جناب الطاف حسین اور عمران خان اپنے پچھلے دو دنوں کے بیانات سامنے رکھیں اور غور فرمائیں۔ خود سے پوچھیں کہ اپنے ساتھ انہوں نے کیا کیا؟ اپنی قوم کے ساتھ کیا؟ تو شاید شرمندہ ہوں ؎
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو‘ مجھ کو بھی شرمسار کر
افسوس‘ صد افسوس۔ خود شکنی کی کس شدت میں ہم مبتلا ہوئے۔ آدم زاد کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ غلطی سب کرتے ہیں‘ مگر کوئی حد بھی ہوتی ہے۔ الطاف حسین اور عمران خان کی شعلہ گفتاری پہ میں سوچتا رہا اور ایک بار پھر قرآن کریم کی اس سورت نے دل پہ دستک دی۔
قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ جو ایمان لائے اور اجلے عمل کیے
حق کی تلقین اور صبر کی نصیحت کرتے رہے
آدمی کا آغاز ہی غلطی سے ہوا۔ مگر فوراً ہی اس پر توبہ کا دروازہ کھول دیا گیا۔ ابلیس نے آدم علیہ السلام کو چکمہ دیا کہ دائمی عمر نصیب ہو گی۔ ممنوعہ شجر کا پھل انہوں نے کھا لیا۔ کوتاہی اور اشتعال قابل فہم مگر اس پہ اصرار اور اشتعال پہ استقلال؟ غلطی سے نہیں‘ انسان اس پر ڈٹ جانے سے برباد ہوتے ہیں۔
حادثہ ہوتا ہے اور آزمائش میں آدمی کو ڈال دیا جاتا ہے۔ فردوس برّیں سے کرہ خاک پر آدم و حوا کو روانہ ہونے کا حکم دیا گیا تو ارشاد ہوا: تم میں سے بعض‘ بعض کے دشمن ہوں گے۔ امتحان اسی میں ہے۔
ظفر آدمی اسے نہ جانیے گا‘ ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
آغاز جناب الطاف حسین نے کیا۔ پرسوں پرلے روز دھرنے کے بارے میں جو کچھ انہوں نے ارشاد کیا‘ نقل کرتے ہوئے شرم دامن گیر ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن کو بچے بھی دیکھتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خیال کیوں نہ آیا کہ حیا اگر باقی نہ رہے تو حیات اجتماعی میں کچھ نہیں بچتا۔ فرمایا: حیا‘ ایمان کی شاخ ہے۔ اور یہ فرمایا: جسے شرم نہیں‘ وہ اپنی مرضی کرے۔ اس کے بعد رحمتِ پروردگار کی حدود سے وہ نکل گیا۔ اللہ اس سے بے نیاز ہوا۔ اس کی تقدیر اب اس کے اعمال کے سپرد ہوئی۔ اس نائو کی طرح جس کا کوئی بادبان اور کوئی ملاح نہ ہو۔ جو سمندر کے حوالے کر دی جائے اور جسے ساحل نصیب نہ ہو۔ ان کے الزام کو سو فیصد درست مان لیا جائے تو بھی سوال یہ ہے کہ انہیں اس اظہار کی ضرورت کیوں پڑی۔ کیا کسی نے انہیں محتسب مقرر کیا ہے۔ کیا اس امر کا اطمینان انہوں نے کر لیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سب وابستگان بے داغ ہیں۔ بجا کہ دھرنے کا ماحول شائستہ نہ تھا۔ جنون کی پیہم تبلیغ نے اس میں ہیجان پیدا کر دیا اور نسلِ نو کو حالات کے حوالے‘ مگر کیا یہ جرم فقط تحریک انصاف نے کیا۔ خود ایم کیو ایم نے اپنے لوگوں کو کیا تعلیم دی ہے۔
اصول یہ ہے کہ ذاتی زندگیوں پر گفتگو نہیں کی جاتی۔ قاعدہ یہ ہے کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھنے والے پتھر نہیں برسایا کرتے۔ نکتہ یہ کہ افراد کے جرائم کی سزا قبائل اور جماعتوں کو نہیں دی جاتی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر جو الزام عائد کیا گیا‘ کس طرح وہ ثابت کیا جائے گا۔ پھر یہ کہ کیا دوسرے گروہوں کا دامن دامنِ مریم ہے۔
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں؟
اس ہنگام بلدیہ ٹائون کے سانحہ کی بازگشت تھی۔ ایم کیو ایم کے لیڈروں نے کہا اور تجزیہ نگاروں نے تائید کی کہ چند مجرموں کی وجہ سے‘ ایم کیو ایم کی قیادت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مخالفین چڑھ دوڑے تھے۔ سنہری موقعہ انہیں ملا تھا کہ بس چلے تو ان کی بساط ہی لپیٹ دیں۔ خطرناک حربے اور ہتھیار سے وہ لیس تھے۔ سنی تحریک‘ اے این پی اور پیپلز امن کمیٹی کے ساتھ ایم کیو ایم ان چار جماعتوں میں سے ایک ہے‘ سپریم کورٹ جنہیں بھتہ خور کہہ چکی۔ اس کے کئی لوگ دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے۔ ان کا مؤقف یہ رہا کہ قصورواروں کو لٹکایا جائے‘ پارٹیوں کو نہیں۔ ان میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بھلے مانس اور بد کردار بھی۔ بالعموم اس مؤقف کو مان لیا گیا۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ موجود رہا کہ پارٹیاں اگر اپنی صفوں سے جرائم پیشہ لوگوں کو نکال نہیں سکتیں تو اور کیا کارنامہ انجام دیں گی۔ پھر بیس کروڑ لوگ ان کے سپرد کیسے کیے جا سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم اس سے پہلے بھی ایک بار عمران خان پہ یلغار کر چکی۔ جب کراچی کی دیواریں ناقابل اشاعت نعروں سے پوت دی گئی تھیں۔ اگلے ہی دن جناب الطاف حسین نے خود ان عبارتوں کو کھرچنے کا حکم دیا۔ اس لیے کہ عوامی ردعمل شدید تھا۔ ناراضی اور برہمی میں کیے جانے والے فیصلوں کا انجام یہی ہوتا ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
ایم کیو ایم کے سربراہ نے آج ہی سکیورٹی اداروں سے معذرت کی ہے۔ غیر محتاط جملوں پر۔ کئی بار وہ ایسا کر چکے۔ معذرت کرنا اچھا ہے‘ ہوش مندی کا مظہر۔ مگر وہ بات کہی کیوں جائے‘ بعد میں جو نگلنا پڑے۔ آج عمران خان برہم ہیں اور اس قدر برہم کہ اپنی پارٹی کو ایم کیو ایم کے مکمل مقاطعے کا حکم دیا۔ یہ کیونکر ممکن ہے‘ کل ایک دوسرے سے انہوں نے ہاتھ ملایا تھا۔ ایک دوسرے کا خیرمقدم کیا تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ کل عمران خان اپنا فیصلہ واپس لیں اور الطاف حسین بھی۔ عامیوں کی بات دوسری ہے مگر لیڈروں اور سرداروں کو کیا یہ زیبا ہے کہ وہ اپنی بھد اڑاتے رہیں؟ جگ ہنسائی کا سامان کریں؟ بولنے سے پہلے جو لوگ تولتے نہیں اور انجام پہ نظر نہیں رکھتے‘ انہیں رہنما کیسے مان لیا جائے۔
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
ان کے لیے وہ تکریم کیسے جنم لے‘ جس کے بغیر رہنما کبھی رہنما نہیں ہوتا۔ لیڈر تو ہوتا ہی وہ ہے‘ اپنے آپ پر جسے قابو ہو۔ جس کا کردار اخلاقی ضابطوں میں گندھا ہو۔ جس پر بھروسہ کیا جا سکے کہ تعصبات سے وہ آزاد ہے اور حکمت اس کا طرزِ زندگی۔ ہاں وہ اقبالؔ تھے‘ ہاں وہ قائد اعظم تھے۔ برسرِ بزم بھی خط اگر موصول ہوتا تو اقبالؔ فوراً ہی جواب لکھواتے۔ جو آدمی مجلس سے چلا جاتا‘ اس کے بارے میں بات کرنے کی کبھی اجازت نہ دیتے۔ قائد اعظم کبھی غیبت کرتے اور نہ کبھی سننے پر آمادہ ہوتے۔ ایڈونا مائونٹ بیٹن نہرو کی پشت پناہ تھیں۔ ان کے خطوط لیگیوں کے ہاتھ لگے۔ لیاقت علی خان قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ چھاپ دیئے جائیں۔ فرمایا: ہرگز نہیں۔ ذکر تو ہم صلاح الدین ایوبی کا کرتے ہیں۔ حالت جنگ میں اپنا گھوڑا جنہوں نے رچرڈ کو دے دیا تھا۔ بیمار ہوا تو اپنا معالج بھیجا مگر پیروی کس کی کرتے ہیں۔ دونوں طرف سے منافقت کی یہ بحث کیا ہے۔ عبداللہ بن ابی سے بڑا منافق کوئی نہیں گزرا۔ کیا سرکارؐ اسے برداشت نہ کرتے رہے۔ افسوس کہ ہمیں‘ سوچ بچار کی فرصت ہی نہیں‘ غور و فکر کا دماغ ہی نہیں۔
زیادہ افسوس کپتان پر ہے۔ اگر وہ خاموش رہتے۔ اگر وہ غور کرتے کہ جوابی حملے سے بحث کا رخ بھتہ خوری اور دہشت گردی کی بجائے دو شخصیات اور دو پارٹیوں کے تصادم کی طرف چلا جائے گا۔ اگر انہیں یاد ہوتا کہ صبر ایک فیصلہ کن ہتھیار ہے‘ جو ایسے ہی موقع پر کام آتا ہے۔ فرمایا ''ان اللہ مع الصابرین‘‘۔ صابر کے حق میں اللہ ایک فریق ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم اور ارشاد رسولؐ پر یقین ہی دراصل ایمان ہے۔ کیسا ایمان ہے کہ عمل کا ایک ذرہ بھی نہیں‘ فقط وعظ ہی وعظ۔
ملے جو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی
عجیب چیز ہے یہ طولِ مدعا کے لیے
کچھ غور کیا ہوتا‘ عمران خان صاحب! آپ نے کچھ غور کیا ہوتا۔ اس باب میں تو نواز شریف ہی آپ سے بہتر نکلے۔ کیسا کیسا وار سہہ گئے۔ آپ تو ایک جملے کی تاب بھی نہ لا سکے۔ کل آپ وزیر اعظم ہو گئے اور مودی نے آگ اگلی تو آپ کیا کریں گے۔
جناب الطاف حسین اور عمران خان اپنے پچھلے دو دنوں کے بیانات سامنے رکھیں اور غور فرمائیں۔ خود سے پوچھیں کہ اپنے ساتھ انہوں نے کیا کیا؟ اپنی قوم کے ساتھ کیا؟ تو شاید شرمندہ ہوں ؎
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو‘ مجھ کو بھی شرمسار کر