نجات علم کے ساتھ ہے۔ فرمایا: درجات علم پر منحصر ہیں۔ آدمی کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ جذبات کی دنیا میں جیتا ہے، اپنے مفادات کی دنیا میں۔ عمر بھر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ خود کو برباد کرتا ہے اور دوسروں کو۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: یا حسرۃ علی العباد۔ بندوں پر افسوس!
مولانا فضل الرحمٰن سے کتنا ہی اختلاف ہو مگر کسی کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کی جان لینے کی کوشش کرے؟ غور کیا تو اس آیتِ مبارکہ کی نئی جہات منوّر ہونے لگیں‘ جس میں ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کو قتل کر ڈالنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ وہ بلاول بھٹو کے درپے بھی ہیں۔ اللہ انہیں محفوظ رکھے، سراج الحق کا نقطۂ نظر بھی کم و بیش وہی ہے، مولانا جس کے مبلّغ ہیں، دستوری سیاست! زرداری صاحب کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ سالِ گزشتہ لاہور میں ایک گروپ پکڑا گیا، مبیّنہ طور پر جس کا ہدف حمزہ شہباز تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن پر تین حملے ہوئے تو ایک قاضی حسین احمد پر بھی۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی گزشتہ برس کے الیکشن سے قبل ہی دہشت گردوں کا ہدف تھیں۔ اے این پی کے سینکڑوں کارکن، میاں افتخار حسین کے فرزند اور بشیر بلور سمیت کئی ممتاز لیڈر قتل کر دیے گئے۔ عمران خان کو طالبان خان کہا جاتا ہے مگر ان کے تین ارکانِ اسمبلی بھی۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
سیاست الگ مگر قاتل اپنے منصوبے میں کامیاب رہتے تو کیسی ہولناک صورتِ حال جنم لیتی۔ یہ تباہی اور تخریب کا راستہ ہے۔ پاکستان کو شام، عراق اور نائجیریا بنانے کا منصوبہ۔
آج جو لوگ انتہا پسندوں کا ہدف ہیں، بدقسمتی سے انہی میں
سے بعض نے مدّتوں شمالی وزیرستان میں آپریشن ہونے نہ دیا‘ وگرنہ دہشت گرد بہت پہلے نمٹا دیے جاتے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے، افغان امور کے بعض ''ماہرین‘‘ بھی اس کارِ خیر میں شریک رہے۔ اس دوران بارودی سرنگوں کے وسیع و عریض جال بچھا کر جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان جا پہنچی۔ پھر بھی ضربِ عضب سے امید بندھی کہ انتہا پسندوں کی قوت رفتہ رفتہ تحلیل ہو جائے گی۔ کوئٹہ کے واقعات سے اندازہ ہوا ہے کہ تخریبی قوّتیں آسانی سے ہار ماننے والی نہیں۔ صدر اشرف غنی کی کامیابی کے بعد امن کا خواب اجاگر ہونے لگا۔ حامد کرزئی کے برعکس وہ بھارتی حلیف بننے پر آمادہ نہیں؛ اگرچہ حتمی رائے ابھی نہیں دی جا سکتی۔ فضل اللہ آج بھی افغانستان میں محفوظ و مامون ہیں۔
ایک ہولناک مغالطہ ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ فقط افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کی ذمہ داری ہے۔ جی نہیں، ہرگز نہیں۔ سول اداروں، پولیس، آئی بی اور سپیشل برانچ کے بغیر اس ہدف کا حصول ناممکن ہے۔ دنیا میں کہیں ایسا ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ یہ بات طیب اردوان نے ہمارے وزیرِ اعظم کو بتا دی تھی مگر ان کا دھیان کچھ اور چیزوں کی طرف ہے۔ قانون نافذ کرنے والے سول اور فوجی اداروں میں مکمل ہم آہنگی کے بغیرکبھی یہ منزل سر نہ ہو گی۔ جب تک عسکریت کا خاتمہ تمام سرکاری اداروں کی اوّلین ترجیح نہ ہو۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی خوش دلانہ تائید کے بغیر بھی نہیں۔ عدلیہ بھی۔ کل شب ممتاز ترین جنرلوں میں سے ایک نے یہ کہا:
سینکڑوں دہشت گرد ہم نے پکڑ رکھے ہیں، کسی ایک کو بھی عدالت نے سزا نہیں دی۔ الٹا ہم مجرم ہیں۔ ''لاپتہ‘‘ افراد کے اغوا کنندہ۔
ٹی وی کے ایک مذاکرے میں جمعیت علمائے اسلام کے ایک سینیٹر نے مساجد، مارکیٹوں اور مزارات پر حملے کرنے والوں کی مذمّت سے انکار کر دیا۔ وقفے میں تعجب کا اظہار کیا گیا تو انہوں نے کہا: طالبان نہیں بلکہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے دھماکے کرتی ہیں۔ نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ بات چیت آف دی ریکارڈ تھی۔ اصرار ہو تو عرض کر دوں گا۔
کراچی کے جن نامعلوم قاتلوں کا ذکر بلاول بھٹو نے حال ہی میں کیا، ہم سب ان سے واقف ہیں۔ اسی سانس میں ارشاد کیا: صدر زرداری نے ان قاتلوں کو گلے لگایا۔ قاتلوں کو گلے لگانا ہوتا ہے یا کیفرِ کردار تک پہنچایا جاتا ہے؟
یہی بنیادی تضاد ہے۔ ریاست کی کوئی تقدیس ہے اور نہ قانون کی۔ اپنے اپنے مفادات پہ ہر اصول قربان۔ ریاست انصاف عطا کرنے اور اپنی قوّت بروئے کار لانے سے انکار کر دے تو یہی ہوتا ہے۔ خانہ جنگی اور طوائف الملوکی۔ افغانستان میں روس چڑھ آیا تو مجاہدین پیدا ہوئے۔ کشمیریوں سے جانوروں کا سا برتائو کیا گیا تو باغیوں کی فصلیں اُگیں۔ بہ ایں ہمہ جہاد کے نام پر بے گناہوں کو قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے جنگ کی شرائط متعین فرما دی تھیں۔ بوڑھے، بچے اور خاتون پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے گا۔ فصل کاٹی نہیں جائے گی اور درخت نذرِ آتش نہ کیا جائے گا۔ جہاد کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ بات 1948ء میں کہی تھی۔ جاوید غامدی یاد دہانی کراتے رہے مگر تعصبات تجزیہ نہیں کرنے دیتے۔ ہم جذبات کے بنے لوگ ہیں۔ ہمارے لیڈر ہیں کہ جلتی پر تیل چھڑکتے رہتے ہیں۔
ایک عشرہ ہوتا ہے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد صلاح الدین کو میں عارف کے ہاں لے گیا۔ ان کے ایک ہمراہی کی طرف وہ متوجہ ہوئے اور کہا: آپ کو لیڈر بننے کی ایسی بے تابی کیوں ہے؟ صلاح الدین حیرت زدہ رہ گئے۔ بے ساختہ بولے: ''بالکل ٹھیک، بالکل ٹھیک‘‘ نظراٹھا کر درویش نے انہیں دیکھا اور یہ کہا: جو کچھ آپ کے بارے میں عرض کیا ہے، وہ بھی اتنا ہی صحیح ہے۔ پھر انہیں دعا تعلیم کی۔ ایک دن یٰسین ملک بھی وہاں گئے اور پھر سجاد لون بھی۔ ان میں سے ہر ایک سے یہ کہا: جو جنگ آپ لڑ رہے ہیں، اسلام نہیں، وہ قوم پرستی کی تحاریک ہیں اور میں انہیں پھلتا پھولتا نہیں دیکھ رہا۔ عارف کا قول یہ ہے کہ تجزیہ کرنے میں تعصب اور رعایت ہی سے تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔
طالبِ علم کبھی کبھی یہ سوچتا ہے: سرکارؐ کے لیے کیا مشکل تھا کہ فتحِ مکّہ سے قبل اس کا اعلان فرماتے۔ قریشِ مکّہ گنتی کے ان دنوں میں کتنا بڑا لشکر فراہم کر لیتے۔ مگر نہیں، عالی مرتبتؐ نے رازداری کا اہتمام کیا۔ نواحِ مکّہ کی پہاڑیوں پر الائو روشن ہوئے تو شہر کو خبر ہوئی۔ کوشش کی کہ ایک جان بھی ضائع نہ ہو۔ ان چند ایک کے سوا، جنہوں نے خالد بن ولیدؓ کے دستے پر حملہ کیا، سبھی مامون رہے۔ یہی نہیں، اسی روز اسلام قبول کرنے والے ایک قریشی کو مکّہ کا گورنر (امیر) مقرر کیا۔ اسی روز تائب ہونے والے کو حرمِ پاک کا موذن۔
اقبال ؔ نے کہا تھا۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔ فقط اور فقط محمد مصطفیؐ ہی نمونۂ کامل ہیں۔ ہمارے علما نے مگر فرقے بنائے۔ اپنے اپنے امام اور اساتذہ کے بت تراشے۔ چودہ برس ہوتے ہیں 2000ء میں بھارت سے جنگ بندی کے ہنگام، محمد صلاح الدین پر جماعتِ اسلامی کے ایک رہنما نے بے دردی سے نکتہ چینی کی تو ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ مجھ سے پوچھا: ایسا انہوں نے کیوں کیا؟ عرض کیا: میرے خیال میں اس لیے کہ سیاسی طور پر انہیں سازگار تھا اور اس لیے کہ سیرتِ سرکارؐ سے انہماک کسی کو نہیں۔
نجات علم کے ساتھ ہے۔ فرمایا: درجات علم پر منحصر ہیں۔ آدمی کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ جذبات کی دنیا میں جیتا ہے، اپنے مفادات کی دنیا میں۔ عمر بھر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ خود کو بردباد کرتا ہے اور دوسروں کو۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: یا حسرۃ علی العباد۔ بندوں پر افسوس!