نگاہ اہم ہے لیکن زاویۂ نگاہ کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
بیسویں صدی کے مقبول ترین فلسفی برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ہم‘ بنی نوع انسان‘ اشیاء کے باہمی تعلق سے تو واقف ہیں مگر ان کی حقیقت سے نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ دعا فرمایا کرتے: اے اللہ‘ مجھے اشیاء کی حقیقت سے باخبر فرما۔
جنرل راحیل شریف کے دورۂ برطانیہ میں کچھ آشکار اور اہم حقائق ہیں۔ دانشوروں اور فوجی افسروں سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ معاملے کی سچائی اور بنیاد سے نقطہ نظر کی اہمیت گاہے زیادہ ہوتی ہے۔ اخبار نویسوں کو فکر لاحق تھی کہ پالیسیوں کی تشکیل‘ خاص طور پر خارجہ امور میں کمان اب عسکری قیادت کے ہاتھ میں چلی گئی۔ حکمران بظاہر منتخب ہیں۔ اپنی بے شمار اور بنیادی غلطیوں کے طفیل مگر اس حال کو پہنچے کہ صرف فیتے کاٹ سکتے ہیں‘ اجلاس فرما سکتے ہیں۔ اگر بے حمیتی پر تل جائیں تو روپیہ بنا سکتے ہیں۔ فوجی افسروں میں سے ایک ہوش مند آدمی نے کہا: دانشوروں کو یہ کیا سوجھ رہی ہے۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ قومی مقاصد کیا حاصل ہو رہے ہیں یا نہیں؟ ان کا خیال یہ بھی تھا کہ افغانستان کے دورے میں جو کامیابی چیف آف آرمی سٹاف کو حاصل ہوئی‘ اسی نے حکومت کو آمادہ کیا کہ برطانیہ انہیں بھیجے۔ اس پہلو پر اتنی توجہ کیوں ہے کہ اصل ترجیح کو نظرانداز کر دیا گیا۔
چودہ ماہ قبل جنرل راحیل شریف برّی فوج کے سربراہ نامزد کیے گئے تو ایک عجیب تجربہ ہوا۔ شام کو ٹیلی ویژن کے مقبول پروگرام میں اظہارِ خیال کرنا تھا۔ جنرل کو جاننے والے‘ ان کے
سینئر‘ سبکدوش افسروں اور خاندان تک رسائی رکھنے والوں سے رابطہ کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی پہلو سے ان کی مدح کی۔ گوجرانوالہ کے شیخ محمد اسلم نے‘ جنہیں ان کی نرم خوئی اور سادگی کے طفیل اسلم بھولا کہا جاتا ہے‘ ان دنوں کو یاد کیا‘ جواں سال راحیل شریف‘ جب کرنل تھے... اور ان کے شہر میں مقیم۔ کہا: وہ غیرضروری محاذ آرائی اور تنازع سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ NUST یونیورسٹی کے بریگیڈیئر عارف صدیقی نے کہ ان کے سینئر ہیں‘ تنومند فوجی افسر کی وضع داری کی تعریف کی۔ وہ سب کے سب متفق تھے کہ ایسا کوئی نمایاں عیب ان میں نہیں‘ بارسوخ اور طاقتور لوگ‘ جن کے لیے بدنام ہوتے ہیں۔ دولت سے محبت اور نہ آوارگی و ژولیدہ فکری۔ آدمی تو بس آدمی ہوتا ہے‘ فرشتہ تو ہرگز نہیں۔ ابھی کل تک بعض بدگمان یہ کہہ رہے تھے کہ اگر وہ اس قدر ترقی پا سکے تو سبب یہ ہے کہ میجر شبیر شریف کے سگے بھائی ہیں۔ شہید کے لیے موجود بے پایاں احترام کا فائدہ انہیں بھی پہنچا۔ اب مگر کسی نے اس کی طرف اشارہ تک نہ کیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی کمزور پہلو بھی ہو گا۔ اخبار نویس کریدتا رہا مگر کوئی نشان دہی نہ کر سکا۔ بریگیڈیئر عارف صدیقی سے بات کرتے ہوئے کہ بے تکلف دوست ہیں‘ چڑ کر میں نے کہا: ہم ایک آدم زاد کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ بھی نہلے پر دہلا پھینکنے والے ہیں۔ چمک کر بولے: اگر عیب کی کوئی بات مجھے معلوم ہی نہیں تو کیا گھڑ کر سنا دوں؟
جنرل راحیل شریف کا ایک کارنامہ ایسا تھا کہ مستقل طور پر یاد رکھا جاتا۔ قومی دفاع کے باب میں یہ ان کا نظریہ تھا کہ دہشت گردی کا زہر پھیل جانے کے بعد‘ زیادہ بڑا خطرہ باہر نہیں‘ اندر سے رونما ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں اپنے خیالات انہوں نے کور کمانڈروں کی ایک کانفرنس میں پیش کیے‘ ایک مربوط مقالے کی شکل میں... اور انہیں قبول کر لیا گیا۔
جنرل راحیل شریف کے سپہ سالار بننے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ زیر بحث نام جنرل ہارون اور جنرل راشد کے تھے۔ انہی دنوں ایک اعلیٰ فوجی افسر نے مجھ سے پوچھا: آپ کے خیال میں‘ پاک فوج کا نیا سربراہ کون ہو گا؟ عرض کیا: وزیر اعظم اپنے ہی خیال کے سحر میں مبتلا ہونے والے آدمی ہیں۔ پڑھنے لکھنے سے کچھ زیادہ شغف نہیں۔ دلیل اور منطق کو اہمیت دیتے ہیں مگر کچھ زیادہ نہیں۔ ترجیحات بنیادی طور پر ذاتی ہیں؛ اگرچہ وہ ارشاد فرما چکے کہ سب سے سینئر افسر کو زمام سونپ دی جائے گی۔ انحراف کرنے کی مگر ضرورت پڑی تو تامل کیوں ہو گا۔ بولے: پھر بھی پسند‘ ناپسند کا کوئی معیار تو ہو گا۔ گزارش کی کہ جن صاحب کا نام جنرل کیانی تجویز کریں گے‘ ان کے مقرر ہونے کا تو سوال ہی نہیں۔ ان کی توسیع پر میاں صاحب کی ناراضی واضح تھی۔ ایک چیز کو وہ اہمیت دیتے ہیں اور وہ ہے وادیٔ کشمیر سے کسی کا تعلق۔
تقدیر الٰہی کے کرشمے عجیب ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے دو اڑھائی برس بعد تک جو شخص‘ نسبتاً کم اہم سمجھا جاتا رہا‘ آخرکار چن لیا گیا۔ کوئی کہانی نہ سکینڈل‘ کوئی بری بات اس آدمی سے منسوب نہ کی گئی۔ ہمیشہ افواہ پھیلانے پر آمادہ‘ غیرملکیوں کے روپے پر پلنے والی این جی اوز نے بھی نہیں۔ آخر کیوں؟ ان دنوں اس موضوع پر میں سوچتا رہا۔ سرکارؐ کے کچھ ارشادات یاد آئے۔ ان میں سے ایک کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ جب کسی کو پسند کرتا ہے تو اس کی محبت مخلوق کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے۔ فرمایا: لوگوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں‘ ہوا جسے الٹاتی پلٹاتی ہے۔
جنرل صاحب کابل گئے تو واقعات کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا‘ جو تاریخ پر اثرانداز ہوتا نظر آتا ہے۔ کابل کی انتظامیہ‘ پاکستان کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتی تھی کہ ہمیں دست نگر بنانے کا آرزومند ہے۔ صدر اشرف غنی نے جنرل پر مگر پوری طرح اعتماد کیا۔ ایسی ہم آہنگی‘ جس کی مثال اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اسی دورے ہی کا نتیجہ ہے کہ مولوی فضل اللہ ایسے لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان سے ملحق کنڑ اور نورستان میں مشترکہ آپریشن کیے گئے۔ چین کا روّیہ پہلے ہی خوشگوار تھا۔ اب ان کے تپاک میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی دورہ ایک ہفتے کا تھا مگر پھیل کر دو ہفتے کا ہو گیا۔ کہا یہ گیا کہ پاکستان کے کسی آرمی چیف کا ایسا استقبال کبھی نہیں ہوا۔ ایوب خان کا بھی نہیں‘ جن کے ہم عصر‘ مقبول عوام صدر کینیڈی‘ پاکستان کو "Khan's country" کہا کرتے۔ ''خان کا ملک‘‘۔
برطانیہ میں اب وہی منظر ہے۔ نہ صرف وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ان کا پُرجوش خیرمقدم کیا بلکہ تقریباً ہر اہم آدمی سے ا ن کی ملاقات ہوئی۔ صاف صاف اور کھرے انداز میں انہوں نے یاد دلایا کہ ''حزب التحریر‘‘ ایسی تنظیم کا مرکز برطانیہ میں قائم ہے‘ جو پاکستان کے فوجی افسروں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ ہربیار مری ایسے کردار‘ جو بلوچستان میں بغاوت پھیلانے کے درپے ہیں‘ بھارت سے جن کا رابطہ ہے‘ لندن میں پناہ پاتے ہیں۔ جنرل کوئی سیاستدان نہیں‘ جسے وہ ٹال سکیں۔ اس کی جیب میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے فراہم کردہ شواہد ہیں۔
سوال بہت سے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جنرل کی حیران کن کامیابی کا راز کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس کی فطری سادگی‘ سچائی اور صاف گوئی۔ فرمایا ''سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے‘‘۔ کیا ان کی غیر معمولی مقبولیت میں کوئی خطرہ پوشیدہ ہے؟ جی ہاں‘ بے پناہ پذیرائی سے‘ توقعات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ ہیرو کا پائوں پھسلتا ہے تو تباہی آتی ہے۔ جنرل اور اس کے ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ طے کردہ ترجیحات کے دائرہ کار ہی میں سرگرم ہوں۔ سوالات اور بھی ہیں مگر بات ادھوری رہ جاتی ہے۔
نگاہ اہم ہے لیکن زاویۂ نگاہ کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا