ڈھنگ کی غذا نہیں، دوا نہیں، پرہیز نہیں، ظاہر ہے کہ مریض کی حالت بگڑے گی۔ اقوام کا عالم بھی یہی ہوتا ہے۔ قانون اور عدل ہی ان کی دوا، ان کی غذا اور ان کا سائبان ہوتے ہیں۔
آئین اور قوانین میں ترمیم اپنی جگہ، دہشت گردی صرف ہنگامی اقدامات سے تمام نہ ہو گی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کیسے؟ انٹلی جنس اور پولیس اگر کارگر ہوتی تو ملک کے ایک ایک گوشے میں اتنا اسلحہ کیسے پہنچ جاتا؟ شہر شہر خود کش حملہ آور محفوظ و مامون کیسے ہوتے؟
امیر تیمور نے اپنے ایک گورنر کو بلا بھیجا۔ برق رفتاری کے ساتھ وہ سمرقند پہنچا۔ امیر کو اس نے خشمگیں پایا۔ تاریخ ساز فاتح کے جلال میں، جو خود کو بادشاہ کہلانا پسند نہ کرتا تھا، اب بھی کوئی کمی نہ آئی تھی۔ اگرچہ بیشتر بال سفید ہو چلے تھے اور چہرے پہ جھریاں جال بننے کی ابتدا کر چکی تھیں‘ امیر نے آنکھ بھر کر جواں سال حاکم کو دیکھا اور پوچھا: ہمیں بتایا گیا، ایک تاجر سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے تم نے اسے کوڑوں سے پٹوایا۔ گورنر سمجھ نہ سکا کہ اس سوال کی غایت کیا ہے۔ آئے دن قصورواروں کو سزا دی جاتی ہے اور ان کا شمار کچھ ایسا کم بھی نہیں۔ اس نے سوچا، عالی قدر امیر کو ان ادنیٰ امور سے کیا واسطہ۔ تاجر کے بہروپ میں کیا وہ کوئی اہم آدمی تھا؟ کیا وہ شاہی خاندان میں رسوخ رکھتا ہے؟ کیا امراء میں سے کوئی اس کا پشتیبان ہے؟ ذہن اس کا الجھنے لگا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ پٹتا ہی کیوں۔ سرگوشی میں اس نے کہہ دیا ہوتا۔
جیسا کہ بعد میں اس نے بتایا، پھر فارسی کہاوت اس کے ذہن میں جاگی۔ ''رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ اب سر جھکا کر اس نے جواب دیا: جی ہاں، میرے آقا۔ ادائیگی کرنے میں وہ ناکام رہا
تھا۔ اس نے بہانے تراشے اور امیر کا حصہ ہڑپ کرنے کی کوشش کی۔ ''نوبت یہاں تک آ پہنچی‘‘ امیر نے کہا ''یہ تو بہت ہی تشویش کی بات ہے، پریشانی اور شرم کی۔ تاجر اتنے جرّی ہو گئے کہ ٹیکس دینے سے انکار کر دیں۔ گورنر اس قدر بے رعب اور غبی کہ حکومت کا احساس دلانے کے لیے کوڑے گونجا کریں؟‘‘ پھر وہ بڑبڑائے ''ایسی حکومتیں باقی نہیں رہا کرتیں۔ ایسی حکومت کو باقی رہنے کا حق بھی کیا‘‘ گورنر کو امیر نے حکم دیا کہ پھر سے وہ تاتاریوں کے لشکر کا حصہ بن جائے، جو وادیوں، برف زاروں اور ریگستانوں میں امیر کے دشمنوں کا تعاقب کیا کرتا ہے۔ ''کارِ حکمرانی چیزے دگر ہے‘‘۔
ہمیشہ سے حکومت اپنے اداروں اور افرادِ کار کے ذریعے اپنا وجود منوایا کرتی ہے۔ اگر پچاس ہزار انگریز، ان کی چھوٹی سی سول سروس اور پولیس پورے برّصغیر میں امن برقرار رکھ سکی۔ اگر نوشیرواں عادل کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیا کرتے۔ فاروقِ اعظمؓ کے اقتدار میں، جیسا کہ رسول اللہؐ نے پیش گوئی فرما دی تھی، کوئی تنہا خاتون سونا اچھالتی خلافت کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک شاداں چلی جاتی تو یہ مؤثر حکمرانی کا نتیجہ تھا۔ مدینہ منوّرہ سے یروشلم تک یہ کم از کم سولہ دن کی مسافت تھی۔ امیرالمومنین عمر ابنِ خطابؓ ایک اونٹ اور ایک غلام کے ساتھ ان شب و روز میں سلامت گزرے۔ کوئی پیش خیمہ ان سے آگے اور کوئی محافظ دستہ ان کے ہمراہ نہ تھا۔ مورخ کہتے ہیں کہ زمین گویا ان کے قدموں تلے
کانپ رہی تھی۔ خوف ایک ہتھیار کا نام ہے، اجتماعی زندگی میں خوب سوچ سمجھ کر جو استعمال کیا جاتا ہے۔ مجرم اس وقت دبک کر پسپا ہوتا ہے، جب اسے یقین ہو کہ قانون کے عتاب سے وہ بچ نہ سکے گا۔
فوجی عدالت تک نوبت نہ پہنچتی۔ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی اور نہ آئین میں اکیسویں ترمیم کی‘ جنرل پرویز مشرف، پیپلز پارٹی کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری اور نون لیگ کے قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف نے اگر پولیس، انٹلی جنس اور عدالت کو بہتر بنایا ہوتا۔ ایک حالیہ ملاقات میں وزیرِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف سے ناچیز نے سوال کرنے کی جسارت کی کہ پولیس کی اصلاح کے لیے آخری اقدام آپ نے سولہ سال پہلے کیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ انہوں نے اس سوال کا جواب نہ دیا۔ دیتے بھی کیا؟ پاکستانی تاریخ کے سب سے کامیاب پولیس افسر نے مجھے بتایا: ہر سال لاکھوں ایف آئی آر درج ہوتی ہیں۔ ان میں ایک آدھ ہی پوری طرح صداقت پہ مبنی ہوتی ہے۔ ان کی پختہ رائے میں علاج یہ ہے کہ ساری مہذب دنیا کی طرح ایف آئی آر کو مقدمے کی بنیاد نہیں بلکہ محض ابتدائی رپورٹ سمجھا جانا چاہیے۔ انحصار تفتیش اور ثبوت پر ہونا چاہیے۔ جرم کی کافی شہادت کے بغیر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔
دو سوال سامع کے ذہن میں ابھرے۔ اوّل یہ کہ ڈھنگ کی تفتیش ہو گی کیسے؟ پولیس کی تربیت ایسی ہے اور نہ وسائل۔ کوئی باز پرس کرنے والا بھی نہیں؛ حتیٰ کہ دانستہ مقدمہ بگاڑنے والوں سے بھی نہیں۔ ثانیاً ایف آئی آر میں جھوٹ بولنے کی سزا کیوں نہیں؟ ان سے بھی زیادہ اہم یہ کہ پولیس کی بھرتی میرٹ پر کیوں نہیں ہوتی؟ حکمران کب تک حماقت کا شکار رہیں گے کہ اس کے ذریعے امن قائم کرنے کی بجائے پولیس کو فقط آلہء کار بنائے رکھیں۔ وہ بارسوخ طبقات کی باندی بنی رہے۔ کمزوروں کے لیے خوف کی دائمی علامت اور طاقتوروں کا ہتھیار۔ ظاہر ہے کہ حکمران جب تک حکمران نہ بنیں، یہ معجزہ رونما نہیں ہو سکتا۔
پانچ برس تک آصف علی زرداری دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتے رہے۔ اب بھی سندھ، کشمیر، گلگت اور بلتستان میں ان کا مشغلہ یہی ہے۔ ان کے خاندان اور حواریوں کا بھی اور کسی رضا ربّانی کو اس پہ کبھی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ ان کے جانشین وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی دولت کا بڑا حصہ بیرونِ ملک پڑا ہے۔ سولہ دسمبر کو پشاور میں معصوم بچّے گولیوں سے بھون دیے گئے تو چترال سے کراچی تک سکتے کی کیفیت تھی۔ اس دوران میاں صاحب مبیّنہ طور پر ایک عرب کمپنی خریدنے کے لیے بات چیت کرتے رہے اور وہ بھی ایوانِ وزیرِ اعظم میں۔ جمعہ کی شام وہ اسلام آباد سے لاہور تشریف لے جاتے ہیں اور پورے دو دن تفریح میں گزار دیتے ہیں۔ یوں تو اسلام آباد میں بھی وہ ''مذاق رات ‘‘ اور ''حسبِ حال‘‘ ایسے مزاحیہ پروگرام دیکھا کرتے ہیں۔ لاہور میں تفریح کا عنصر کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ طرح طرح کے کھانے اور محفل آرائی۔ طیب اردوان کے ایک دوست نے اپنے پاکستانی احباب کو ترک حاکم کی حیرت سے آگاہ کیا کہ پاکستانی وزیرِ اعظم ان کے ہاں فلمائے گئے بیہودہ تاریخی ڈرامے دیکھنے کی فرصت پاتے ہیں۔ سول انٹلی جنس کو بہتر بنانے اور جدید سانچے میں ڈھالنے کی کبھی کوئی تدبیر نہ کی گئی۔ 2009ء میں شہباز شریف حکومت برطرف کرنے کے لیے آئی بی کے نام پر پچاس کروڑ روپے سرکاری خزانے سے نکالے اور برتے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حال ہی میں یہی کارِ خیر میاں صاحب نے انجام دیا۔ اپنے پسندیدہ میڈیا گروپ کو نوازنے کے لیے، جو قومی سلامتی کے لیے مسائل پیدا کرتا رہتا ہے۔ جس پر الزام ہے کہ برطانیہ، بھارت اور امریکہ سے اس کے خفیہ مراسم ہیں۔ اجنبیوں کے ایما پر وہ قومی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے۔
عدالت انصاف مہیا نہیں کرتی۔ انٹلی جنس معلومات جمع کرنے میں ناکام ہے۔ مجرموں کا نہیں، پولیس معصوم شہریوں کا پیچھا کرتی اور انہیں ایذا دیتی ہے۔ قانون کے دائرے میں سول سروس کو کام کرنے کی آزادی حاصل نہیں۔ ڈھنگ کی غذا نہیں، دوا نہیں، پرہیز نہیں، ظاہر ہے کہ مریض کی حالت بگڑتی جائے گی۔ اقوام کا عالم بھی یہی ہوتا ہے۔ قانون اور عدل ہی ان کی دوا، ان کی غذا اور ان کا سائبان ہوتے ہیں۔