اختلاف کیا اور لفظ چبائے بغیر۔ احترام اس قدر تھا کہ بعد ازاں پریشاں بھی رہے۔ ملامت تو کیا مگر حوصلہ شکنی بھی نہ ہوئی۔ ارشاد فرمایا: میرے بعد کوئی نبی ہو سکتا تو عمرؓ ہوتے۔
کوئی پھول بن گیا ہے، کوئی چاند کوئی تارا
جو چراغ بجھ گئے ہیں تری انجمن میں جل کے
ہر رفیق اپنے انداز میں ابھرا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ مختلف تھے۔ ہجرت پر ساتھ لے جانے کی نوید سنائی تو فرطِ مسرّت سے رو دیے تھے۔ سیدنا عثمانِ غنی ؓ ایک دوسرے ہی انداز کی شخصیت۔ ایسے عزیز کہ ذوالنورین کہلائے۔ سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ ان سب سے جدا۔ تمام علم، تمام فقر۔ ہر ایک کے ذاتی محاسن ابھرتے اور توانا ہوتے گئے۔ ہر ایک اپنے اسلوب اور اپنے انداز میں بلند ہوا... اور جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے، ان میں سے ہر ایک پر رشک کیا جاتا رہے گا۔
فقط محبت میں نچھاور ہونے اور اطاعت میں جاں نذر کرنے والے ہی نہیں، وہ سب کے سب مردانِ آزاد تھے۔ خود سرکارؐ کی موجودگی میں اس طرح بات کرتے کہ کوئی خیال ادھورا نہ رہ جاتا۔ جب اللہ نے کہا ''لعمرک‘‘ تیری عمر کی قسم، تو اس کا مطلب کیا ہے؟ یہی کہ ان کے اندازِ فکر و عمل میں سے ایک ایک تیور تک کی پیروی کی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کو کیا ہوا کہ یہ سبق یکسر ہی بھول گئے۔ بھول گئے کہ جنگِ احد کے ہنگام رسالت مآبؐ نے اپنی رائے ترک کر کے اصحابؓ کی رائے قبول کر لی تھی۔
دعویٰ کرنا کتنا سہل ہے اور دعوے کو عمل میں ڈھالنا کتنا مشکل۔ جنہوں نے ریاضت کی، ان میں سے کوئی جنیدؒ ہوا، کوئی شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، کوئی غزالیؒ اور علی بن عثمان ہجویریؒ۔ زمانہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر انہیں دیکھتا رہا۔ وہ دلوں اور دماغوں پر حکومت کرتے کہ حکم نہیں دیتے تھے، باز پرس اور انتباہ نہیں، دلیل اور فقط دلیل۔ انس اور الفت کے ساتھ۔ زمانہ جن کے اشارۂ ابرو کی طرف دیکھتا تھا، وہ آسمان کی طرف دیکھا کرتے۔ نگاہ سیرت پہ رکھتے۔ ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتے کہ ڈٹ کر اپنی رائے دے۔ چراغ سے چراغ اس طرح جلتے ہیں۔ چراغاں اسی طرح ہوتا ہے۔
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
لندن میں علّامہ طاہرالقادری سے عمران خان کی ملاقات ہوئی تو اپنی کور کمیٹی سے مشورہ کیے بغیر اتنا بڑا فیصلہ انہوں نے کر لیا۔ یہی نہیں، اس ملاقات کو خفیہ رکھنے کی کوشش بھی کی۔ معاملے کو چند روز کے لیے اگر وہ موخر کر دیتے۔ اسلام آباد پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے مشاورت کرتے تو کبھی وہ نہ کرتے، جو انہوں نے کیا ہے۔ ایک نہیں، سبھی لیڈروں کا یہی عالم ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری تو کس شمار قطار میں ہیں، ذوالفقار علی بھٹو بھی کوس لمن الملک بجایا کرتے۔ اسی میں خاک کا رزق ہو گئے۔
یہ 7 دسمبر 1970ء کی سویر تھی، جب سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک بیان اخبارات میں چھپا ''یہ بات کسی طرح میری سمجھ میں نہیں آتی کہ جماعتِ اسلامی الیکشن ہار سکتی ہے‘‘ نتیجہ نکلا تو مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی چار سیٹیں اور مشرقی پاکستان میں صفر۔ بے حد شائستہ آدمی، ایک شاندار منتظم۔ اردگرد مگر مرعوبین کا حلقہ تھا... ایک سے بڑھ کر ایک تائید کنندہ۔ چند روز بعد رشید پارک اچھرہ کے اجتماع میں ایک طویل تجزیہ انہوں نے پیش کیا اور جیسا کہ مزاج تھا، نہایت مرتّب انداز میں۔ پہلی بار احساس ہوا کہ سیّد صاحب حقیقت کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ باقی تاریخ ہے۔
مشورہ اہل الرائے سے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی فن کے ماہرین سے... اور سیاست ایک دقیق فن ہے۔ قرآنِ کریم پر اگر واقعی کسی کا ایمان ہو تو اس کا فیصلہ واضح ہے۔ جب الجھ جائو تو بہترین اہلِ علم کے پاس جائو۔ ان کے پاس جائو، جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ نورِ ابدی سے جن کی عقلیں روشن رہا کرتی ہیں۔ فرمایا: علیکم مجالس بالابرار۔ لازم ہے کہ تم نیکوکاروں کے ہاں جاتے رہا کرو۔ ظاہر ہے کہ نیکو کار سے مرادعلّامہ طاہرالقادری ، مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن بہرحال نہیں، ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے لوگ ہیں؛ اگرچہ وہ سیاست کے نہیں۔ ان سے تصوف، تاریخ، شاعری اور نثر نگاری پہ رہنمائی طلب کی جاتی ہے۔
افسوس کہ عمران خان نے علّامہ کی بات مان لی اور اپنے خیر خواہوں پہ بگڑتا ہے۔ اس آدمی کا کیا ہو گا، جو بدترین حالات میں لحاظ کرنے والوں کی شکایت کرتا رہے۔ خوشامدیوں کے نرغے میں جو فیصلے صادر کرے۔ نجات کی راہ اب بھی موجود ہے۔ ایک نہیں، کئی دانائوں سے یہ ناچیز ملا ہے مگر وہ بھی تو ان کی سنے، جس نے فیصلہ کرنا ہے اور جو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔
دل دکھتا ہے لیکن پھر عارف یاد آتا ہے، جس نے یہ کہا تھا: انسانوں کی اکثریت ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے، جس طرح کہ وہ پیدا ہوتی ہے۔ دل دکھتا ہے لیکن پھر سیدّنا علی ابن ابی طالبؓ یاد آتے ہیں۔ اپنے اللہ کو میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔
فقیر سے پوچھا گیا تو اس نے یہ کہا: آدمی کا ایک المیہ ہے: اپنے آپ کو وہ overestimate کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری کو underestimate۔ نتیجہ معلوم، نتیجہ معلوم!