بیچارے کاشت کار کو کیا مار ہی ڈالو گے؟ اور مار دو گے تو کیا تم جیتے رہو گے؟ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک آندھی کھیتوں کھلیانوں سے شہروں کا رخ کر سکتی ہے۔ مشتری ہوشیار باش!
جناب اسحق ڈار نے پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر سے کہا: آپ کا دعویٰ ہے کہ کاشت کار کا حال برا ہے لیکن اس قدر اچھا سوٹ آپ نے پہن رکھا ہے۔ کھوکھر نے جواب دیا: آج صبح سترہ سو روپے میں خریدا ہے۔ آپ سے ملاقات کے لیے ہیلی کاپٹر پہ اچانک مجھے لایا گیا۔ میرے پاس کوئی دوسرا لباس نہ تھا۔ پھر اضافہ کیا ''میں حیران ہوں کہ جو قیمتی سوٹ آپ کے زیب تن ہے‘ اس کا کپڑا پاکستان میں بنا اور نہ اس کی سلائی ملک میں ہوئی‘‘۔
ملاقات خوشگوار تھی۔ جملوں کا تبادلہ آسودہ فضا میں ہوا۔ نتائج بھی حوصلہ افزا رہے۔ زرداری حکومت کے آخری دنوں میں‘ پرویز اشرف نامی ایک صاحب جب وزیر اعظم تھے‘ ستر اسی ہزار کسان جی ٹی روڈ پر امنڈ آئے اور لاہور کی طرف بڑھنے لگے۔ مطالبہ ان کا یہ تھا کہ آبپاشی کے لیے بجلی کی قیمت کم کی جائے۔ کم استعمال ہو یا زیادہ‘ فی یونٹ نرخ بھی ایک ہی رہے۔ آٹھ روپے فی یونٹ طے پا گئے۔ سرکاری حکم نامہ (Notification) بھی جاری ہوا۔ عمل درآمد مگر نہ ہوا۔ الیکشن 2013ء کی خاطر راجہ رینٹل گھر سدھارے۔ چند ہفتے کے بعد وہی ہنگامہ۔ اب کی بار وعدہ وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی نے کیا۔ مناصب ہتھیانے کی اہلیت بھرپور مگر کام کاج کی کم ہی۔ شریف خاندان کو اقتدار ملا تو ایک کے بعد دوسرا اجلاس۔ ایک کے بعد دوسرا پیمان۔ بار بار شہباز شریف نے وعدہ کیا۔ پورا مگر نہ ہو سکا۔
اگست 2013ء میں وزیر خزانہ کے ساتھ مذکورہ ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ خواجہ آصف بھی موجود تھے۔ 10.35 روپے فی یونٹ پہ اتفاق رائے ہوا۔ اپنے اقرار پر حکومت قائم رہی۔ گزشتہ تین برس میں کسانوں کی یہ واحد کامیابی ہے، وگرنہ خرابی ہی خرابی۔ یہ تین سال پر پھیلی ہوئی طویل داستان ہے، زراعت کا وہ جنازہ بھی ملتان میں جس کا اہتمام ہوا۔ دس ہزار سوگوار اس میں شریک تھے۔ لاکھوں اپنے گھروندوں، کھیتوں اور گرد اڑاتے راستوں پر دست بدعا۔ ابھی کچھ دیر پہلے کھوکھر میری طرف روانہ تھے کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر سے فون آیا: آپ کے مطالبات کیا ہیں؟ ''سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ سچ بولا جائے‘‘۔
پانچ دن ہوتے ہیں جب عرض کیا تھا کہ پٹرول اور بجلی کے بعد ہم ایک اور بحران کی طرف لپک رہے ہیں۔ دراز ہونے والا بحران۔ حکمران چوراہے پر سوئے رہے تو کاشت کار برہم ہو کر گھروں سے نکلیں گے۔ شہروں کے راستے ان کے احتجاج سے اٹ جائیں گے۔ آج صبح تصدیق ہو گئی۔ اوکاڑہ کی سبزی منڈی میں آلو کی زیادہ سے زیادہ قیمت 7 روپے فی کلو۔ 120 کلو کی بوری 800 سے زیادہ قیمت نہ پا سکی۔ میں خود بھی ایک چھوٹا سا کاشت کار ہوں۔ سرکار اور پٹواریوں کو بھگتتا رہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں ایک ایکڑ آلو کاشت کرنے پر پچاس سے ساٹھ ہزار روپے صرف ہوتے ہیں۔ پٹ سن کی بوری 180 روپے کی ہوتی ہے۔ نقل و حمل کے اخراجات اس کے علاوہ۔ حاصل کلام یہ کہ سات میں سے تین روپے بیچنے والے کو ملیں گے۔ فصل اگر بھرپور رہی‘ 150 من سے زیادہ تو یافت 45000 ہو گی۔
چاول کا زخم ابھی تازہ ہے۔ پچھلے سال 2400 روپے فی من فروخت ہونے والی مونجی امسال 1200 میں بیچی گئی۔ بازار میں پہنچتے ہی وہی قیمت، 160 روپے فی کلو۔ میاں شہباز شریف نے کروڑوں کے اشتہارات چھپوائے کہ کاشت کاروں کو 5000 روپے فی ایکڑ زر تلافی عطا ہو گا۔ ایک روپیہ بھی کسی کو ملا نہیں۔
فوراً بعد گندم کاشت کرنا ہوتی ہے۔ اکثر نے قرض لیا۔ متشرع آڑھتی 10 فیصد ماہانہ سود وصول فرماتے ہیں۔ بعض تو پوری کھاد بھی ڈال نہ سکے۔ ایک بوری 4000 کی ہوتی ہے؛ اگرچہ دوسری بوری کا مطلب ہے 10 من اضافہ۔ بھوکا کسان مگر کیا کرے۔ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت گر گئی۔ خوف سے وہ کانپ رہے ہیں۔ گیہوں کے ساتھ بھی اگر دھان کا سا برتائو ہوا تو کیا ہو گا؟ اصول یہ ہے کہ ایسے میں حکومت خریداری کرتی ہے۔ ممکن ہے اعلان فرما دے مگر اس کے وعدوں کا اعتبار اب کم ہے۔
ایک کے بعد دوسرا حادثہ۔ صرف چاول ہی نہیں کپاس اور گنّا اگانے والوں پر بھی قیامت ٹوٹی۔ سندھ میں شوگر ملیں 140 روپے فی من ادا کرتی ہیں، پنجاب میں 180۔ سرما میں سوختنی لکڑی اسی بھائو بک جاتی ہے۔ ایک لعنت کا نام کٹوتی ہے۔ یہ ہندو ساہوکاروں کی ایجاد تھی۔ معلوم نہیں ہمارے صنعت کار میں کہاں سے آ گئی؟ پھر یہ کہ تولنے کا کنڈا باہر نصب ہے، وزن بتانے والی سوئی کمرے کے اندر۔ مطلب کیا؟
صبح آٹھ بجے نشر ہونے والے دنیا ٹی وی کے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ کے توسط سے عرض کیا کہ شوگر ملوں کے ممتاز مالکان میں زرداری صاحب، شریف خاندان اور جہانگیر ترین شامل ہیں۔ جہانگیر اس بری طرح بگڑے اور اس تکبّر کا اظہار کیا کہ میں دنگ رہ گیا۔ حضور ہمارا کام محتاج اور مظلوم کی دستگیری ہے، قصیدہ نگاری نہیں۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مدد سے آپ کے کارخانوں پر قبضہ ہوا تو واحد صدائے احتجاج اس کالم میں تھی۔ دولت کی فراوانی کیا خدائی کا غرور پیدا کرتی ہے؟
کپاس کا کاشت کار بھی لٹا۔ حکومت پنجاب نے خریداری کے لیے 30 ارب مختص کیے مگر جاری نہ فرمائے۔ جاری تب ہوئے‘ کسان جب فصل فروخت کر چکا۔ خالد محمود کھوکھر نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بتایا: کپاس بیلنے والے کارخانے اب اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اب افسران کرام کے گھروں میں چراغاں ہو گا۔ کاشت کار کی روداد طویل اور خوں چکاں ہے۔ بھارتی منصوبہ یہ ہے کہ اسے برباد کر دیا جائے۔ ان کے ہاں بجلی اور کھاد سستی ہے؛ چنانچہ فصل ارزاں۔ وہ پاکستانی مارکیٹ پہ پل پڑتے ہیں۔ نواح لاہور میں 65000 ایکڑ پر سائبانی زراعت (Covered forming) سے سبزیاں اگائی جاتیں۔ سمٹ کر یہ رقبہ امسال 10 ہزار ایکڑ رہ گیا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں زرعی مداخل (Inputs) مشینری، کرم کش ادویات اور کھاد پہ خریداری ٹیکس نافذ ہے، 17فیصد۔ واحد سرزمین جہاں اوسطاً 50 فیصد زرعی ادویات جعلی ہیں۔ بیج کا معیار پرکھنے کے لیے کوئی قانون ہی نہیں۔ زیادہ تر باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک طوفان پل رہا ہے مگر حکومت کو خبر ہے اور نہ سیاسی پارٹیوں کو پرواہ۔
کھاد، بجلی اور زرعی ادویات اگر سستی نہ ہوئیں تو ہنگامہ برپا ہو گا۔ کسان بورڈ کے محبوب بخاری نے کئی بار فون کیا۔ معلوم ہوا کہ حالات سنگین ہیں۔ پتہ اب یہ چلا کہ سنگین ہی نہیں خوفناک ہیں۔ وزیر اعظم کو بتانے والا کوئی نہیں۔
کوئی بے نیازی سی بے نیازی ہے۔ چار ماہ ہوتے ہیں سبزہ و گل سے محبت کرنے والے فخر امام کے بھائی فیصل امام، سیکرٹری زراعت سیرت اصغر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ گورنر پنجاب سے بھی ملے۔ کاشت کاری کے اسرار و رموز سے آشنا ڈاکٹر ظفر الطاف کا مرتب کردہ ایک منصوبہ انہیں پیش کیا، کسانوں کے لیے ایک تربیتی ادارے کی تشکیل۔ فیصل امام نے لکھ کر دے دیا کہ وہ 100 ایکڑ زمین سرکار کو عطیے کے طور پر پیش کر دیں گے۔ آج تک وہ جواب کے انتظار میں ہیں۔ کیا کہنے شہباز حکومت کے‘ کیا کہنے ع
جو ستم ہے بے سبب ہے جو کرم ہے بے طلب ہے
ایک صدی ہوتی ہے اقبالؔ نے جب کہا تھا ؎
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
تب یونینسٹ پارٹی کے چھوٹو رام نے مہاجن کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ اب تاجروں اور صنعت کاروں کی حکومت ہے اور کاشت کار راندۂِ درگاہ۔ رہا جاگیردار تو اسے کیا؟ لقمۂ تر اسے میسر ہے۔
بیچارے کاشت کار کو کیا مار ہی ڈالو گے؟ اور مار دو گے تو کیا تم جیتے رہو گے؟ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک آندھی کھیتوں کھلیانوں سے شہروں کا رخ کر سکتی ہے۔ مشتری ہوشیار باش!