"HRC" (space) message & send to 7575

حیرت ہے

ان دانائوں پہ حیرت ہے، جو حزبِ اسلامی اور حکمت یار کو بھلا کر افغانستان میں امن کے آرزو مند ہیں۔
ایک ایک کر کے سب واقعات نے دل پر دستک دی۔ جذبات کے دریا میں طغیانی آئی، موجوں کا کوئی کنارہ نہ رہا۔ اپنے محترم دوست گلبدین حکمت یار کے معتمد سے گفتگو اختتام کو پہنچی تو عرض کیا۔ پیغام پہنچانا ممکن ہو تو ان سے عرض کیجے گا: میں انہیں بھولا نہیں۔ ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتا ہوں۔ جملہ تمام نہ ہوا تھا کہ خود کو احساسات کے گرداب میں پایا۔ آنکھیں بھیگنے لگیں۔ اس منفرد شاعر خورشید رضوی نے کہا تھا ؎
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں 
1980ء کے موسمِ خزاں میں پہلی ملاقات ہوئی۔ سحر انگیز، انتہائی محتاط، شائستہ کلام اور بامعنی بات کرنے والا۔ روسی بمباری میں افغانوں کے قافلے پاکستان کو رواں تھے۔ برفانی بلندیوں پر پشتون بچّے اور بوڑھے زندگیاں ہار رہے تھے مگر حکمت یار کا لہجہ فولادی تھا۔ دن بھر خیمہ بستیوں میں گھومتا رہتا۔ شام کو پنج ستارہ ہوٹل کی لابی میں قہوے کی ایک پیالی پر نوٹس مرتّب کرنے چلا جاتا۔ رات کے سائے گہرے ہو جاتے تو چھوٹے سے ہوٹل میں جا کر سو رہتا۔ سحر ہوتی تو پنیر کے ساتھ ناشتہ کرتا اور پھر سے گرد آلود راستوں کا سفر۔ چونتیس برس بیت گئے۔ ایک سپر پاور شکست کھا کر لوٹ گئی۔ دوسری افغان سرزمین میں درماندہ ہے۔ یہ رفاقت اسی اپنائیت کے ساتھ قائم رہی۔ برسوں بعد کہیں پیام آتا ہے مگر یوں لگتاہے کہ ابھی کل تک یکجا تھے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا ؎
روز ملنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف 
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے 
یہاں تو بے شمار ملاقاتیں ہیں۔ دھوپ اور کہر کے کتنے ہی موسم ایک ساتھ بتائے۔ 
خانہ بدوش! ایک دن نو ہزار فٹ کی بلندی پر، چاندنی سے نہائے برف زار میں اپنی داستان کہتے ہوئے، اس نے بتایا تھا: میرے آبائواجداد خانہ بدوش تھے۔ پھر اپنے والد لالہ عبدالقادر کی کہانی کہی۔ شمال کا سب سے بڑا شکاری، اڑتے پرندے کو مار گرانا جس کے لیے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ شیر خان، حکمت وال قبیلے کا ایک سردار تھا۔ پچھلی صدی کے اوائل میں، بادشاہ کے ایما پر، جو اس دیار میں پشتون قبائل بسانے کا آرزو مند تھا، دریائے آمو کے کنارے امام صاحب نام کے ایک گائوں میں وہ اپنے ہم نفسوں کے ساتھ جا آباد ہوا، کُندوز سے آگے، سرائے نازک میر سے آگے۔ دریائی بندرگاہ کا نام اسی کے نام پر رکھا گیا، شیر خاں بندر۔ ''شکار کیے گئے جنگلی پرندوں کا گوشت اور کندوز کے خربوزے کبھی مجھے یاد آتے ہیں‘‘۔ میرے اصرار پر اس نے کہا۔ آواز میں حسرت نہیں تھی۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا ہنر وہ جانتا ہے، اورہمہ وقت۔ پھر کہا: کبھی دل میں شکار کی آرزو تڑپ اٹھتی ہے۔ 
برسوں بعد وہ کابل کا محاصرہ کرنے گیا۔ کر چکا تو 25 کلومیٹر دور دریائے کابل پر مچھلی کا شکار کھیلنے گیا۔ انہی دنوں افغانستان جانے والے ایک مہم جُو اخبار نویس نے، جو اس ناچیز کا نام لے کر اس سے ملا تھا، اس کا ایک جملہ سنایا: روسی نرغے میں آزادی کے لیے پھڑپھڑاتے پنج شنبہ میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو میں بچّوں کی طرح روتا رہا۔ 
نوجوان صحافی کو معلوم نہ تھا کہ جو جملہ اس نے روایت کیا ہے، میرے لیے اس کا مفہوم کیا ہے۔ پاڑہ چنار سے آگے، بلند پہاڑوں کے درمیان ایک محفوظ پناہ گاہ میں، جس کے باہر ایک روسی میزائل کا ملبہ پڑا تھا، ایک بار میں نے اس سے پوچھا: کیا آپ کبھی روئے ہیں؟ روس کے وکیلوں سے، لبرل دوستوں سے مودبانہ معذرت، کابل کی حکومت جب کریملن کی داشتہ ہو گئی تو حکمت یار نے بغاوت کی۔ اساطیری شہرت کے حامل اس کے والد کو دشت ابادان میں جیپ کے پیچھے گھسیٹ کر مار ڈالا گیا۔ دو بھائی اغوا کر لیے گئے اور ان کا کچھ پتہ نہ چلا۔ گوشت پوست کا آدمی ہے، سوچا، کبھی تو رو دیا ہوگا۔ اس نے کہا، ہاں! جب افغانستان کی ساری فوج اور پولیس میری تلاش میں تھی، ہر تھانے میں جب میری تصویر لگی تھی، ہنگامِ سفر میں ایک وادی سے گزرا۔ چشمے کے پانی سے وضو کیا اور چاروں طرف نگاہ کی۔ خیرہ کن جمال! فرطِ جذبات سے میں رو دیا۔ یارب! تیری دنیا کس قدر حسین تھی، آدمی نے کس قدر بھدّی بنا دی۔ اس جملے کا ایک اور بھی مفہوم تھا: جائو، ہارون کو بتا دو کہ اب بھی میرے سینے میں وہی دل دھڑکتا ہے۔ آج بھی وہی حیرت اور درد باقی ہے۔ 
دریا کنارے آباد ہونے کے بعد، زرخیز سرکاری زمین عطا ہونے کے باوجود، پارچہ فروشی کا کاروبار جما لینے کے باوجود لالہ عبدالقادر کے اندر کا خانہ بدوش زندہ رہا۔ ایک صبح ساری جائیداد اس نے بیچی اور آمادہ ٔسفر ہوا ''یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ سورج ہمیشہ ایک ہی مقام سے طلوع ہوتا رہے۔ روز و شب پتھروں اور دیواروں کی طرح یکساں رہیں‘‘ اس نے کہا۔ لالہ عبدالقادر کے فرزند کی زندگی میں بھی خانہ بدوشی لکھی گئی۔ پہاڑ پہ کھڑے ہو کر اس نے شمال کی طرف اشارہ کیا: ادھر، وہاں پکتیکا میں میرے جدّ امجد حکمت بابا کا مزار ہے۔ پھر یہ بتایا: میرے دادا وزیرستان میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ 
کوئی زخم سے زخم ہیں، اس زندگی میں۔ بیٹے سے باپ بگڑا اور گھر سے نکال دیا۔ ''بادشاہ سے تم کیوں برسرِ جنگ ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ فرزند نے کہا: حکومت میں ملحد غالب ہو گئے، کمیونسٹ۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ باپ کو بیٹے کی فکر لاحق تھی۔ کہا: اتنے شیوخ اور علماء ہیں، ارباب اور مشہر ہیں۔ تم کیا ٹھیکیدار ہو؟ 
ایک بے پناہ ولولہ اس کے دل میں اٹھا اور وہ واقعی ٹھیکیدار بن گیا۔ اپنی قوم پر، اپنے وطن کی آزادی پر جان نچھاور کرنے پر آمادہ۔ کابل یونیورسٹی میں، برستی بارش میں ہونے والے طلبہ کے خفیہ اجلاس کی روداد ایک دن اس نے مجھے سنائی۔ عبدالرحیم نیازی کی قیادت میں جوانانِ مسلم نام کی وہ تنظیم وجود میں آئی، جس کے بطن سے بعد ازاں ایک کے بعد دوسری جہادی پارٹی ابھری۔ تب انہیں بے طرف کہا جاتا تھا، غیر جانبدار۔ امریکہ اور روس کے قضیے سے لاتعلق۔ علاج کے لیے بھارت لے جائے گئے عبدالرحیم نیازی کو زہر دے کر مار ڈالا گیا۔ 
قیادت کا بوجھ اب اس نوجوان کے کندھوں پہ آ پڑا۔ چالیس سال گزر چکے اور یہ بوجھ اس نے اٹھا رکھا ہے۔ کیسی حیران کن زندگی ہے۔ جیسے ہی اس نے ہوش سنبھالا، بھوکے بھیڑیے کی طرح زمانہ اس پہ پل پڑا۔ بھیڑیے کے جبڑوں میں اس نے ہاتھ ڈال دیے اور یہ جنگ اب تک جاری ہے۔ 
فارسی کے شاعر نے یہ کہا تھا: اے روشنیء طبع تو بر من بلا شدی۔ اے میرے مزاج کی روشنی تو ہی میرے لیے سزا بن گئی۔ حکمت یار کا امتحان اس کی آزاد روی میں پوشیدہ ہے۔ ٹھیک اس وقت، جب وہ سوویت یونین سے برسرِ جنگ تھا، انکل سام اس کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا۔ انہی برسوں میں کشمیری حریت پسندوں، حتیٰ کہ برما کے مظلوم مسلمانوں سے اس نے روابط استوار کیے۔
بے پناہ شکست و ریخت کے باوجود حزبِ اسلامی واحد ملک گیر پارٹی ہے، جو شمال اور جنوب کے امتیازات سے اوپر اٹھ سکتی ہے۔ پاکستان نہ ایران، عرب نہ امریکہ، حکمت یار واحد لیڈر ہیں جو فقط اپنے عوام پہ انحصار کرتے ہیں۔ ان دانائوں پہ حیرت ہے، جو حزبِ اسلامی اور حکمت یار کو بھلا کر افغانوں کی سرزمین میں امن کے آرزو مند ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں