افراد ہی نہیں ، اقوام پر بھی علم اور دیانت دارانہ غو ر و فکر سے سنہرے مستقبل کے در وا ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے : اللہ کے مخلص بندے گمراہ نہیں ہوتے ۔ حسنِ نیت ، جنابِ والا حسنِ نیت!
مذہبی پارٹیوں کا اعتراض بظاہر درست ہے کہ کراچی کے دہشت گردوں سے بھی وہی سلوک کیا جائے ، مذہبی انتہا پسندوں کے لیے جو روا ہے ۔ گہرائی میں غور کیجیے تو پتہ چلتاہے کہ اس اندازِ فکر میں ایک بڑی خرابی چھپی ہے ۔ فوجی عدالتیں ایک خاص مقصد کے لیے بنائی گئی ہیں۔ مساجد، مارکیٹوں ، مزارات اور سکولوں میں دھماکے کرنے اور قتلِ عام روا رکھنے والے جنونیوں کے مقدمات سننے کے لیے ۔ حتمی رائے تبھی دی جا سکے گی ، جب وہ فیصلے سنائیں گی ۔ وزیرِ اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں اور جی ایچ کیو میںمشاورت کے عمل سے جو خبریں چھن چھن کر آرہی ہیں ، وہ بہرحال اطمینان بخش ہیں ۔ طے یہ پایا ہے کہ نہ صرف سماعت میں احتیاط روا رکھی جائے بلکہ مقدمات کے انتخاب میں بھی ۔ اداروں اور تنظیموں کے خلاف نہیں بلکہ افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ Jet Black Terrorists۔ مسلّمہ طور پر شقی القلب مجرم۔
سیاسی قیادت نے متفقہ طور پر جس منصوبے کی منظوری دی ، اس کی روح یہی ہے ۔ اندیشوں پر موقف اختیار نہیں کیے جاتے ۔ وسوسوں پر ترجیحات مرتب نہیں ہوتیں ۔ جمعیت علمائِ اسلام اور جماعتِ اسلا می جو کچھ کہہ رہی ہیں ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہب کا نام لینے والے قاتلوں کے خلاف تبھی اقدام کیا جائے، جب لسانی دہشت گردوں کے باب میں بھی ویسی ہی کارروائی ہو ۔ آخری تجزیے میں یہ بچگانہ بات ہے ۔ مجرم تو بس مجرم ہی ہوتا ہے۔ اگر ایک سے نجات ممکن ہے تو ضرور حاصل کی جائے ۔ دوسرے سے بھی نمٹ لیاجائے گا۔ یہ منفی اندازِ فکر ہے کہ ایک قاتل کے باب میں نرمی ہے تو دوسرے سے بھی روار کھی جائے ۔ یہ گروہی نفسیات ہے ۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان پر اجماعِ امّت کے ہنگام بعض علما نے اسی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اب تک وہ اس کی قیمت چکا رہے ہیں ۔ مصلحتاً ہی سہی، کمیونسٹوں نے پاکستان کی تائید کر دی تھی ۔ زعمِ تقویٰ اور خبطِ عظمت کا شکار علمائِ کرام نہ کر سکے ۔ پھر وہ شکایت کرتے ہیں کہ عوام ان پر اعتبار نہیں کرتے ۔کیسے کریں ؟
کراچی کے دہشت گرد تین طرفہ یلغار کا سامنا کر رہے ہیں ۔ طالبان ، جن کے ہتھیار حریفوں سے بہت بہتر ہیں ۔ پستولوں کے مقابلے میں کلاشنکوف اور راکٹ لانچر۔مذہبی فرقہ پرست ، جو اپنی وجوہ اور اپنے پشت پناہوں کی وجہ سے ان پر حملے کرتے ہیں۔ ثالثاً قانون نافذ کرنے والے ادارے ، جو دوسروں کے علاوہ ان کے خلاف بھی کارروائی کر رہے ہیں ۔ رینجرز ہرگز کوئی فریق نہیں۔ جنرل رضوان اور جنرل بلال کی دیانت اور انصاف پسندی پر کبھی شک نہیں کیا گیا۔ سندھ حکومت کی المناک نااہلی، جانبداری اور ہر طرح کے حالات میں کرپشن کے باوجود ، لیاری میں گینگ وار ختم ہوئی اور بھتہ خوری میں کمی آئی تو یہ رینجرز کے طفیل ہے ۔
شہر کے معاملات الجھے ہوئے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے چار جماعتوں کو بھتہ خوری کا مرتکب قرار دیاتھا۔وہ سب اپنے دائرۂ اثر کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔شرمناک بات یہ ہے کہ گاہے اسلحہ کے بل پر ۔ ثانیاً جرائم پیشہ اور فرقہ پرست عناصر صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سمگلر او رمنشیات فروش ان کے سوا ہیں ۔ فوجی عدالتیں ، اگر اس معاملے میں ملوّث ہو گئیں تو نتائج تباہ کن ہوں گے ۔ اس مقصد کے لیے پولیس اور عدلیہ کو بہتر بنانا ہوگا۔ مجرم عناصر کے خلاف اقدامات ساتھ ساتھ جاری رہیں ۔ ہر ماہ کم از کم ایک بار کراچی جانے اور ذمہ دار لوگوں سے مسلسل ملاقاتوں کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو اس سلسلے میں زرداری صاحب سے بات کرنی چاہیے۔
کراچی پولیس کی تشکیلِ نو کے بغیر اس شہرکوحقیقی امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈاکٹر شعیب سڈل کی رائے ہمیشہ یہ تھی کہ رینجرز کی کارروائی سے محدود مقاصد ہی حاصل ہوں گے ۔ سالِ گذشتہ کراچی میں متعین ایک اعلیٰ فوجی افسر نے مجھ سے کہا تھا۔ امن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اب صوبائی حکومت ہے ۔ وہ جو پولیس افسروں کی بھرتی اور تقرر کے علاوہ سازو سامان کی خریداری میں دھڑلے سے گھپلا کرتی ہے ۔
ایک صدی پہلے سے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ بڑے شہروں کو صوبائی پولیس کنٹرول نہیں کرسکتی ۔ ان کے لیے ایک اور مقامی فورس تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بھارتی شہر چنائی ایک مثال ہے ۔ ہر ایک کلومیٹر پہ دو پولیس افسر گشت کرتے ہیں ۔ حکومت اگر کافی رقوم مہیا نہ کرسکے تو تاجر اور صنعت کار گاڑیاں مہیا کرتے ہیں ۔ کراچی کے کاروباری ان سے زیادہ فیاض ہیں ۔ ملک کسی ابتلا کاشکار ہو ، بے تابانہ وہ مدد کے لیے بڑھتے ہیں ۔ کسی تاخیر کے بغیر کراچی کے لیے ایک پولیس قائم کی جانی چاہیے۔ موجودہ اہلکاروں اور افسروں میں سے جو ناقابلِ اصلاح ہوں، موزوں مہلت دے کرانہیں سبکدوش کر دیا جائے ۔ جون 1995ء سے جنوری 1996ء تک ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل نے پانچ ہزار کانسٹیبل اور افسر برطرف کر دیے تھے ، بیس فیصد... اور کوئی قیامت نہ آئی تھی !
مجھے یہ رونا روتے کئی سال گزر گئے کہ جب تک پولیس کو سیاسی اثرات سے پاک نہ کیا جائے گا ، ملک کو وہ امن نصیب نہیں ہو سکتا، جو سیاسی استحکام کی اسا س بنتاہے ۔ اس کے بعد معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں ۔ معاشی فروغ کے ساتھ خارجہ پالیسی کے آزاد ہونے کے علاوہ صحت او رتعلیم کے لیے کافی وسائل مہیاہو تے ہیں ۔ سیاستدانوں کواللہ تعالیٰ عقل سلیم عطا کرے ، ان کے پاس مطالعے کا وقت ہے اور نہ غور وفکر کا۔ وہ روزمرہ امور پہ بیان بازی میں مگن رہتے ہیں ۔ بڑی تصویر وہ نہیں دیکھتے ۔ اپنی جماعتوں کی جمہوری تشکیل اور مختلف شعبوں کے لیے ماہرین تیار کرنے کی ضرورت وہ محسوس نہیں کرتے ۔ ابھی تک وہ قیامِ پاکستان سے پہلے کی ذہنی دنیا میں زندہ ہیں ، بعض تو قبائلی عہد میں ۔ فوج کے غلبے کا سبب یہ ہے کہ سول اداروں کے علاوہ ،سیاسی جماعتیں افسوسناک حد تک غیر منظم ہیں ۔ ترکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ کبھی فوج ان پر چڑھی رہا کرتی ۔ا ب انہوں نے اسے نظم و نسق کا پابند بنا دیا ہے ۔
حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ کو جب کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتاتو وہ پوچھاکرتے ''شاہانِ عجم اس سلسلے میں کیا کرتے ہیں‘‘ علوم و فنون بنی نوعِ انسان کا مشترکہ ورثہ ہے ۔ دوسروں سے تو ہم کیاسیکھیں گے ، ملائیشیا او رترکی سے بھی نہیں۔ آخر الذکر میں پی ایچ ڈی پولیس افسروں کی تعداد اب 500سے زیادہ ہے... اور انہیں یہ راہ ایک پاکستانی پولیس افسر نے دکھائی تھی ۔
ہیجان ، گروہ بندی اور جذباتی تقریروں سے نہیں ، احتجاج اور شور شرابے سے نہیں،قومی مسائل ایک جامع حکمتِ عملی سے حل ہوں گے ۔ شخصیت پرستی اور پارٹی بازی سے اوپر اٹھ کراس ادراک سے کہ ہر شہری امن وانصاف کا حق دار ہے ۔ لیڈر وہ شخص ہوتاہے ، جو معاشرے کی تقسیم اورتضادات سے بلند ہو کر سوچ سکے، فیصلہ صادر کر سکے ۔ غو ر و فکر کی توفیق ملے تو علما کو اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ میثاقِ مدینہ کے ہنگام یہود اور مشرکین نے بھی رسولِ اکرمؐ کو حاکم کیوں مان لیاتھا۔ چیف جسٹس، چیف آف آرمی سٹا ف اور چیف ایگزیکٹو ، سبھی کچھ ۔ اس لیے کہ تعصب کا ایک ذرا سا اندیشہ بھی انہیں ہرگز نہ تھا۔
افراد ہی نہیں ، اقوام پر بھی علم اور دیانت دارانہ غو ر و فکر سے سنہرے مستقبل کے در وا ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے : اللہ کے مخلص بندے گمراہ نہیں ہوتے ۔ حسنِ نیت ، جنابِ والا حسنِ نیت!