"HRC" (space) message & send to 7575

نشیب کا سفر

معاف کیجیے گا، اب یہ نشیب کا سفر ہے۔ واپسی کے تمام راستے بند ہیں۔ توبہ کا دروازہ البتہ کھلا ہے۔
اگر عقل اور تدبیر ہی سب کچھ ہوتی تو الطاف حسین کو ملک کا وزیرِ اعظم ہونا چاہیے تھا۔ سرفرازی کے مگر کچھ اور بھی تقاضے ہیں۔ ان میں سے اوّلین یہ ہے کہ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ سیاست میں افراد اہم ہوتے ہیں، پارٹیاں اور نہ حکمتِ عملی بلکہ سب سے بڑھ کر وقت کے دھارے کا رخ اور انداز۔ آئن سٹائن نے یہ کہا تھا: دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ ذاتِ قدیم کیا چاہتی ہے، باقی تفصیل ہوتی ہے۔ Rest is the detail۔ حاسدوں نے جب اس کے خلاف مہم شروع کی کہ وہ ملحد ہے تو ایک مذہبی رہنما نے اسے لکھا: کیا تم خدا کو مانتے ہو؟ اس کا جواب یہ تھا: سترھویں صدی کے فلسفی سپینوزا کی طرح میں فقط اس خدا کو نہیں مانتا، جو اعما ل کی جزا و سزا پہ قادر ہے‘ بلکہ اسے جس نے اس کائنات میں ایک حیران کن آہنگ تخلیق کیا ہے۔ 
ساری عمر خرد کے خلاف جہاد کرنے کے بعد آخرکار مشرق کے عظیم شاعر کو بھی کہنا پڑا ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے 
جو لوگ ملکوں اور معاشروں کی اصلاح کے آرزومند ہوں، انہیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ محمد علی جناح اگر دوسروں سے وقت کی پابندی کا مطالبہ کیا کرتے تو اس سے پہلے خود اس عادت کو فطرتِ ثانیہ بنا لیا تھا۔ 
نواب صاحب کے ہاں وہ ساڑھے آٹھ بجے تشریف لائے تو ایک مہمان نے اعتراض کیا: آٹھ بجے سے ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ میزبان کی طرف انہوں نے دیکھا اور سوال کیا: آپ نے مجھے کس وقت حاضر ہونے کو کہا تھا: اس نے بتایا: آٹھ بج کر تیس منٹ پر۔ اس کے بعد انہوں نے نواب صاحب کی دعوت کبھی قبول نہ کی۔ 
حیدر عباس رضوی یہ کہتے ہیں کہ اپنی پارٹی کے لیے الطاف حسین ایک باپ کی مانند ہیں۔ محبت کرنے والے کو ڈانٹنے کا حق ہوتا ہے۔ مان لیا کہ اپنی پارٹی کے وہ پدرِ محترم ہیں مگر قوم کے نہیں۔ بات تلخ ہے مگر اتنی ہی سچی بھی کہ سندھیوں، پنجابیوں، پشتونوں اور بلوچوں کے نہیں، چترالیوں اور کوہستانیوں کے نہیں، وہ فقط مہاجروں کے لیڈر ہیں۔ 
احمد فراز پہ خدا رحم کرے۔ کبھی کبھی وہ بے تکی بات کیا کرتے۔ وزیرِ اعظم ملک معراج خالد اور ان کے نصف درجن مہمانوں کی موجودگی میں وہ بولے: باچا خان پشتونوں کے ہیرو ہیں، جس طرح پنجابیوں کے رنجیت سنگھ ۔ عرض کیا: باچا خان سب پٹھانوں کے ہیرو نہیں اور رنجیت سنگھ فقط سکھوں کے۔ اپنی بات پر وہ بچوں کی طرح ڈٹے رہے تو گزارش کی، چار پانچ پنجابی تو یہیں موجود ہیں۔ چار پانچ سو اس گلی میں۔ اگر ان میں سے ایک بھی رنجیت سنگھ کو اپنا ہیرو تسلیم نہ کرے؟ 
بر سبیلِ تذکرہ، اردو بولنے والے ایک ممتاز اخبار نویس نے کچھ دن پہلے ترنگ میں کہا تھا: ہم تو فرزندانِ زمین کے قائل ہیں مثلاً راجہ داہر کے، مثلاً رنجیت سنگھ کے۔ عرض کیا: پانی کے تالاب میں گندگی کا ایک قطرہ شامل ہونے کا شبہ ہو تو وہ ناپاک ہوتا ہے۔ آپ سمیت کوئی بھی گوارا نہ کرے گا۔ راجہ داہر سے اجتناب کے لیے اتنا کافی ہے کہ مبینہ طور پر اس نے اپنی بہن سے شادی کی تھی۔ رہے رنجیت سنگھ تو اپنی ماں کو اس نے قتل کیا اور اس کے باپ نے اپنی ماں کو... اور کوئی ہیرو؟ 
Buzzwords ۔ بعض اوقات ہم وہ بات کہتے ہیں، جو ہزار بار سننے کی وجہ سے ہمیں درست لگتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گاہے ادبی جمالیات کو ہم سچائی کا متبادل سمجھ لیتے ہیں۔ ہر گروہ کے اپنے مغالطے ہیں۔ سیاستدانوں کے بھی۔ سیاست کار تدبیر کا بت بنا لیتے اور اس کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ آخر کو وہ ممتاز دولتانہ ہو جاتے ہیں۔ خالی ہاتھ!
بجا کہ سندھ کے اردو بولنے والوں کو نظر اندا ز کیا گیا، بجا کہ سندھی لیڈرشپ نے ان کی حق تلفی کی۔ قابلِ فہم ہے کہ سندھی قوم پرستی کے جواب میں مہاجر سیاست نے آنکھ کھولی۔ کچھ چیزوں کو مگر بھلا دیا گیا۔ ردّعمل اور نفرت میں اگرچہ قوت بہت ہوتی ہے مگر اس پر کوئی پائیدار جماعت تشکیل دی جا سکتی ہے اور نہ ایک صحت مند معاشرہ۔ علماء اور صوفیا سمیت مسلمانوں کی عظیم اکثریت تاریخ کی اہمیت سے بیگانہ ہے، سیاستدان تو اکثر۔ ہٹلر کی خود نوشت ہر ایک کو پڑھنی چاہیے اور اس کے بارے میں لکھی گئی ایک آدھ کتاب بھی۔ 
طوفان کی طرح اٹھنے والے جھاگ کی طرح بیٹھ جایا کرتے ہیں۔ عصبیت کی بنیاد پر تشکیل پانے والی لسانی اور گروہی جماعتوں کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَل۔ ہر گروہ کے لیے ہم نے میعاد لکھی ہے۔ 
ہر دوسری قوم پرست پارٹی کی طرح ایم کیو ایم بھی زندہ رہ سکتی ہے مگر اسے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ امام خمینی ایسا بے پناہ لیڈر آخری تجزیے میں ناکام رہا کہ بروقت جنگ بندی نہ کر سکا۔ اس وقت جب سعودی عرب تاوانِ جنگ کی ضمانت دینے پر آمادہ تھا۔ عرب اور ایران آج صدام حسین اور امام کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں اور اللہ جانے کب تک کاٹتے رہیں گے۔ 
عارف سے پوچھا گیا کہ یہ مرتبہ اس نے کس طرح پایا۔ کہا: توبہ سے۔ سچے دل سے جب اللہ کو اپنا رب مان لیا۔ جب یہ ارادہ کر لیا کہ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی اپنی سی کوشش کریں گے تو مزاج میں آہنگ پیدا ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ اداسی اور خوف سے نجات ہوتی گئی۔ بالآخر وہ وقت بھی آیا کہ موت کا دھڑکا بھی رخصت ہوا۔ پوچھا گیا: کیا آپ مومن ہیں؟ فرمایا: مسلمان ہوں اور مومن بننے کی کوشش میں لگا ہوں۔ پھر یہ ارشاد کیا: دعویٰ جہالت اور کبر ہے۔ آدمی کو زیبا نہیں کہ اعلان کرے۔ کامیابی اور ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آخری سانس تک زندگی امتحان ہے۔ 
ایک کے بعد دوسرا حادثہ ہے مگر ایم کیو ایم نے سیکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ ناکامی بری ہے اور نہ آزمائش۔ ناکامی سے سیکھ لیا جائے تو زیادہ بڑی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ آزمائش صلاحیت میں اضافہ کرتی اور استعداد کو غیر معمولی کر سکتی ہے۔ غلطی سے نہیں، آدمی اپنی غلطی پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔ افراد، جماعتیں اور گروہ بھی۔ ولندیزی اور ہسپانوی انگریزوں سے بڑی قوت تھے۔ اہلِ فرانس بھی، جو سلطنتِ روما کا وارث بننے کے خواب دیکھا کرتے۔ انگریزوں نے ایک ہزار سال کی ذلت سے مگر بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ وائی کنگز، رومیوں اور نارمن قبائل کی غلامی سے۔ نپولین ایسے جنرلوں کی یلغار نے وہ سبق انہیں پڑھا دیے تھے، جو درسی کتابوں سے اخذ نہیں کیے جا سکتے۔ 
ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل، منی لانڈرنگ اور صدر دفتر سے سفاک قاتلوں کی گرفتاری... اور وہ خوفناک اسلحہ۔ 130 ہتھیاروں میں سے صرف 70 کے لائسنس پیش کیے گئے۔ ان میں سے بھی صرف 35 کی تصدیق ہو سکی۔ ان ہتھیاروں پر جو غلاف چڑھے تھے، وہ اس کمپنی کے تیارکردہ تھے، جس پر جعلی لائسنس بنانے کا الزام ہے۔ 
حیدر عباس رضوی یہ کہتے ہیں: ایم کیو ایم آزمائشوں میں سرخرو ہونے کی تاریخ رکھتی ہے۔ جی نہیں، رزم گاہ نہیں، اب یہ ڈھلوان کا سفر ہے۔ پیپلز پارٹی پلٹ گئی تھی اور نواز شریف بھی۔ اب پاکستانی قوم فریق ہے۔ سارا عدالتی نظام اور عسکری قیادت بھی۔ 
معاف کیجیے گا، اب یہ نشیب کا سفر ہے۔ واپسی کے تمام راستے بند ہیں۔ توبہ کا دروازہ البتہ کھلا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں