پیچھے پلٹ کر دیکھو‘ کتنے ستارے تاریخ میں جگمگاتے ہیں‘ اس بھید کو جنہوں نے پا لیا... اور جو نہ پا سکے‘ وہ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالے گئے۔ اب یہ میاں صاحب کی مرضی ہے کہ کس چیز کا وہ انتخاب کرتے ہیں۔
جزئیات میں جانا اچھا ہے‘ معاملے کی نزاکتوں کو اگر سمجھنا ہو۔ سب سے پہلے شاید بنیادی مسئلے پر غور کرنا چاہیے۔
عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کرکٹ کی باریکیوں کو وہ خوب جانتے ہیں۔ کپتان کے اس بیان پر حیرت ہوئی کہ دفاعی نہیں‘ پاکستانی ٹیم کو جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ بجا ارشاد‘ ذہنی تحفظ کے ساتھ جب آپ میدان میں اترتے ہیں تو پوری صلاحیت کبھی بروئے کار نہیں آتی۔ یہ تو مگر معاملے کا ایک پہلو ہے۔ اصل مسئلہ تو کچھ اور ہے۔
شکست کوئی تباہ کن چیز نہیں‘ اگر وہ ہمیں تجزیے پر آمادہ کردے۔ ہر بحران میں مواقعے چھپے ہوتے ہیں اور ہر ناکامی غورو فکر کی دعوت دیتی ہے۔ کامیابی زوال آمادہ کرتی ہے‘ جب وہ سکونِ خاطر پیدا کردے۔ پاکستانی کرکٹ کو کینسر لاحق نہیں کہ اس کا علاج ممکن نہ ہو۔ نجم سیٹھی نے کتنی ہی غلطیاں کیوں نہ کی ہوں‘ ان کا ایک نکتہ بالکل درست ہے۔ پاکستانی ٹیم سے ہم نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں‘ سالہا سال سے جو صدمات کا شکار ہے۔ اس کے تین بہترین کھلاڑی میچ فکسنگ کے الزام میں جیل بھیجے گئے۔ ان میں وہ ابھرتا ہوا نوجوان بھی شامل تھا‘ جس کے وسیم اکرم بننے کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ اس حال میں پاکستانی ٹیم عالمی کپ میں اتری کہ اس کے بہترین بالر کو الگ کردیا گیا تھا اور اس کے نمایاں بلے بازوں میں سے ایک کو وطن واپس آنا پڑا۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال تھی۔ معلوم نہ تھا کہ کھیل کا آغاز کرنے والا جوڑا کون سا ہوگا۔ ٹیم میں آہنگ پیدا نہ ہو سکا تھا۔ ان حالات میں یہ تاثر دینا کہ پاکستانی ٹیم کے بھارت پر غالب آنے کا امکان ہے‘ کیا حماقت نہ تھی؟
نظم و نسق میں ہمارے بنیادی تصورات ہی ناقص ہیں۔ وزیراعظم کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا فیصلہ کیوں کرے۔ صرف اس لیے کہ وہ اس کھیل سے شغف رکھتے ہیں؟ کیا اس کا انحصار ذاتی پسند اور ناپسند پر ہونا چاہیے؟ صدر آصف علی زرداری نے ہمیں اعجاز بٹ کا سا تحفہ عنایت کیا تھا۔ ذکا اشرف اگرچہ ان سے بہتر ثابت ہوئے مگر ان کے انتخاب کا جواز بھی کیا تھا؟ یہ کہ جناب صدر کے وہ ہم جماعت رہے۔ اس سے پہلے صدر پرویز مشرف نے فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل اور امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی نسیم اشرف کو یہ اعزاز بخش دیا تھا۔ جناب نوازشریف کو پہلی بار اپنا اختیار استعمال کرنے کا موقعہ ملا تو انہوں نے اپنے محتسب سیف الرحمن کے بھائی کو یہ منصب سونپ دیا۔ آخر کیوں؟ ایک پیشہ ور کرکٹر اگر نہیں تو ایک اچھا منتظم تلاش کرنا چاہیے تھا۔ جب بھی فیصلہ کرنے کا وقت آتا ہے‘ ہمارے حکمران کسی مصاحب کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ کیا میاں محمد نوازشریف اپنی کسی فیکٹری کے لیے‘ موزوں اور کافی تجربہ رکھنے والے کسی شخص کی بجائے‘ محض اس آدمی کو منیجر مقرر کرنا پسند کریں گے‘ جو کسی وجہ سے انہیں خوش آیا ہو؟
90 فیصد کاروبار کامیاب رہتے ہیں۔ اس لیے کہ آدمی کا مستقبل دائو پر لگا ہوتا ہے۔ خسارے کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا؛ لہٰذا پورے خلوص اور جذبے کے ساتھ وہ بروئے کار آتا ہے۔ خون پسینہ ایک کرتا ہے۔ غلطی ہو جائے تو تیزی سے اصلاح کرنے کی کوشش۔ ناکامی کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے‘ فقط سرمایے کا زیاں نہیں بلکہ خفت اٹھانے کا خطرہ۔
کیا قومی ادارے چلانے کے لیے اس طرزِ احساس کا مظاہرہ نہ کرنا چاہیے؟ ذاتی کاروبار تو الگ‘ میاں صاحب کیا شہریار خان کو خارجہ امور کی وزارت سونپ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ پچاس برس کا تجربہ وہ رکھتے ہیں‘ حالانکہ ہمیشہ وہ احکامات کی پابندی کرنے والے ایک سلیقہ مند اور محتاط آدمی رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں۔ ویسے کیا شہریارخان انہی کا انتخاب تھے؟
جناب وزیراعظم نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ سونپنے پر مصر ہی کیوں تھے؟ ظاہر ہے کہ میاں صاحب انعام دینے پر تلے تھے۔ کیا الیکشن 2013ء میں اس کی خدمات کے سوا بھی‘ کوئی سبب تھا؟ کوئی نظریاتی ہم آہنگی؟ کوئی غیر معمولی مہارت؟ اس شخص کا کوئی کارنامہ؟ اگرچہ سیاسی حرکیات کو وہ سمجھتا ہے مگر وہ کوئی منتظم نہیں اور مثبت انداز فکر کی اس سے امید نہیں کی جا سکتی۔ پھر عدالت نے اسے چلتا کیا تھا۔ ایک نہیں تین بار۔ اس لیے کہ قانونی تعبیر کے مطابق وزیراعظم کے پاس اب یہ اختیار تھا ہی نہیں۔ وہ ڈٹے کیوں رہے؟ باخبر لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیٹھی کے ساتھ وزیراعظم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ بھارت اور مغرب میں وہ ان کے لیے سفارت کار کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کی رائے کتنی ہی خراب ہو‘ بھارتی‘ برطانوی اور امریکی ادارے موصوف کو قابل اعتماد پاتے ہیں۔ اگر انہیں آئی سی سی کا سربراہ بنانے کا وعدہ ہے تو کس بنا پر؟ کیا پس پردہ کاوشوں کا اس میں عمل دخل نہ ہوگا۔ سیاست سے شغف رکھنے والی ان کی اہلیہ‘ محترمہ مریم نواز کی اتالیق بنائی گئیں۔ پہلے سے راز اگر فاش نہ ہو گیا ہوتا تو ممکن ہے کہ سینیٹر بنا دی جاتیں۔
اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ شہریار خان کو نجم سیٹھی کے کہنے پر چیئرمین بنایا گیا۔ وزیراعظم کیوں نہ سمجھ سکے کہ ایک ادارے کے دو سربراہ نہیں ہوتے۔ ایک اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں نہیں پہنائی جاتیں۔ غالباً اس لیے کہ وزیراعظم یہ بات سمجھنے کے آرزو مند ہی نہ تھے۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے کہ سوئے ہوئے کو جگایا جا سکتا ہے‘ جاگتے کو نہیں۔
وزیراعظم قانون کے احترام کا دعویٰ بہت کرتے ہیں۔ کیا جسٹس قیوم کے اس فیصلے سے وہ بے خبر تھے‘ جس میں بعض کھلاڑیوں کو جوئے کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں کرکٹ سے الگ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ کچھ سوالات اپنا جواب چاہتے ہیں اور یہ ان میں سے اہم ترین ہے کہ وہی لوگ کیوں پروان چڑھائے گئے۔ ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ محسن حسن خان کی قیادت میں‘ جو کھیل کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں رکھتے‘ ہماری ٹیم جب مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہی تھی تو اچانک انہیں الگ کیوں کر دیا گیا؟ کچھ لوگ اپنے مناصب سے لطف اندوز ہونے کے آرزو مند ہوتے ہیں‘ اداروں کی تعمیر کے نہیں۔ نجم سیٹھی ان میں سے ایک ہیں۔ محسن حسن خان کی سادہ مزاجی ہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ اداروں کی سیاست میں پڑنے والے نہیں۔
آخرکار یہ ہمارا اندازِ فکر ہی ہوتا ہے‘ جو آخری نتیجے کی بنیاد بنتا ہے۔ چالاک لوگ ادارے نہیں بنایا کرتے‘ ٹیمیں تشکیل نہیں دیا کرتے‘ آہنگ پیدا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہوتے... ایسا شخص کبھی اچھا ایڈمنسٹریٹر نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ انسانی روح کی غذا حوصلہ افزائی ہے۔ دردمندی‘ شفقت اور کشادہ دلی سے وہ تعمیری اندازِ فکر پروان چڑھتا ہے‘ جو اداروں کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اصلاً وہ ایک سیاست کار ہیں۔ نظم و نسق ان کا میدان ہی نہیں۔ اب وہ یہ کہتے ہیں: میرے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں‘ مجھے کیوں ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ارے بھائی‘ اگر آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں تو آپ اب وہاں تشریف فرما ہی کیوں ہیں؟
خرابی ستاروں میں نہیں‘ آدمی کے اندازِ فکر میں ہوتی ہے۔ کرکٹ کا بحران ہمارے مجموعی قومی مزاج کا مظہر ہے۔ اختیار اور اقتدار کو امانت سمجھنے کی بجائے‘ مواقع سے فیض یاب ہونے کی بچگانہ آرزو۔
زندگی انصاف سے پروان چڑھتی ہے اور اصولوں کی آبیاری سے۔ حکمت عملی عقلِ محض کی پرستش کا نام نہیں۔ پیچھے پلٹ کر دیکھو‘ کتنے ستارے تاریخ میں جگمگاتے ہیں‘ اس بھید کو جنہوں نے پا لیا... اور جو نہ پا سکے‘ وہ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالے گئے۔ اب یہ میاں صاحب کی مرضی ہے کہ کس چیز کا وہ انتخاب کرتے ہیں۔