"HRC" (space) message & send to 7575

بازارِ سیاست

کوئی دن جاتا ہے کہ صبحِ کاذب سے صبحِ صادق کا نور پھوٹ بہے گا۔ اہلِ صفا کی صحبت میں دل شاد اور یقین استوار ہو جاتا ہے۔ مگر اہلِ صفا کی صحبت ہی میں۔ بازار انسانی بستیوں کا بدترین حصہ ہیں اور سیاست سب سے برا بازار۔
محترمہ سعیدہ وارثی نے چوہدری محمد سرور کے حال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مشورہ انہیں دیا تھا کہ پاکستانی سیاست سے وہ دور رہیں۔ دو گمان ہیں۔ اوّل یہ کہ حسنِ نیت کارفرما ہو۔ واقعی انہیں ملال ہوا۔ ثانیاً‘ لاشعور میں یہ خیال کارفرما ہو کہ چوہدری محمد سرور نہیں، برادری کو اب ان کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مرکزی خیال بہرحال یہی ہے کہ پاکستانی سیاست کے سدھرنے کا کوئی امکان نہیں۔ ڈھنگ کا کوئی بھی آدمی اس میں ضائع ہو کر رہے گا۔ یہ اطلاع بھی دی کہ برطانوی سیاستدانوں سے بھی خلقِ خدا نالاں ہے مگر ظاہر ہے کہ ان سے مایوسی ہرگز نہیں۔ 
ایسا ہی ایک مرحلہ تھا۔ شمشیر بردار محتسب نذرالرحمن رانا نے نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم سے یہ کہا: دوسروں کی زندگیاں آپ نے تباہ کیں اور اپنی بھی۔ پارٹی برے حال میں ہے اور ملک بھی۔ سارا سفر رائیگاں رہا۔ سبھی کچھ گنوا دیا گیا۔ نواب زادہ نے یہ کہا ؎
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے 
غبارِ قیسؔ خود اٹھتا ہے، خود برباد ہوتا ہے 
ابھی ابھی ایک بہت ممتاز لیڈر سے بات ہوئی‘ عمر جنہوں نے سیاست کی نذر کی۔ آخر کو عافیت اختیار کر لی۔ احساس ان کا یہ تھا کہ جس راہ پر وہ گامزن ہیں، اس کا انجام تباہی لائے گا۔
طوطیا وے من موطیا
میں روک رئی، میں ٹوک رئی 
توں ایس گلی نہ جا
ایس گلی دے لوک برے نیں 
پھائیاں لیندے پا
طوطی نے کہا: اے میرے پیارے طوطے، میں تجھے روکتی ہی رہی۔ اس دیار نہ جائو۔ اس بستی کے لوگ برے ہیں۔ پھانس لیتے ہیں، قید کر ڈالتے ہیں۔ 
بہکتا ہوا خیال کسی اور وادی میں جا پہنچا۔ حیات کے اس جنگل میں بچا کون؟ اسداللہ غالبؔ کی عمر تب کیا رہی ہو گی، جب انہیں سوجھا۔ 
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقہء دامِ خیال ہے 
ہندوستان کے ادبی منظر پر چودھویں کا چاند۔ نئے زمانوں کو جس کی نگاہِ دوربین نے دیکھ لیا۔ سر سیّد احمد خان کو نئے راستوں پر گامزن کرنے میں کامیاب رہے۔ اردو زبان کو بدل ڈالا۔ اس کے تصنع کا پردہ چا ک کیا۔ اس کا ملمّع دھو ڈالا اور اپنی قوم کے لیے فصاحت کا دریا بہا دیا۔ میرؔ نہ ہوتے تو غالبؔ بھی عطا نہ کیے جاتے۔ غالبؔ نہ ہوتے تو اقبالؔ ایسا گوہرِ شب چراغ بھی طلوع نہ ہوتا۔ پھر کیا قائدِ اعظم ایسا شہسوار تاریخ کا وہ خیرہ کن باب رقم کرتا، نام جس کا پاکستان ہے اور جس کے مقدر میں انشاء اللہ حیران کن رفعتیں رقم ہیں۔
خیال کا رہوار تھم جاتا ہے۔ خود غالبؔ ایسے نابغہ نے ایسی مجبور اور محروم زندگی کیوں بسر کی؟ پنشن کے لیے ایک ایک دروازے پر دستک دیتے رہے۔ دہلی سے کلکتہ تک، کہاں کہاں بھٹکتے پھرے۔ 
تصویرِ لیلیٰ ہودج نشیں تھی، لیلیٰ نہیں تھی 
کیا ڈھونڈتا تھا شوقِ نظارہ محمل بہ محمل 
نیویارک میں بنگال کے ایک مردِ نجیب سے ملاقات ہوئی۔ تہمد اور کرتا زیبِ تن۔ بیتے ہوئے مہ و سال کی رائیگانی پر ملال کا اظہار کیا تو اس نے یہ کہا: سبھی کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ استثنیٰ بہت کم ہے۔ صدّ ِیقین کا ایک طبقہ ہے، کبھی کبھی، کہیں کہیں۔ ہر زمانے میں ایک آدھ۔ ساری جستجو وگرنہ بھٹکنے کا نام ہے۔ خوش نصیب وہ ہے، جس کے سینے میں حسنِ نیت کی چنگاری روشن رہی۔ اپنے مالک کی طرف پلٹ کر جو دیکھتا رہا۔ خلاصہ یہ تھا کہ سب سے بڑا ادارہ توبہ کا ادارہ ہے۔ مسافر خطِ مستقیم پر سفر نہیں کیا کرتے۔ یہی غنیمت ہے کہ اپنی خامیوں کا احساس اور اصلاح کی آرزو باقی رہے۔ منزل کی تمنّا تمام نہ ہو جائے۔ 
احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے 
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی 
سوال یہ ہوتا ہے کہ آدمی نے یکسر سمجھوتہ کر لیا یا تاب و تواں باقی ہے۔ رحمتِ پروردگار کی امید باقی ہے؟ ''(اے نبیؐ) میرے ان بندوں سے کہہ دیجیے، جنہوں نے اپنی زندگیاں اسراف کی نذر کر دیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں‘‘ عارف نے کہا: سب گناہ قابلِ معافی مگر مایوسی نہیں۔ کتاب کہتی ہے کہ یہ کفر ہے۔ اقبالؔ نے قرار دیا تھا کہ یہ ذاتِ باری تعالیٰ پر اظہارِ عدم اعتماد ہے۔ 
محترمہ سعیدہ وارثی کی بات اگر مانی جائے تو پاکستان کو حالات کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ملک کو نواز شریفوں، آصف علی زرداریوں، الطاف حسینوں، فضل الرحمانوں اور اسفند یار ولیوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ امکان کا ہر چراغ بجھا کر صفِ ماتم بچھا لینی چاہیے۔ پھر کہا کہ خود برطانوی سیاستدان بھی کم مایہ ہیں۔ چند ماہ قبل، یہی بات برطانوی اخبار نویس کیتھی نے کہی تھی۔ سعیدہ وارثی کو یاد ہے کہ کس کس نے ان کے ملک پر حکومت کی؟ وائی کنگز، نارمن اور رومن؛ حتیٰ کہ اہلِ فرانس نے۔ ارتقا کی تین صدیاں گزر جانے کے باوجود‘ تمدن اور تہذیب کے ستون‘ اس قدر شاندار ادارے تعمیر کرنے کے باوجود، انگلستان کی سیاست آج پھر کیوں زوال پذیر ہے؟
اپنی ساری توانائی وہ اس میں کیوں جھونک رہی ہیں۔ فقط ذاتی کامیابی کے لیے؟ اپنے لیے جینا تو کوئی جینا نہیں۔ برطانوی مفکر نے کہا تھا: جس چیز سے تم محبت کرتے ہو، اس پہ اظہارِ فخر نہیں کر سکتے تو تم ایک مردہ آدمی ہو۔پاکستان سے سعیدہ وارثی یکسر لاتعلق ہوئیں؟ 
انہیں چھوڑیے، قدرت کی ابدی اقدار سے جو واقف نہیں۔ 27 رمضان المبارک کو بننے والا پاکستان برباد ہونے کے لیے نہیں بنا۔ جس قوم کی تشکیل میں اقبالؔ اور جناحؒ کا ہاتھ ہو۔ آٹھ گنا بڑا دشمن جسے ختم کرنے میں ناکام رہا، خاک چاٹنے کے لیے وہ وجود میں نہیں آئی۔
افواج کے مطلع پر جنرل کیانی کے بعد جنرل راحیل شریف نمودار ہو چکے۔ ایک دوسرے کے وہ حبیب نہ سہی مگر دونوں اپنے وطن کے عشاق۔ سیاست کا باغ کیا ہمیشہ اجڑا ہی رہے گا؟ یہ تو اللہ کا قانون ہی نہیں۔ اس کا فرمان یہ ہے: تلک الایام ندا ولہا بین الناس۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ محتاجوں کے لیے سب سے زیادہ ایثار کرنے والی پاکستانی قوم کیا ہمیشہ مجروح رہے گی؟ 
ماہرینِ معیشت یہ کہتے ہیں کہ گاڑی ایک بار پٹڑی پہ چڑھ جائے تو پاکستانی معیشت اوّل تیس فیصد اور پھر برسوں تک بارہ پندرہ فیصدکی شرح سے ترقی کر سکتی ہے۔ فقط معدنیات اور فقط زراعت سے اس کا معاشی ادبار تمام اور اقتصادی حریّت ممکن ہے۔ 
ایک عجیب بات میاں محمد بخش نے کہی تھی ؎ 
خس خس جتنا قدر نہ میرا مالک نوں وڈیائیاں 
میں گلیاں دا روڑا کوڑا محل چڑھایا سائیاں
میں گلیوں کا کوڑا تھا، عظمت اس مالک کے لیے، جس نے شاہی محل بنا دیا۔ 
نیا وطن اور سب کامیابیاں سعیدہ وارثی کو مبارک ہوں۔ سب اینٹیں کنگروں پر نہیں لگتیں۔ بنیاد میں بھی کھپتی ہیں۔ ہم سے کچھ عامی اور چوہدری محمد سرور ایسے کچھ ممتاز لوگ اگر بنیاد کی اینٹیں بن جائیں؟ 
کوئی دن جاتا ہے کہ صبحِ کاذب سے صبحِ صادق کا نور پھوٹ بہے گا۔ اہلِ صفا کی صحبت میں دل شاد اور یقین استوار ہو جاتا ہے۔ مگر اہلِ صفا کی صحبت ہی میں۔ بازار انسانی بستیوں کا بدترین حصہ ہیں اور سیاست سب سے برا بازار۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں