امیرالمومنین سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے۔ امتحان میں سب سے بڑا مطالبہ ذہنی و فکری توازن ہوتا ہے اور سب سے بڑی غلطی ہیجان۔ شاعر یاد آیا ؎
ہوش و حواس و تاب و تواں، داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا
کچھ ٹی وی کے مذاکروں نے آزردہ کیا اور کچھ اخبارات نے۔ سنسنی فروشی اور الزام تراشی کا نقد نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زمینی حقائق نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں... آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل۔ سیاستدانوں کو اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ جس راہ پر وہ چل نکلے ہیں، وہ تباہی کا راستہ ہے۔ جب آپ دعوے پر تُل جاتے ہیں اور خوئے انتقام ذہنوں پر سوار ہو جاتی ہے تو روشنی کھو دی جاتی ہے۔ غنیمت ہے کہ میڈیا میں کچھ معقول آوازیں سنائی دیں۔ گنتی ہی کے سہی، اہلِ سیاست میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں، متصادم نون لیگ اور تحریکِ انصاف میں جو مذاکرات پہ اصرار کر رہے ہیں۔ ازل سے آدمی کا ایک ہی مسئلہ ہے، ترجیحات کا تعین۔ اس میں اگر وہ غلطی کر بیٹھے تو تمام سفر رائیگاں ہو جاتا ہے۔ یومِ حساب کا منظر بیان کرتے ہوئے، اللہ کی آخری کتاب انکار کرنے والوں کی ذہنی کیفیت بیان کرتی ہے۔ دنیا میں ہم کتنے دن جیے؟ ان میں سے ایک کہے گا، دس دن اور دوسرا تصحیح کرے گا، نہیں، بس ایک دن۔ صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے۔ عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔
یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِنالۂ جرسِ کارواں رہے
اتنے میں موٹر وے پولیس کے ایک نیک نام افسر کا فون آیا۔ رواروی میں پوچھا: کیا آپ کا جی لگ گیا؟ بولے: بالکل، موٹر وے پولیس جس قدر عوام دوست ہے، اس کا داخلی ماحول بھی اتنا ہی شائستہ ہے۔ یاد آیا کہ کیسی کیسی ابتلا سے وہ گزرے ہیں۔ جم کر مگر وہ کھڑے رہے اور نتیجہ توقیر مندی ہے۔ مختصر سی اس بات چیت نے افسردگی سے نجات دی۔ خیال آیا کہ بدترین ماحول میں اگر موٹر وے پولیس ایسا ادارہ قائم ہو سکتا ہے تو اور بھی بہت کچھ ممکن ہے۔ رجائیت اگر برقرار رکھی جائے اور قدرت کے دائمی قوانین ملحوظ۔ ہر آزمائش بالآخر تمام ہو جاتی ہے اور ہر مصیبت کا خاتمہ ہو جاتا ہے، صراطِ مستقیم پر اگر آدمی چلتا رہے۔
مشرف حکومت کے آخری ایّام تھے، مذکورہ پولیس افسر سے پوچھا: ایک ثمربار زندگی گزارنے کی اللہ نے آپ کو توفیق عطا کی۔ کیا کوئی حسرت دل میں باقی ہے؟ کہا، کیوں نہیں۔ آرزو یہ ہے کہ اس حکومت کا خاتمہ ہو چکے تو شیخ رشید کو تفتیش کے لیے میرے حوالے کیا جائے۔ معلوم نہیں، وہ دن کب آئے گا، جب اس ملک میں احتساب کا واقعی چلن ہو گا۔ شیخ رشید کی جگہ اب پرویز رشید نے لے لی ہے۔
دونوں ایک دوسرے کے محلّہ دار اور قدیم رفیق ہیں۔ ایک ہی مکتب کے ہم سبق۔ شیخ صاحب زوال کے بدترین ایام میں بھی عوامی احساسات کا کسی حد تک خیال رکھاکرتے، جناب پرویز رشید نے تو ہر حد پامال کر دی۔ عمران خان کے بارے ان کا فلسفہ سن کر لوگ ہکّا بکّا رہ گئے۔ فرمایا: بعض عالمی طاقتوں نے 2015ء میں پاکستانی ریاست کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کپتان کی تگ و تاز کا تعلق اسی کے ساتھ ہے۔ اگرچہ ''غدّار‘‘ کا لفظ انہوں نے استعمال نہ کیا مگر ان کے الزامات کا حاصل یہی تھا۔ وزارتِ اطلاعات کے طنبورے صاف صاف عمران خان کو غدّار کہہ رہے ہیں بلکہ یہودیوں کا ایجنٹ۔ خواجہ سعد رفیق بھی دھاڑتے ہیں اور عمران خان کے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، جو شائستگی کے تقاضے اکثر بھول جاتے ہیں۔ کہیں مگر رک بھی جاتے ہیں، کبھی تھم بھی جاتے ہیں۔ پرویز رشید کا فرمان یہ ہے کہ عمران خان جب تک احتجاج ترک نہ کریں، بات چیت ان سے نہیں ہو سکتی۔ سبحان اللہ!
چیف الیکشن کمشنر کے سلسلے میں خورشید شاہ وزیرِ اعظم سے ملے تو وفاقی وزیرِ اطلاعات کے موقف کا ذکر ان سے کیا۔ کہا کہ وزیرِ اعظم اس پر حیرت زدہ رہ گئے۔ بتایا کہ ان کی موجودگی میں میاں صاحب نے اسحٰق ڈار کو مذاکرات شروع کرنے کی ہدایت کی۔ وزیرِ خزانہ نے مگر ایک صحافی سے یہ فرمایا: میں زیادہ ضروری کاموں میں مصروف ہوں۔ اس قدر غیر سیاسی ذہن؟ وزیرِ اعظم کے دست و بازو اگر یہی ہیں تو نتیجہ معلوم۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات کے اس ایک جملے نے مجموعی طور پر سول ملٹری تعلقات کو کسی بھی چیز سے زیادہ مجروح کیا تھا ''غلیل نہیں، ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں‘‘۔ رہی سہی کسر خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے بیانات نے پوری کر دی تھی۔ خواجگان نے تو سلیقہ مندی شعار کرنے کی تھوڑی سی کوشش ضرور کی ہے مگر آنجناب اب تک پینتالیس برس پہلے کے گارڈن کالج کی فضا میں زندہ ہیں۔ کاش کوئی سمجھا سکتا کہ بیس کروڑ انسانوں کے اس اہم ملک کا اقتدار کتنی بڑی امانت ہے۔ اس کے تقاضے کس قدر نازک ؎
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے
حکمران جماعت نے کیا چیف آف آرمی سٹاف کے دورۂ امریکہ پر غور فرمایا ہے؟ لاہور کی ایک مصروف شاہراہ پر بینر آویزاں پایا۔ حیرت ہوئی کہ جن کی ذمہ داری ہے، کیا وہ سوچ بچار پر آمادہ ہیں یا نہیں۔ سپہ سالار سے اس میں اپیل ہے کہ جب تک وہ توجہ نہ دیں گے، مسائل حل نہ ہوں گے۔ الطاف حسین تو صاف صاف فوج کو شریکِ اقتدار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو کیا اس دن کا انتظار ہے کہ فساد خدانخواستہ گلی گلی پھیل جائے اور لوگ عساکر کو پکارنے لگیں؟ جمہوریت کے سفر میں کتنی مسافت ہم طے کر چکتے ہیں کہ پھر ایک حادثہ ہوتا ہے۔ پھر سے زیرو پوائنٹ پر ہم پہنچ جاتے ہیں۔
افواج کا نہیں، کاروبارِ حکومت سیاستدانوں کا کام ہے۔ سب سے بڑا نقصان خاکی حکومتوں کا یہ ہوا ہے کہ نچلی سطح تک قیادت پیدا نہیں ہو سکی۔ نچلی کیا، اوپر بھی، زیادہ سے زیادہ ضلع کونسل کی سطح کے لیڈر ہیں۔ ادراک ہی نہیں کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری عام آدمی کی بہبود ہے۔ بڑے بڑے منصوبے، بڑے بڑے دعوے، مخالفین کی تحقیر، غیر ضروری تصادم اور اپنی انائوںکو گنّے کا رس پلانے کا اہتمام ؎
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملّا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد
اخلاقی ساکھ! حکومت اگر ایک کم از کم اخلاقی ساکھ سے بھی محروم ہو تو وہ اپنا فرض کبھی ادا نہیں کر سکتی۔ فرض کی ادائیگی کیا، اپنا وجود بھی گاہے برقرار نہیں رکھ سکتی۔ بار بار تلخ تجربات سے گزرے ہیں۔ اس کے باوجود سبق سیکھنے سے انہوں نے انکار کر دیا ہے۔
عمران خان کی حکمتِ عملی سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ہنگامے اگر بہت زیادہ پھیل گئے تو نقصان فقط حکمران جماعت نہیں، پورے ملک کو پہنچے گا، خود ان کو بھی۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اپنی کمزور تنظیم کے ساتھ ملک بھر میں پہیہ جام کرنے کا ہدف وہ حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔ سوال مگر دوسرا ہے۔ حکومت کا کام جلتی پر پانی ڈالنا ہے، تیل نہیں۔ وہ کیوں آگ کو ہوا دے رہی ہے؟
ہوش مندی حضور، ہوش مندی! آپ تو وحشت کا شکار ہیں۔ ڈیڑھ برس آپ نے کھو دیا، کیا باقی وقت بھی رائیگاں کرنے کا ارادہ ہے؟ امیرالمومنین سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے۔ امتحان میں سب سے بڑا سہارا ذہنی و فکری توازن ہوتا ہے اور سب سے بڑی غلطی ہیجان۔ شاعر یاد آیا ؎
ہوش و حواس و تاب و تواں، داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا