"HRC" (space) message & send to 7575

دل کا دریا بحر سے گہرا ، کون دلوں کی جانے ہو!

سلطان العارفین نے یہ کہا تھا: 
دل دریا سمندروں ڈونگھے، کون دلاں دیاں جانے ہو! 
کیسا اچھا ترجمہ کسی نے کیا: دل کا دریا بحر سے گہرا، کون دلوں کی جانے ہو! 
ہرچندبسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے لیکن یہ کیوں فرض کیا جائے کہ چوہدری نثار علی خان کی زندگی میں وہ رات اگر آئی تو برسوں بعد ہی آئے گی ۔ وہ آج کی رات کیوں نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ شب بیت چکی ہو۔ 
یہ روزِ گزشتہ " دنیا "میں شائع ہونے والے برادرم رئوف کلاسرہ کے کالم پہ رائے دینے کی جسارت ہے ۔ دکھی دل کے ساتھ انہوں نے لکھا : پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو ''سونامی‘‘ کے سامنے بند باندھنے کے لیے بلایاگیا تھا ، اعتزاز احسن نے اپنی شاہکار تقریر میں وزیرِ داخلہ نثار علی خاں کے مرحوم بھائی پہ تبرّا کیا۔ جواب تو کجا ، چوہدری صاحب ملال تک کا اظہار نہ کر سکے۔ رئوف کلاسرہ کو اس قدر قلق ہوا کہ انہوں نے اس خیال کو اپنے دل میں بویا اور اپنی بہترین تحریروںمیں سے ایک تحریر لکھی۔ آنسوئوں میں گندھی ہوئی ایک عبارت۔مغالطہ نہ ہونا چاہیے، حرف و بیاںمیں ڈھل جانے والے یہ ان بہے آنسو جنرل افتخار علی خاں مرحوم کے لیے نہیں بلکہ کلاسرہ کے اپنے مرحوم بھائی ڈاکٹر نعیم کے لیے ہیں ۔اس منفرد شاعر احمد راہی نے لکھا تھا کہ کبھی نصف شب کو دیہاتیوں کا پورا مجمع بلک بلک کے رو دیتا ہے ، جب ہیر کا وہ بند پڑھا جاتاہے : 
ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں‘ مینوں لے چلّے بابلا لے چلّے وے 
مرحوم شاعر کی رائے میں مجمع ہیر کے الم نہیں بلکہ اپنے دکھ پہ روتا ہے ۔ اپنے دکھ پہ ۔ پنجابی میں لکھے گئے احمد راہی کے فصیح جملے کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے ''ہر آدمی نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی کوئی لعل ضرور گنوایا ہوتا ہے۔ دل ہیر کی بے چارگی پر نہیں تڑپتے بلکہ اپنی محرومی پر۔ خودفریبی میں نہیں‘ بے ساختہ طور پر ایسا ہوتا ہے‘‘۔ انسانی ذہن کی تشکیل ایسی ہے کہ وہ چیزوں کے باہمی تعلق میں سوچتا اور محسوس کرتاہے ۔ ایک مسرّت سے دوسری مسرّت اور ایک غم سے دوسرا غم یاد آتا ہے ۔ ایک برس ہوتاہے کہ رئوف کلاسرہ کے بھائی ڈاکٹر نعیم عالمِ شباب ہی میں جان ہار گئے تھے ۔ کلاسرہ ان کے غم میں اب تک نڈھال ہوتے رہتے ہیں ۔ موسمِ گرما رخصت ہوتا تھاکہ اپنے بھائی کی برسی پر وہ گئے ۔ راہ میں تھے کہ ان سے میری بات ہوئی ۔ آواز میں نمی تھی ۔ ایسی ہی نمی خالد مسعود خان کی عبار ت میں ہوتی ہے ۔ جب سے ان کی رفیقِ حیات، ان کی ہم نفس دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ کتنے برس بیت گئے ، لگتاہے ابھی کل کی بات ہے ۔ خالد مسعود نے اپنا غم چھپایا نہیں اور برسرِ بزم روئے۔ یہ جو اپنے ایک دوست سے کبھی شدید ناراضی کا وہ اظہار کرتے ہیں تو ممکن ہے ان کے موقف میں تھوڑی یا بہت ساری سچائی ہو ۔ ایک خیال سا مگر دل میں گزرتا ہے کہ شاید اس کا ایک سبب لا شعور کی وسیع و عریض ، دھندلی سی کائنات میں کبھی کبھار بھڑک اٹھنے والی ایک چنگاری ہو ۔شاید اس گمان کی بازگشت کہ تب میر ادوست جو کچھ کر سکتا تھا ، اس نے کیا نہیں۔ ویسی اس نے 
پروا نہ کی، جیسی کرنی چاہیے تھی۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اپنا ایک غم تازہ ہو گیا۔ اکیس برس ہوتے ہیں ، نواحِ اسلام آباد کی یہ ایک دل گداز شب تھی کہ رحیم یار خاں سے میرے سگے بھائی،39سالہ محمد زبیر کے مرنے کی خبر آئی ۔ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم سے میں نے پوچھا، اب میں کیا کروں ۔قدرے حیرت سے انہوں نے جواب دیا : تم جانتے ہو کہ ایسے میں صبر کی توفیق طلب کی جاتی ہے ۔ حیرت سے میں نے سوچا ، ایسے میں صبر کی توفیق طلب کرنے کا یارا کسے ہوتاہے ۔ محمد زبیر کی موت کا غم آج بھی تازہ ہے اور سرما کی ہر شام میں تازہ ہوتا رہے گا۔ اس لیے کہ اسے زہر دیا گیا تھا ۔ گمانِ غالب یہ ہے اور تحقیق سے پوری سچائی تک پہنچا جا سکتاہے کہ اسے سی آئی اے نے زہر دیا تھا ۔ کالے کوبرے کے زہر سے بنا ہوا دھیرے دھیرے اثر کرنے والا زہر۔ اپنے وطن پہ نچھاور ہو جانے والے اس اجلے آدمی کا جرم کیا تھا ، اگر کبھی یہ ناچیز اپنی خود نوشت لکھ سکا تو تفصیل عرض کرے گا۔ واشنگٹن میں متعین پاکستانی سفیر اور دو اخبار نویسوں کی المناک بزدلی۔ دوسرے کانام ہارون الرشید ہے ۔ پہلے کا عرض کرنا آداب کے خلاف ہے کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ۔ 
ایک شب جنرل کیانی اچانک بولے : رئوف کلاسرہ سے میں تعزیت کرنا چاہتا تھا ۔ پوری طرح وہ سنجیدہ تھے اور آواز میں ایک ذرا سی اداسی۔ میں نے کلاسرہ کا نمبر ڈائل کیا کہ ان کی بات کرادوں۔ اس نے مگر سنا نہیں ۔ فون ہی نہیں ، سامنے بیٹھے آدمی کی بات بھی اب وہ کم کم سنتا ہے ۔ اتنی مقبولیت میں شاذ ہی ایسا ہوتاہے کہ یہ المیہ رونما نہ ہو ۔ وہ تو گاہے سن بھی لیتاہے ۔ ہمارے سروں پہ جومسلّط ہیں ، ووٹروں کی تائید نے کیسا فرعون انہیں بنا دیا ہے کہ صحرا میں بچّے اور ان کی مائیں بلک بلک کے مرتی ہیں تو ارشاد ہوتاہے : بھوک نہیں ، انہیں غربت نے مار ڈالا۔ 
فاروقِ اعظمؓ سے بدّو نے اصرار کیا کہ درہم و دینا رسے وہ ان کی مدد کریں ۔ خلافت کے ابتدائی ایّام تھے ۔ خزانہ ابھی تعمیر نہ ہوا تھا۔ قرینہ اب تک یہ تھا کہ جو کچھ ہوتا، اسی روز بانٹ دیا جاتا۔ فرمایا: آج میرے ہاتھ خالی ہیں ۔ وہ اور طرح کے بادشاہ تھے، وہ اور طرح کی رعایا تھی ۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے کہا : اے خطاب کے فرزند‘ میرے بارے میں اللہ کو کیا جواب دو گے۔ پیغمبرانِ عظامؑ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد تاریخِ انسانی کا سب سے جلیل القدر حکمران رویا ۔ اس نے اپنا کرتا اتارا اور صحرا سے آنے والے کے ہاتھوں پہ رکھ دیا۔ برسبیلِ تذکرہ ، کہا جاتاہے کہ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس ڈیڑھ دو سو سوٹ ہیں ۔ وزیرِ اعظم گیلانی کے پاس غالباً ان سے زیادہ تھے ۔ دونوں کی خوش پوشی انہیں شہباز شریف سے زیادہ مقبول نہ بنا سکی ، جن کے پاس پانچ سات ہی جوـڑے ہیں۔ ایک دن ایوانِ وزیرِاعظم کی سیڑھیوں پر میں نے وزیرِ اعلیٰ کی شان میں گستاخی کی۔ تین دن سے ایک ہی کوٹ پہنے آپ پھر رہے ہیں ۔ بدل کیوں نہیں لیتے ؟ حیرت سے انہوںنے میری طرف دیکھا اور ان کے چہرے پر لکھا تھا: صرف تین دن بعد ؟ 
آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کو خود پر وہ قیاس کرتاہے ۔ چوہدری نثار علی خان کو رئوف کلاسرہ نے اپنے غم پہ قیاس کیا۔ ان کے سگے بھائی تھے ، نجیب آدمی تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان کے انتقال پر صدمہ تو چوہدری نثار علی خان کو بہت ہوا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ان کی یاد بھی ایک حزن کے ساتھ آتی ہوگی لیکن یہ کیوں لازم ہے کہ رئوف کلاسرہ کی طرح ساری عمر اس غم کو وہ پالتے رہیں ۔دکھ سینچنے والا شاعر اور ادیب تو بن سکتاہے، سیاستدان نہیں ۔ 
خوش گمانی سے کام لیا جائے اور سچ یہ ہے کہ لینا بھی چاہیے تو خیال میں شاید یہ آئے : چوہدری نثار علی خاںنے اعتزاز احسن کی حرکت کو شاید حماقت سمجھا۔ سوچ سمجھ کر شاید یہ فیصلہ کیاکہ ایسی حرکت پر ردّعمل کی ضرورت ہی کیا۔ 
گمان ہی گمان ہے ، یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پھر کیوں حکم لگایا جائے ۔ تین سو برس ہوتے ہیں ، نواحِ جھنگ میں ایک عارف آباد تھا۔ نام اس کا سلطان محمد تھا۔ تاریخ نے اسے سلطان العارفین ، سلطان محمد باہو کے نام سے یاد رکھا ہے۔ اس نے یہ کہا تھا: 
دل دریا سمندروں ڈونگھے، کون دلاں دیاں جانے ہو! 
کیسا اچھا ترجمہ کسی نے کیا: دل کا دریا بحر سے گہرا، کون دلوں کی جانے ہو! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں