غالب نے لکھا ہے ''پاکستان شدید نظریاتی بحران کا شکار ہے۔ دہشت گردی کیا ہے اور تحریکِ آزادی کیا؟ بحث یہ بھی ہوئی کہ فوج کے جانیں قربان کرنے والے شہید ہیں یا نہیں۔ منوّر حسن اور فضل الرحمن نے بہت دھول اڑائی‘‘۔
یہ ساری دولت کوئی مجھ سے لے لے۔ ہماری عزت ہمیں واپس کر دے۔ ظلم کے خاتمے کا یقین دلا دے۔ اسداللہ غالب کی کتاب ''ضربِ عضب‘‘ پر سوچتے ہوئے، عقیل کریم ڈھیڈی کا یہ جملہ ایک زخم کی طرح تازہ ہو گیا۔ وہ پاکستان کہاں چلا گیا، شب جس کی گلیوں میں لوگ سو جاتے تھے ؎
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
اخباری کالموں کا مجموعہ سمجھ کر قاری اس کتاب سے گریزاں رہا۔ اوراق پر پڑائو کیا تو آنکھیں بھیگنے لگیں۔ غالب نے لکھا ہے ''بدر کے میدان میں عضب پہلی بار لہرائی تھی۔ شمالی وزیرستان میں، آج اسی کے سائے میں افواجِ پاکستان قومی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں‘‘ معاً احساس ہوا کہ یہ اخبار نویس کا قلم نہیں بلکہ ایک عام پاکستانی کے دل کا محشر ہے۔
قاتلوں کے لیے جواز تلاش کرنے والوں پر افسوس۔ ابھی ابھی ایک فوجی افسر سے بات ہوئی۔ ایک دانا اور حقیقت پسند آدمی۔ مگر فرطِ جذبات سے اس کی آواز کانپ اٹھی۔ ''ضربِ عضب کے بعد گلی میں پڑا ہوا ایک پرزہ میں نے اٹھایا۔ اس پر ساٹھ لاکھ روپے کی بارودی آئی ڈیز کی فروخت کا گوشوارہ رقم تھا‘‘۔
یرغمال قبائلی پٹی میں اسلام آباد نہیں، دلی کا سکّہ رائج تھا۔ جیسا کہ قومی سلامتی کے بھارتی مشیر نے کہا اور ٹی وی پر دکھایا گیا۔ طالبان ان کے لیے رو بہ عمل تھے۔ ایک متوازی جنگی معیشت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار آئی۔ خود کش جیکٹیں دکانوں پر فروخت کے لیے ٹنگی تھیں، قصائی کے بکروں کی طرح۔ قیمت درج اور یہ وضاحت بھی کہ کتنے آدمیوں کو ہلاک کرنے کے لیے کافی رہے گی۔
غالب نے لکھا ہے: ''بیسویں صدی کے ڈوبتے لمحوں کے افق پر اس کی شفق روشنی بکھیر رہی ہے، جو اگلے ہزار سال کے سورج کو نئی آب و تاب بخشے گی آئیے، خاکی وردی پر جمی دھول کو آنکھوں کا سرمہ بنائیں‘‘۔
جہالت؟ بعض جہل اور تعصب کا شکار تھے مگر وہ بھی تھے، جو پاکستان پر یقین نہیں رکھتے۔
بدل کے بھیس جو آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
وہ کہ اللہ کی بجائے، جنہوں نے اپنے مکتبِ فکر کی عبادت کی۔ رحمۃ اللعالمینؐ کا فرمان تو یہ ہے کہ بوڑھے، بچے اور خاتون پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ درخت نہ کاٹا جائے اور فصل جلائی نہ جائے۔ انہوں نے معصوم سروں کی فصلیں کاٹیں۔
ایسے ایسوں کی وکالت کا ظرف؟
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
مذاکرات شروع ہوئے تو پشاور کے چرچ میں عبادت کرنے والوں کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھی شہید کر دیے گئے۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر حملہ کیا گیا اور کئی زندہ جلا دیے گئے۔ 13 جوانوں کی گردنیں کاٹ ڈالی گئیں۔
بے شمار لوگ گھروں میں جیکٹیں تیار کیا کرتے اور آئی ڈیز۔ مولوی صاحب نے انہیں جنت کی بشارت دی۔ بات چیت سے کیا کوئی اپنا کاروبار بند کرتا ہے؟ جنت کا سودا کرتا ہے؟ ان کے وکیل مگر یہ کہتے رہے کہ طالبان نہیں، یہ اور لوگ ہیں۔
قوم آخر یکسو ہوئی۔ آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کر دیا گیا۔ نکتہ چینی مگر جاری رہی۔ اب ایک مختلف انداز میں ''یہ مغرب کا ایجنڈا ہے‘‘۔ پناہ دینے والے مدارس کا ذکر ہوتا تو اسلام پر حملے کا الزام عائد کیا جاتا۔ مدرسہ کیا، قاتل اگر خانہ کعبہ یا مسجدِ نبویؐ میں جا چھپے تو کیا وہ قاتل نہ رہے گا؟
غالب نے لکھا ہے ''آج ہمیں ایک بے چہرہ، بے نام دشمن کا سامنا ہے۔ یہ سرحدوں سے باہر بھی ہے اور اندر بھی۔ ہر کوچہ و بازار میں ہمیں اس دشمن کا سامنا ہے‘‘۔ ایک اخبار نویس کے طور پر غالب فیاض بھی بہت ہے۔ کئی بار اس نے گیدڑ کو شیر اور لومڑی کو چیتا لکھا۔ ایک جوہڑ کو سمندر بھی۔ مگر یہ کتاب اس کے دل سے پھوٹی ہے۔
پشاور سکول میں بچوں کے قتل کی ذمہ داری مولوی فضل اللہ نے خود قبول کی۔ نہ بھی کرتا تو ناقابلِ تردید شواہد موجود تھے۔ ان پر حیف، جنہوں نے ارشاد کیا کہ طالبان نہیں، امریکی ان بچوں کے قاتل ہیں۔ انکل سام کبھی ہمارا دوست تھا اور نہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی استعمار پہ انحصار ہے لیکن اس کے نام پر درندوں کی حمایت؟
پھر ایک اور عذر کہ فوج کا رسوخ بڑھتا جائے گا۔ ہر معاملے میں وہ دخیل ہوتی جائے گی۔ انگریزی میں کہتے ہیں "Damned if you do, damned if you dont" یہی بات کراچی کے باب میں کہی گئی۔ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ بے گناہوں کے قتلِ عام کی اجازت دے دی جائے۔ پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت عفریت کو اگر پلنے بڑھنے کے مواقع فراہم نہ کرتی۔ کراچی میں چار عدد سیاسی جماعتیں اگر عسکری ونگ تشکیل دے کر، بھتہ خوری کو مستقل ایک کاروبار نہ بنا دیتیں۔ پولیس میں بھرتی کے لیے اگر نیلام گھر قائم نہ کیے جاتے۔ وہ اگر جرم کے سدّباب پر آمادہ ہوتی تو فوج کو دخل دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ گردنیں کاٹنا کیا ایک مشغلہ ہے؟ زندگی کیا بار بار ملتی ہے؟ عالمِ اسلام کی پوری تاریخ میں شہیدوں کی ایسی توہین کبھی نہ کی گئی ہو گی۔
تاجر اگر رو نہ دیے ہوتے تو جنرل اشفاق پرویز کیانی کبھی کراچی نہ جاتے۔ معاملہ رینجرز کے سپرد نہ کرتے۔ کراچی پولیس تو ایک تجارتی منڈی تھی، جہاں سودے بازی ہوا کرتی کہ کس جماعت کے کتنے لوگ بھرتی ہوں گے۔ لاہور میں نوکریاں بیچی نہ جا رہی تھیں۔ حال کچھ بہتر تھا مگر کتنا بہتر؟ غالب نے لکھا: ''ہزاروں کنال پر جاتی امرا کے محلّات۔ اس حصار کے اندر جنگلی بلا بھی جھانکنے کی کوشش کرے تو درجنوں بلوں کو شوٹ کر دیا جاتا ہے مگر پنڈ ارائیاں کی چٹی کوٹھی میں موجود دہشت گردوں کا ہدف کیا تھا؟ اخبارات میں یہی آیا ہے کہ ان کا نشانہ وزیرِ اعظم تھے‘‘۔
جنرل کیانی نے کہا: شمالی وزیرستان کے آپریشن سے دہشت گردی میں چالیس فیصد کمی آئے گی۔ کسی احمق نے کپتان کو یہ بتایا کہ آپریشن کی کامیابی کا امکان فقط 40 فیصد ہے اور اس نے پریس کے سامنے دہرا دیا۔ جنرل کا کہنا یہ تھا کہ باقی ساٹھ فیصد جنگ شہروںمیں لڑی جائے گی۔ بالفاظِ دگر یہی بات جنرل راحیل شریف بھی کہتے ہیں۔ ایک ایک صوبائی دارالحکومت میں وہ گئے۔ کور کمانڈروں کی موجودگی میں وزرائِ اعلیٰ اور پولیس کو مدد کی پیشکش کی۔ پنجاب میں انسداد ِ دہشت گردی فورس اور پختون خوا میں خواتین پولیس افسروں کے دستے کی تشکیل بڑے کارنامے ہیں۔ یہ بھی مگر یاد رہے کہ پولیس کو بہتر بنائے بغیر یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نظریاتی الجھائو کو دور کرنا ہو گا، دانستہ طور پر جو پیدا کیا گیا۔ جس کے مقابل حکومت کا روّیہ اوّل معذرت خواہانہ تھا، اب نیم دلانہ ؎
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی، لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
غالب نے لکھا ہے ''پاکستان شدید نظریاتی بحران کا شکارہے۔ دہشت گردی کیا ہے ا ور تحریکِ آزادی کیا؟ بحث یہ بھی ہوئی کہ فوج کے جانیں قربان کرنے والے شہید ہیں یا نہیں۔ منوّر حسن اور فضل الرحمن نے بہت دھول اڑائی‘‘۔