سانحہ یہی ہے کہ غور و فکر پہ ہم آمادہ نہیں اور جذبات کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ دریا نہیں بلکہ سراب کی طرف!
اس موضوع پر سوچتے ہوئے کہ تحریکِ انصاف کس لیے بنائی گئی تھی اور اب کس چیز پر تلی ہے‘ دل کبھی دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ان کے خاندان سے مراسم تھے، عمران خان سے مگر کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی۔ ایک دن جنرل حمید گل سے ملنے گیا تو انہوں نے کہا: اگر عمران اور کچھ دوسرے اہم لوگ اکٹھے ہو جائیں تو ملک انقلاب سے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ یہ 1996ء کی بات ہے۔ اس پر کچھ معروضات پیش کیں تو جنرل صاحب کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ کہا: کیا یہ دلائل تم عمران خان کے سامنے دُہرا سکو، شاید وہ قائل ہو جائیں۔ لاہور پہنچا اور انہیں فون کیا۔ اس اثنا میں وہ پارٹی تشکیل دینے پر آمادہ ہو چکے تھے۔ اگلے روز ملاقات کے لیے پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی بولے: آپ کو تو حفیظ اللہ خان سے ملنا ہے نا؟ ''میرا نام ہارون الرشید ہے‘‘ میں نے کہا ''اور میں آپ سے ملنے آیا ہوں‘‘... ''اچھا، اچھا‘‘ انہوں نے بے تابی سے کہا ''تو آپ ہیں ہارون الرشید‘‘...
ایک روز قبل اخبار میں چھپنے والے میرے کالم کا انہوں نے حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں بہت سے نکات انہوں نے نوٹ کیے ہیں اور ان پر عمل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مجھے کچھ تعجب ہوا۔ یہ سادہ سے چند نکات تھے، جو ایک دانا آدمی کے مشورے سے مرتب کیے گئے تھے۔ ایک چھوٹی سی میز کے گرد ہم بیٹھ گئے۔ یہ اٹھارہ سال تک باقی رہنے والی رفاقت کا آغاز تھا، تاآنکہ 2013ء کے الیکشن آ پہنچے۔ کپتان نے پہاڑ ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیا اور جیتی ہوئی بازی ہار دی۔
یہ غلطیاں کیا تھیں، بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ ان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ان سے زیادہ اب میں اپنی حماقتوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ بروقت اگر میں نے ادراک کیا ہوتا۔ اگر انہیں ادنیٰ لوگوں کے حصار میں گھر جانے سے بچانے کی کوشش کی ہوتی؟ اگر 30 اکتوبر 2011ء کے بعد بڑی حد تک بتدریج لاتعلق نہ ہو گیا ہوتا؟ اگر میڈیا میں ان کا واحد ٹھیکیدار بننے کی بجائے ان عوامل کی نشان دہی کرتا، جو نئی پارٹی کو تباہی کی طرف دھکیل رہے تھے؟
پھر اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یاد آتا ہے: جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتا ہے، وہیں سے شیطنت کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر میں سمجھ پایا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غلطیوں سے سبق سیکھا جائے‘ لیکن خود ترحمی کا شکار ہو کر ماضی کا ماتم نہ کیا جائے۔ گزرا ہوا کل بدل نہیں سکتا مگر آنے والا کل درخشندہ ہو سکتا ہے۔
عمران خاں کے جلسوں میں بے ریا کارکنوں کے نعرہ زن ہجوم دیکھتا اور حیران ہوتا ہوں۔ کیا ایک بار پھر ہم اسی راستے پر گامزن ہیں، جس پر کبھی ذوالفقار علی بھٹو اپنی قوم کو لے گئے تھے۔ میں ڈرتا ہوں، بخدا گزشتہ تین برس کا ماجرا دیکھنے کے بعد اس دن سے اب میں ڈرتا ہوں، جب عمران خان کو اقتدار ملے گا اور قوم ایک بار پھر مایوسی کا شکار ہو گی۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے معمار
کی نیت پر مجھے شبہ نہیں۔ اپنے حریفوں کی طرح اربوں ڈالر کمانے کا یقینا وہ آرزومند نہیں‘ مگر اسی مغالطے کا شکار ہے، جس میں کتنے ہی زعماء کرام اور کتنے ہی گروہ مبتلا ہو کر برباد ہو گئے۔ خود کو ضائع کیا اور عشروں کے عشرے برباد کر دیے۔ یہ کہ فقط حکومت بنا لینے سے معاشرے کی کایا کلپ ممکن ہے۔
پرویز رشید اور محمد زبیر کے احمقانہ الزامات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جہانگیر ترین بینک کا قرض کھا گئے اور تحریکِ انصا ف کے 82 فیصد ارکان ٹیکس نہیں دیتے۔ جہانگیر ترین نے قرض اگر معاف کرایا ہے اور تحریکِ انصاف کے لیڈر اگر ٹیکس نہیں دیتے تو متعلقہ بینک اور متعلقہ سرکاری محکمے ان کے خلاف کارروائی کریں ۔ یہ پروپیگنڈے کی جنگ ہے۔ چیخ و پکار وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے لیڈروں کا سرمایہ بیرونِ ملک پڑا ہے۔ غضب خدا کا، کبھی یہ تماشا بھی ہوا ہے کہ ایک ملک کا وزیرِاعظم دھڑلے سے بیرونِ ملک کاروبار کرتا ہو اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہ ہو۔ کاسہ لیسوں کے عائد کردہ الزامات کی کیا حیثیت۔ میرا قلق یہ ہے کہ ایک بار پھر محض ایک شخص کو نجات دہندہ سمجھ لیا گیا ہے اور تمام امیدیں اس کی کامیابی سے وابستہ کر لی گئی ہیں۔ ہاں! میں بھی اس باب میں قصوروار ہوں؛ اگرچہ تلافی کی کوشش کر رہا ہوں۔
خیر خواہ مجھے سمجھانے آتے ہیں۔ میرے اس دکھ کو وہ سمجھ نہیں سکتے کہ تحریکِ انصاف دوسری پارٹیوں جیسی ایک بے سروپا، بے تکی سی پارٹی بن گئی۔ نیچے سے اوپر تک، تحصیل اور اضلاع سے لے کر مرکزی دفتر تک ویسے ہی لوگ مسلّط ہیں، جیسے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں۔ نون لیگ، جس کی چراگاہ پنجاب اور اسلام آباد ہے۔ پیپلز پارٹی، جس کے لیے اب صرف سندھ باقی بچا ہے۔ سوچ سوچ کر میں حیران ہوتا رہتا ہوں، تحریکِ انصاف کی اپنی قائم کردہ کمیٹیاں اس کے الیکشن کو باطل اور اس کے بعض عہدیداروں کو بدعنوان قرار دے چکیں تو اقدام کیوں نہیں کیا جاتا؟ جسٹس وجیہ الدین کی قیادت میں قائم کر دہ کمیشن فیصلہ صادر کر چکا کہ پارٹی کے الیکشن از سرِ نو ہونے چاہئیں۔ ایک دوسری کمیٹی ان عہدیداروں کی نشان دہی کر چکی، جو پارٹی فنڈ میں غبن کے مرتکب ہوئے۔ سمندر پار پاکستانیوں سے جنہوں نے عطیات وصول کیے اور ڈکار گئے۔ ان لوگوں کا احتساب کیوں نہیں؟ انہیں الگ کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ اقتدار کے بھوکے کاسہ لیس عمران خان کے ارد گرد جمع ہو رہے ہیں اور یاللعجب، ان میں ایسے ہیں، جو بھٹو کے قصیدہ خواں تھے یا نواز شریف کے۔ پھر فارسی شاعر کا وہ مصرعہ ایک چیخ کی طرح سینے میں امنڈتا ہے ''کن سے کٹ کر کن سے جڑے ہو؟‘‘ کپتان شب دھرنے سے خطاب کرتا ہے تو گاہے اب بھی وہ شخص اس کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے، جو سود پر قرض دیتا اور غنڈوں کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ دور دور تک وہ پارٹی کی بدنامی کا باعث ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے نجات حاصل کرنے کے بعد، کیا ایسے ہی لوگ ہم پر مسلّط ہوں گے؟ ایسے ہی لوگ، جنہوں نے ڈاکٹر شعیب سڈل کو پختون خوا کا محتسب بننے نہ دیا۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، عمران خان بھی جس پر حیرت کا شکار ہوئے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ مہذب اور مرتّب سیاسی جماعتیں سچّی اور شفّاف جمہوریت کی اساس فراہم کرتی ہیں۔
دو بار، جی ہاں دو بار ابراہام لنکن کو پارٹی کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا کہ پہلی بار منتخب ہونے کے بعد وہ بعض غلطیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پارٹی کی تنظیمِ نو، تطہیر اور کارکنوں کی تربیت کے بغیر، پولیس، عدلیہ، سول سروس اور ایف بی آر کی تشکیلِ نو کے لیے ریاضت کیے بغیر ملک میں وہ انقلاب برپا ہو سکتا ہے، نئی نسل جس کے لیے بے قرار ہے۔ امیدوں کے محل ٹوٹتے ہیں تو زمین و آسمان کے درمیاں مایوسی کی گرد کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
آج کے مسلمان کا المیہ شاید یہ ہے کہ خون بہانے کے لیے تو وہ ہمیشہ تیار ہے، پسینہ بہانے کے لیے کبھی نہیں۔ سانحہ یہی ہے کہ غورو فکر پہ ہم آمادہ نہیں اور جذبات کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ دریا نہیں بلکہ سراب کی طرف!