فیصلہ کن معرکے میں، جو آج ہمیں درپیش ہے، صرف متحد ہو کر ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ہم کہ ہمارے دشمن دانا اور تعداد میں بہت ہیں۔ ہم کہ خود شکن، سادہ لوح اور خود فریب ہیں۔ ہم کہ جاگ اٹھے ہیں لیکن پوری طرح اب بھی نہیں ؎
نیند سے گو نماز بہتر ہے
اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی
بھارتیوں کا مسئلہ کیا ہے؟ سرحدوں پر وہ مسلسل آگ برسا رہے ہیں۔ سب سرکاری اور غیر سرکاری چیخ رہے ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف اتفاقِ رائے تو پرسوں ہوا۔ ان کی ناراضی کے اسباب زیادہ گہرے ہیں، پسِ منظر کچھ زیادہ وسیع۔
ماہِ نومبر میں صدر اشرف غنی کے اعزاز میں دی گئی ضیافت میں‘ جنرل راحیل شریف سے مختصر سی اتفاقی ملاقات یاد آئی۔ ازراہِ کرم وہ ہماری میز پر تشریف لائے۔ عرض کیا: کابل سے آپ اچھی خبریں لے کر آئے، امریکہ سے بھی کیا ایسی ہی امید رکھی جائے؟ جنرل نے اثبات میں جواب دیا۔ واپس جانے کا ارادہ کیا مگر رکے اور یہ کہا: اب اس خطّے کی پوری صورتِ حال ہی بدل رہی ہے۔
بھارتیوں کے دل پر زخم لگا ہے۔ طالبان سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد، سیاسی اعتبار سے فضا سازگار ہوئی تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ضربِ عضب کا آغاز کر دیا گیا۔ افغانستان میں صدر اشرف غنی جیت گئے۔ انتخابی مہم کے دوران قیامِ امن کو انہوں نے اوّلین ترجیح قرار دیا تھا، حامد کرزئی کے برعکس، جو منفی اندازِ فکر کے حامل تھے۔ کرزئی نے بھارت کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیے رکھی۔ پاکستانی طالبان سے رابطے استوار کیے اور بلوچ انتہا پسندوں کے کیمپ افغانستان میں قائم کیے۔ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان نے سرحد پہ باڑ لگانے کا ارادہ کیا تو وہ چیخے چلّائے۔
اشرف غنی حقیقت پسند ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ امن اگر قائم ہو سکتا ہے تو پاکستان اور افغانستان میں ایک ساتھ۔ پہلا دورہ انہوں نے چین کا کیا اور دوسرا پاکستان کا۔ اسی دوران تھکے ماندے امریکیوں نے ادراک کر لیا کہ افغانستان میں امن اگر مطلوب ہے تو بھارتی کردار کو محدود کرنا ہو گا۔ پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ پیہم ملاقاتوں میں یہ سچائی بالآخر انہوں نے دریافت کر لی کہ افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری اور سرگرمیوں کا واحد ہدف پاکستان کے دفاع کو نقصان پہنچانا ہے۔ خطے میں چین کی اہمیت کو انہوں نے تسلیم کر لیا۔ اس لیے بھی کہ چین اور پاکستان کی باہمی رفاقت سے نہ صرف کابل میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے بلکہ پورے خطّے میں۔
افغانستان میں بھارتی کردار سمٹ جانے کا مطلب پاکستان کے لیے سنہری مواقع کا ظہور ہے۔ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں تخریب کاری کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی بعض دہشت گردوں کو چار پانچ سو ڈالر روزانہ تک ادا کرتی رہی۔ دو بڑے مسلّح گروپوں کے لیڈر ایک ملین ڈالر سالانہ پاتے رہے۔ اوّل ان کے لیے افغانستان، پھر لندن اور سوئٹزرلینڈ میں پناہ کا بندوبست کیا گیا۔ یہودی لابی کی امداد اور پشت پناہی کے ساتھ یہ ممکن ہوا۔ مغربی سیاست اور معیشت ہی نہیں، ایم آئی سکس اور سی آئی اے سمیت، خفیہ ایجنسیوں میں بھی صہیونی رسوخ کار فرما ہے۔
اسرائیل پاکستان کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ اس کے ایٹمی پروگرام کے طفیل۔ جنرل راحیل شریف نے عالمی امن کے لیے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل ناگریز قرار دیا تو یروشلم پوسٹ نے لکھا: آئی ایس آئی کی پشت پناہی سے حافظ سعید غزہ کی پٹی میں متحرک ہو چکے۔ گذشتہ تین عشروں میں کم از کم دو بار کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اسرائیلی طیارے بھارت پہنچے۔ راجستھان میں ان پر بھارتی فضائیہ کے نشانات ثبت کیے گئے۔ مغرب کی پالی این جی اوز بے سبب آئی ایس آئی کو گالی نہیں دیتیں۔ دونوں بار پاکستانی ایجنسی منصوبے کا سراغ لگانے میں کامیاب رہی۔ ایک اسرائیلی نمائندے کے ذریعے، جو اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں موجود رہتا ہے، تل ابیب کو بتا دیا گیا کہ مہم جوئی تباہ کن ہو گی۔ تمام تر صلاحیت اور منصوبہ بندی کے باوجود صہیونی پاکستان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ رقبے میں ان کا ملک میانوالی سے چھوٹا ہے۔ جوابی وار کا تصور ہی ان کے لیے لرزا دینے والا ہے۔ پڑوسی عرب ممالک میں اعلیٰ درجے کے ایک خصوصی نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان اسرائیلی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے۔
افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ بھارت کے نو عدد قونصل خانے ہیں اور اتنے ہی فرنٹ آفس۔ ویزے جاری کرنے کا اہتمام نہیں، یہ جاسوسی اور تخریب کاری کا جال ہے۔ صرف افغانستان ہی نہیں، ایران میں بھی۔ قوم پرست ایرانیوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ اسی لیے القاعدہ سے وہ مراسم استوار رکھتے ہیں۔ اسی لیے افغانستان اور عراق میں امریکیوں کی انہوں نے امداد کی۔ کم از کم راہگزر کے طور پر دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی وہ اجازت دیتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کا فرزند ایرانی جیل سے فرار ہوا یا کرایا گیا؟ بھارت نے ایران میں بھی غیرمعمولی سرمایہ کاری کی۔ پاکستان پر دبائو رہے اور گوادر کی بندرگاہ کو بروئے کار نہ آنے دیا جائے۔ بھارت کا المیہ یہ ہے کہ وسطی ایشیا کے راستے میں پاکستان پڑا ہے۔ کرم چند موہن داس گاندھی نے 1946ء میں افغانستان کی سرحد پر یہ کہا تھا: بھارت کی سرحد بامیان تک ہے۔
افغانستان میں اشرف غنی ایسے لیڈر کے ظہور اور حریف عبداللہ عبداللہ کے ساتھ مفاہمت کے علاوہ، جس نے قیامِ امن اور پاکستان کے لیے حالات سازگار بنا دیے، دہلی کو دو اور صدمے بھی پہنچے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح کے ذریعے ریاست کے مکمل ادغام کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ ثانیاً داخلی ہم آہنگی سے پاکستان جس راہ پہ چل نکلا ہے، وہ ان کے لیے ڈرائونا خواب ہے۔ ہمیشہ سے وہ پاکستان کو تحلیل کرنے یا کم از کم سکّم اور بھوٹان بنانے کا سپنا دیکھتے آئے ہیں۔ 1971ء میں ہوسِ اقتدار کے مارے لیڈروں شیخ مجیب الرحمٰن، آغا محمد یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے طفیل مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو بھارتیوں نے گھی کے چراغ جلائے۔ قدر ت کے کھیل نرالے ہیں۔ ''را‘‘ نے سندھو دیش اور پختونستان کے منصوبے بنائے مگر عبدالولی خان کے حامیوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے والے بھٹو ہی کے ہاتھوں ایٹمی پروگرام کا آغاز ہوا۔ دستور کی تدوین ہوئی اور اس افغانستان پالیسی کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں تب بھارت کے حلیف روسیوں کو رخصت ہونا پڑا۔
مغرب کی پروردہ این جی اوز اور انسانی حقوق کے نام پر قائم کیے گئے اداروں کے ذریعے، بھارت پاکستان میں فکری انتشار پھیلانے کی لگاتار سعی کرتا رہا۔ چڑچڑی بڑھیا ایسے کردار اور صحافت کے نام پر بنائی گئی تنظیمیں۔ ''سیکولر‘‘ بھارت کا تضاد کشمیر اور الہٰ آباد کے قتلِ عام میں ظاہر ہوتا اور کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ پرسوں کی کل جماعتی کانفرنس میں اعتزاز احسن نے ایک لیڈر سے کہا: فوجی عدالتیں اگر بن گئیں تو عاصمہ جہانگیر کو میں کیا جواب دوں گا؟ ولی داد نامی ایک دہشت گرد کے نام ''را‘‘ کا وائرلیس پیغام ریکارڈ کر لیا گیا: اگر مزید دھماکے نہ کرو گے تو روپیہ واپس کرنا ہو گا اور اسلحہ بھی۔
جمعہ کے اتفاقِ رائے نے وزیرِ اعظم ہی نہیں، پوری قوم کے لیے حیرت انگیز امکانات کا در کھول دیا ہے۔ وہ پہاڑ ایسی غلطی کا ارتکاب کریں گے، عدالتی کمیشن پر اگر عمران خان سے مفاہمت نہ کر پائے۔
فیصلہ کن معرکے میں، جو آج ہمیں درپیش ہے، صرف متحد ہو کر ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ہم کہ ہمارے دشمن دانا اور تعداد میں بہت ہیں۔ ہم کہ خود شکن، سادہ لوح اور خود فریب ہیں۔ ہم کہ جاگ اٹھے ہیں لیکن پوری طرح اب بھی نہیں ؎
نیند سے گو نماز بہتر ہے
اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی