اپنے لیے اس یتیم قوم کو فکرمند ہونا چاہیے۔ حکمران طبقہ تو اسے تباہ کرنے پر تلا ہے ؎
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
مسلم سکالرز سکول رحیم یار خان کی گورننگ باڈی کے اجلاس میں بے دلی سے شریک ہوا۔ طویل سفر نے پل بھر سونے نہ دیا۔ پوری رات اور پورا دن آنکھوں میں کٹ گیا۔ ریل کا سفر‘ جو اگرچہ پہلے سے بہتر ہے مگر کتنا بہتر۔ ریلوے کے وفاقی وزیر ایک مستعد آدمی ہیں مگر اپنا کاروبار کرتے ہیں اور سیاست بھی۔ جو وقت بچ رہے‘ اس میں قوم کی خدمت فرماتے ہیں ؎
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
قوم کے غم میں ڈنر کرتے ہیں حکام کے ساتھ
کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اپنے ماموں زاد بھائی ڈاکٹر اطہر مسلم سے کہ سکول کے منتظم ہیں‘ میں نے یہ کہا: کارروائی پر جلدی سے دستخط کرا لو کہ مجھے سونا ہے۔ غنودہ‘ کارروائی میں سنتا رہا لیکن پھر چونک اٹھا۔ طلبہ و طالبات کی تعداد 1600 تک جا پہنچی ہے۔ اس کے باوجود کہ فیس معمولی ہے‘ ایک عام انگلش میڈیم سکول سے ایک تہائی‘ اس کے باوجود کہ اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے‘ پندرہ طلبہ کے لیے ایک استاد‘ اخراجات میں وہ خود کفیل ہے۔ سال رواں میں 41 طالبات اور طلبا میٹرک کے امتحان میں شریک ہوئے اور سب کے سب پاس ہو گئے۔ یہی نہیں‘ ان میں سے 15 نے اے پلس گریڈ حاصل کیا۔ فاطمہ قادری نے بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے سے فقط بیس نمبر کم لیے۔ 1100 میں سے 1060۔
خوشگوار حیرت کے ساتھ میں نے سوچا: کیا یہ ایک اور تعمیر ملت ہائی سکول ہے؟ یاد کا دریچہ کھلا اور ہرے بھرے لڑکپن کو زندہ کر دیا۔ کیف کا کوئی لمحہ کبھی ماضی کو مشکل کر دیتا ہے ؎
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
تعمیر ملت ہائی سکول کی دسویں جماعت کے سی سیکشن میں‘ 48 برس پہلے‘ یہ 1966ء تھا‘ طلبہ کی دو قطاروں کے درمیان انیس احمد اعظمی غالب کی غزل گنگناتے ٹہلتے رہتے ؎
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہگزر یاد آیا
اس آواز کا خلوص اور سوز‘ عمر بھر جو تعاقب کرتا ہے۔ انیس صاحب بولتے تو آپ لکھ سکتے تھے۔ مجال کیا کہ ایک بھی غیر فصیح لفظ زبان پر آ جائے۔ ماں باپ ہی بچوں کو بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ صرف استاد ہی انہیں سنبھال اور سنوار سکتے ہیں۔ استاد گرامی ترنگ میں ہوتے تو طبیعت کا گداز اکثر شعر میں ڈھلتا۔ معاشرے کی حالتِ زار کا ذکر ہوتا تو ان دنوں یہ شعر اکثر پڑھا کرتے ؎
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
یاد نہیں کہ کبھی ادنیٰ شعر پڑھا ہو۔ کبھی کوئی معمولی کتاب تجویز کی ہو۔ غالباً یہ 1973ء تھا۔ اخبار نویس اپنے جلیل القدر استاد کے شہر میں تھا کہ نجی سکول قومیائے گئے۔ تعمیرِ ملت ہائی سکول بھی ان میں سے ایک تھا۔ یاد ہے کہ اس سانحہ پر لکھتے ہوئے دل پگھل کر موم ہوا جاتا تھا۔ کسی نے بتایا کہ اس عبارت کو پڑھتے ہوئے‘ ہیڈ ماسٹر چودھری عبدالمالک کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ آج چالیس برس بعد اس عبارت کا بس ایک تاثر سا ذہن میں باقی ہے: گلاب کے پھولوں کی قطاریں اور مستقبل کے درخشندہ سپنے مرجھانے والے ہیں۔
نجی سکولوں کو قومیانے کے المناک واقعہ پر جب بھی لکھا‘ مرحوم حمید اختر سمیت بعض معتبر اخبار نویسوں نے ردعمل کا اظہار کیا۔ انہیں کیا خبر کہ تعمیر ملت ہائی سکول کی وفات حسرت آیات پر‘ اس کے اساتذہ و طلبہ پر کیا بیتی۔
بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزید بلبل را
نواگرانِ نہ خوردہ گزند، را چہ خبر
(شاخ گل کے نیچے سانپ نے بلبل کو ڈس لیا۔ جنہیں تکلیف نہ پہنچی‘ انہیں کیا؟) کم ہی پختہ کمرے‘ ڈھنگ کا کم ہی فرنیچر مگر ایسا ایسا طالب علم اس احاطے سے اٹھا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ ملک بھر میں تعلیمی نتائج میں نمایاں‘ کھیلوں میں پورے ڈویژن میں اول‘ مباحثوں میں گاہے ملک بھر میں اول۔ یہ جو ٹی وی پر کبھی یہ ناچیز روانی سے بات کر پاتا ہے‘ تو یہ جناب حسن المرتضیٰ خاور کا فیض ہے۔ ایک تقریر‘ جب تک دس بار سن نہ لیتے‘ قرار نہ آتا۔ اس کے بعد بھی کہاں آتا‘ خواہ اول انعام ہی کیوں نہ جیتا ہو۔ ایک بار ایسے ہی موقع پر یہ کہا: صلاحیت تمہیں اللہ نے بہت بخشی ہے‘ مگر لاپروا اور لااُبالی بھی اتنے ہی۔ ان کا احسان اٹھائے نہیں اٹھتا۔ جو چلے گئے‘ ان کے لیے مغفرت کی‘ جو سلامت ہیں‘ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا دل سے بے ساختہ اٹھتی ہے۔ اس احسان کا قرض مگر کون چکا سکتا ہے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ عالی مرتبتؐ کے فرامین کو ملحوظ رکھا جائے تو آنے والی نسلوں کی تربیت کا اجر بھی اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہ نسلیں جنہیں بھٹکنے اور برباد ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔
نظام الملک طوسی نے سرکاری خزانے کا بڑا حصہ فوج کی بجائے تعلیم پر لٹا دیا۔ دعویٰ یہ کیا کہ اس نے دفاع کو ناقابل تسخیر کر دیا ہے۔ سلطان کو بتایا کہ اگلی نسلوں کی تربیت پہ قوموں کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کو یہ بات کون سمجھائے کہ مسلمانوں میں آج کوئی طوسی‘ کوئی غزالی نہیں۔ ہیں تو خواجہ آصف اور احسن اقبال۔ علم آج کوئی اندوختہ نہیں‘ اگر ہے تو فقط دربارداری۔ کس نے کہا کہ ملوکیت مر گئی اور سلطانیء جمہور کا چراغ روشن ہوا۔ شریف‘ زرداری اور خان‘ آج بھی بادشاہ ہیں‘ ہم آج بھی ان کی رعایا ؎
بدل کے بھیس یہ آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
قوم آج بھی جاگیرداروں اور زرداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ کار سرکار میں آج بھی وہی شہنشاہی۔ سندھ میں بلاول ہیں‘ سرحد میں باچا خان اور مفتی محمود کی اولاد‘ بلوچستان میں‘ بلوچ گاندھی عبدالصمد اچکزئی کا فرزند‘ پنجاب میں حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز۔ حبیب جالب روتے مر گئے ؎
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
حکمرانوں کے پتھر سے دل نہیں پگھلتے۔ پتھر بھی کبھی پگھلتے ہیں؟ ایمان‘ اخلاق اور تعلیم سے دل جب تک گداز نہ ہوں‘ ان میں احساس اور درد کی فصل کیسے اُگے۔ اللہ کی بجائے‘ دولت اور اقتدار ہی اگر معبود ہو تو خلقِ خدا کی کسی کو پروا کیا۔ لندن اور سوئٹزرلینڈ کے بینک آباد ہیں اور ملک ویران۔ تعلیم گاہوں میں خاک اُڑتی ہے۔ ڈاکٹر کامران مجاہد جیسے لوگ وائس چانسلر ہو گئے ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
مسلم سکالرز سکول کے اجلاس میں تعمیر ملت یاد آتا رہا‘ جو اس سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر چمن سے ویرانہ ہو گیا۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کا یہی عالم ہے۔ ہم ایک یتیم قوم ہیں۔ جس ملک کا حکمران طبقہ بدعنوان اور جرائم پیشہ ہو‘ وہ اگر یتیم نہ ہو تو کیا ہو گی۔
اللہ کا قانون مگر یہ ہے کہ جس کا کوئی سہارا نہ ہو‘ اس کا وہ سہارا بن جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس پر ایمان رکھا جائے‘ اس سے التجا کی جائے اور اس کے قوانین کو ملحوظ رکھا جائے۔ عصر رواں کے عارف کا کہنا یہ ہے کہ اللہ مہربان ہے‘ مگر بن مانگے‘ گاہے وہ گھاس بھی نہیں دیتا۔
ایک اعتبار سے یہ ملک بہت ہی خوش بخت ہے۔ حکمران جوں جوں زیادہ سفاک ہوتے گئے‘ ملک میں عوامی خدمت کا ایک متبادل نظام اُبھر رہا ہے۔ بھوکوں کے لیے کھانا‘ مفلس بچوں کے لیے مفت تعلیم۔ تعمیر ملت فائونڈیشن اور غزالی فائونڈیشن‘ اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب ملک گیر تعلیمی نظام تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مفت تدریس کے ادارے مبارک۔ ایک خیال بہت دن سے جی میں پل رہا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ملک بھر میں اس طرح کے سکول اور کالج تعمیر کیے جائیں‘ جہاں مناسب منافع پر تعلیم دی جائے؟ ڈھنگ کے عام سے سکولوں میں ابتدائی جماعتوں کی فیس پندرہ ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ اپنے لیے اس یتیم قوم کو فکرمند ہونا چاہیے۔ حکمران طبقہ تو اسے تباہ کرنے پر تلا ہے ؎
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے