غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں‘ مگر خود فریب؟ خود فریبی تباہی کا سب سے آسان اور سب سے زیادہ کارگر نسخہ ہے‘ چالیس ہزار برس سے جو ابنِ آدم استعمال کرتا آیا ہے۔ عظیم ترین مغالطوں میں سے ایک یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار جانا جائے۔
''ہارون الرشید سمیت آپ سب لوگ تحریک انصاف کو الزام دے رہے ہیں۔ آپ یہ کہتے ہیں کہ این اے 246 میں‘ جماعت اسلامی دستبرداری پہ آمادہ تھی۔ اندر کی کہانی اگر کسی صحافی کو معلوم ہے تو اسے چھاپنی چاہیے۔ کراچی کے کچھ دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ جماعت اسلامی دستبرداری پہ آمادہ نہیں تھی۔ مطالبات اس کے بہت زیادہ تھے۔ پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں انہوں نے 50فیصد سیٹوں کا مطالبہ کیا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی بجائے نون لیگ سے انہوں نے اتحاد کیا ہے۔ تحریک انصاف کو اس پر اعتراض تھا۔
این اے 246میں‘ ایم کیو ایم کی مقبولیت بھی کم ہوئی ہے۔ انہیں جو ووٹ ملے‘ ان میں پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور جمعیت علمائِ اسلام کے رائے دہندگان بھی شامل ہیں۔ اپنے حامیوں کو ان پارٹیوں نے ایم کیو ا یم کی مدد کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
میری معلومات کے مطابق کراچی میں جماعت اسلامی کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ میں یہ بات اس لیے کہتا ہوں کہ میرے کئی رشتہ دار جماعت کو چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیئے یا پی ٹی آئی کو۔ ان میں سے اکثر نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے۔ 2013ء میں اور اب کی بار بھی۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ سب کے سب اردو بولنے والے ہیں۔ این اے 246 کے نتیجے پر نظر ڈالیے‘ میری بات واضح ہو جائے گی۔
ایک اور نکتہ یہ ہے: ''سینیٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف نے سراج صاحب کی مدد کی۔ پی ٹی آئی نے اس سیٹ پر اپنا امیدوار ہی کھڑا نہ کیا‘ جو پیپلز پارٹی نے خالی کی تھی۔ طے کیا کہ جماعت اسلامی ہی اس پر الیکشن لڑے گی مگر انہوں نے امیدوار دستبردار کرنے سے انکار کردیا۔ کچھ غلطیاں پی ٹی آئی نے بھی کی ہوں گی۔ اصل ذمہ داری مگر جماعت اسلامی پر عائد ہوتی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی ان کی قیادت اس کی ذمہ دار ہے‘ جس نے نون لیگ کو دوستی کا اشارہ دیا۔ این اے 246 میں شکست کی دوسری بہت سی وجوہات بھی ہیں۔ لکھنے سے پہلے آپ کو‘ نذیر ناجی کا کالم پڑھ لینا چاہیے تھا‘‘۔
ارشاد عارف کے نام‘ یہ بزرگ دانشور محمود مرزا کا مکتوب ہے‘ جو عارف صاحب کی اجازت سے میں نے نقل کیا ہے۔ اس لیے کہ جس خطا کا ارتکاب انہوں نے کیا‘ اس کا ذمہ دار میں بھی ہوں بلکہ ان سے زیادہ۔ مرزا صاحب کے پاس میرا نیا نمبر غالباً نہیں تھا‘ وگرنہ شاید وہ مجھے اس کی نقل بھیجنا پسند کرتے۔ ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر وہ ایک نہایت ہی ثقہ اور سنجیدہ آدمی ہیں۔ (''ثقہ‘‘ کے بعد ''سنجیدہ‘‘ کی ضرورت نہیں مگر افسوس کہ ہمارا لسانی افلاس)۔
اپنے مؤقف میں مرزا صاحب نے اعلیٰ درجے کی وہ احتیاط روا رکھی ہے‘ جو ایک اچھے طالب علم کا شیوہ اور شعار ہوا کرتا ہے۔ کوئی دعویٰ انہوں نے ہرگز نہیں کیا اور جو دلائل دیئے‘ وہ قابل غور ہیں۔ ان کی خدمت میں چند گزارشات:
ناچیزکا اندازہ اگر درست ہے تو مرزا صاحب کی عمر اسّی سال سے متجاوز ہے۔ بڑی حد تک اب وہ گوشہ نشین ہیں۔ اس کے باوجود نہ صرف اپنا مؤقف بیان کرنے کی ضرورت انہوں نے محسوس کی بلکہ موزوں ذہنی ریاضت سے کام بھی لیا۔ روابط کیے‘ تحقیق فرمائی‘ پھر سلیقہ مندی کے ساتھ مذکورہ نکات مرتب کیے۔ تحریک انصاف کے دفتر میں‘ کراچی یا اسلام آباد میں کوئی دوسرا کیوں نہ ہوا‘ جو ایک مفصل خط لکھتا۔ یہ بھی نہیں تو فون ہی کرتا۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگیِٔ چشم حسود تھا
امیدوار عمران اسمٰعیل‘ ظاہر ہے کہ زیادہ مصروف تھے مگر ان کا کوئی نائب؟ پارٹی کا میڈیا سیل‘ کس مرض کی دوا ہے۔ کس حکیم نے اسے منع کیا ہے کہ اخبار نویسوں سے رابطہ نہ کرے۔ ان سے جو سنتے ہیں اور ان کے نزدیک قبول کرنے کی بات ہو تو قبول بھی کرتے ہیں۔ فقط نعرے بازی کا نام سیاست نہیں اور نہ ہی دعوے کرنے کا۔ عجیب پارٹی ہے صاحب‘ جتلا کر‘ دھمکی دے کر مخالفین کو مستعد کر دیتی ہے۔ پھر خودسو رہتی ہے۔ لسّی میاں صاحب پیتے ہیں‘ غنودگی تحریک انصاف پہ طاری ہوتی ہے۔ خود میاں صاحب سے بھی زیادہ۔ شیر لسّی پئے‘ یہ ناقابل فہم ہے مگر بلّے کا مدہوش ہونا تو کسی طرح بھی قرینِ قیاس نہیں۔ جب ماجد خان کی توجہ ذرا سی کم ہوئی۔ فٹ ورک ان کا پہلے جیسا نہ رہا تو چھوٹے بھائی نے اپنے ہیرو کو چلتا کیا۔
میاں داد قریب کے ایک کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ کل ملاقات کی خواہش انہوں نے ظاہر کی۔ حاضر ہوا تو اس زمانے کی روداد ٹھہر ٹھہر‘ مزے لے لے کر انہوں نے بیان کی۔ کہا: ماجد خان واقعی تھک گئے تھے۔ آخری تجزیے میں فیصلہ درست ہی تھا‘ بس یہ کہ ذرا سی زیادہ سلیقہ مندی بھی ممکن تھی۔ پرجوش انداز میں نہیں‘ آخری بات انہوں نے رواروی میں کہی‘ اپنے خاص انداز میں۔
بنگلہ دیش کی تباہ کن شکست کے بارے میں پوچھا تو ایک مربوط رپورٹ انہوں نے مجھے دکھائی جو پاکستانی کرکٹ پر انہوں نے لکھی ہے۔ کہا: کرکٹ بورڈ کی تشکیل نو درکار ہے۔ پھر یہ بتایا: (بہت دن پہلے) میاں صاحب سے انہوں نے ملنا چاہا۔ پیغام بھیجا تو جواب یہ ملا: حمزہ شہباز سے مل لیجیے۔ (اب صورتِ حال مختلف ہے‘ اب کسی اور کا نام لیا جاتا ہے)
کرکٹ مر رہی ہے۔ میاں صاحب کو پروا ہی نہیں‘ جس طرح پچھلی حکومتوں کو ہاکی اور سکواش کی نہیں تھی۔ کراچی جانا ہوا تو ایک تقریب میں اساطیری جہانگیر خان سے ملاقات ہوئی۔ ریڈر ڈائجسٹ نے لکھا تھا: "The champion of all champions"جہانگیر کے ہوتے ہوئے سکواش کا انتقال پُرملال ہوا۔ اس لیے کہ اسے ذمہ داری نہ سونپی گئی۔ کبھی سونپی تو اختیار نہ دیا۔ وسائل نہ دیئے۔ احمد راہی نے ہیر کی زبان سے یہ کہلوایا تھا:
جے توں مرزا ہوندوں رانجھنا
میں تتڑی زہر نہ پھک دی
نہ توں بن آئیوں مردوں
نہ میں بن آئیوں مردی
(رانجھے‘ اگر تو مرزے ایسا ہوتا تو میں بیچاری زہر نہ پھانکتی۔ نہ تو بن آئی موت مرتا‘ نہ میں بن آئی مرتی)
ناراض ہو کر چودھری سرور لندن جا چکے۔ بلخ شیر مزاری کو وہ پارٹی میں شامل کرانے کے آرزو مند تھے۔ عمران خان متامل رہے‘ جس طرح کہ ہمایوں اختر اور ہارون اختر پہ جہانگیر کی مخالفت نے کپتان کو شش و پنج میں ڈال دیا تھا۔ خود ان سے درخواست کی۔ ایک نہیں دو بار ان کے گھر جا کر‘ پھر خود ہی خاموش ہو رہے۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
جی ہاں! سیاست عوامی تائید کا نام ہے‘ مگر اس تائید کو متشکّل کرنا سیاست کا اصل جوہر ہے۔ ہر کام کے اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ برسات میں بوٹے کو گاڑنا کافی نہیں‘ آب رسانی بھی‘ کھاد بھی‘ وگرنہ دھوپ یا کہر اسے مار ڈالتی ہے۔
غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں‘ مگر خود فریب؟ خود فریبی تباہی کا سب سے آسان اور سب سے زیادہ کارگر نسخہ ہے‘ چالیس ہزار برس سے جو ابنِ آدم استعمال کرتا آیا ہے۔ عظیم ترین مغالطوں میں سے ایک یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار جانا جائے۔