کب تک؟ آخر کب تک؟ شاہی خاندانوں کی پوجا کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ پارٹیوں میں جمہوریت کی ابتدا کب ہوگی کہ ملک میں جمہوریت پھلے پھولے؟
پیپلز پارٹی کے باقی ماندہ جیالے بہت دکھی ہیں۔ چھائونیوں کے بلدیاتی انتخابات میں سندھ سے چند سیٹیں انہیں ملی ہیں‘ پنجاب اور بلوچستان میں صفایا ہو گیا۔ ایک سیٹ پختون خوا میں... کل سات عدد۔ جماعت اسلامی سے ایک عدد زیادہ۔ جماعت والوں کا کہنا ہے کہ اصل میں ان کے جیتنے والے نو ہیں‘ تین متبادل امیدوار‘ جنہوں نے دوسرے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔ شکست فاش کا مداوا لیاری کے جلسۂ عام میں کرنے کی کوشش کی گئی‘ خوش بختی سے جو فوراً بعد منعقد ہوا؛ اگرچہ ظاہر ہے کہ اعلان پہلے سے ہو چکا تھا۔
جماعت اسلامی کی ناکامی پر کوئی تعجب نہیں۔ بس اتنی سی متاع ہی باقی بچی ہے۔ زوال کا عمل بہت پہلے شروع ہوا تھا اور اب تقریباً مکمل ہو چکا۔ اسباب آشکار ہیں۔ سید منور حسن امیر چنے گئے تو سید فاروق گیلانی مرحوم نے ان سے کہا تھا: جلد ہی آپ خاکسار تحریک بننے والے ہیں۔ گومگو کے اولین ایام کے بعد کہ الیکشن لڑنا چاہیے یا نہیں‘ حلقہ این اے 246 میں پارٹی کے لیڈر یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ ان کے ووٹ تحریک انصاف سے زیادہ ہوں گے۔ زیادہ تر اخبار نویسوں نے ان کے دعوے کو درست مان لیا تھا۔ زیادہ تو کیا خود مئی 2013ء میں حاصل کردہ حمایت بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ تب بارہ بجے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور دس ہزار ووٹ لے مرے تھے۔ اس حلقے کی حد تک تحریک انصاف کی تائید بھی کم ہوئی ہے۔ ایک گم نام مسیحی امیدوار نے عمران اسمٰعیل سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔
چھائونیوں کے بلدیاتی الیکشن میں اگرچہ نون لیگ کے بعد پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ امیدوار جیتے لیکن راولپنڈی اور لاہور میں اس کی شکست عبرتناک ہے۔ لاہور میں سعد رفیق کے حلقۂ انتخاب میں 20 میں سے 15 سیٹیں نون لیگ کے ہاتھ رہیں۔ پانچ تحریک انصاف کو ملیں۔ کوئی آزاد امیدوار جیتا اور نہ کسی دوسری پارٹی کا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ رائے عامہ دونوں جماعتوں کی حمایت اور مخالفت میں منقسم تھی؟ پی ٹی آئی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں میں گھپلا کیا گیا۔ بعض سول‘ خاص طور پر کچھ کچی آبادیاں شامل کردی گئیں۔ ظاہر ہے کہ تحقیق کرنا ہوگی؛ اگرچہ دو اور سوال اس سے پھوٹیں گے۔ کیا کچی آبادیوں میں آپ کی تائید برائے نام ہے؟ یا وہی کچی آبادیاں شامل کی گئیں‘ جن میں سعد رفیق بوجوہ سرگرم رہے ہوں۔
مکہ مکرمہ سے پارٹی کے ایک جذباتی کارکن نے ابھی کچھ دیر پہلے فون کیا: خان صاحب کو سمجھایئے۔ راولپنڈی میں اختیار انہوں نے کس کو سونپ دیا۔ اس نے ٹکٹ بیچے۔ عمران خان اگر نامقبول ہوتے تو میری سعودی کمپنی کے 15 ہزار پاکستانیوں میں سے 13 ہزار اس کے حامی کیوں ہوتے؟ ٹیکسلا میں غلام سرور خان ظفر مند کیوں رہتے۔ عرض کیا‘ آپ سے اتفاق ہے۔ کم و بیش یہی بات میں ٹی وی پر کہہ چکا۔ اب اسے کہاں تک دہراتا رہوں۔ بارہا کپتان سے کہہ چکا کہ تنظیم پر توجہ چاہیے۔ ملاقات ہوئی تو ایک بار پھر عرض کردوں گا۔
اس اثنا میں گوجرانوالہ سے پیغامات آنا شروع ہوئے کہ قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں میں ناپسندیدہ لوگوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ آئندہ ان لوگوں کو ٹکٹ دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ پارٹی کے باخبر اور مخلص ارکان اس پر پریشان اور بددل ہیں۔ قابل اعتبار لوگ تھے۔ ایک پیغام خان صاحب کو بھیج دیا۔ ان کا جواب آیا: تفصیل بتائو۔ تھوڑی سی تفصیل عرض کی۔ کہا: فلاں صاحب نے سفارش کی ہے۔ گزارش کی: شریف آدمی ہیں مگر وہ آپ کی طرح ہیں۔ ہر ایک پہ اعتبار کر لیتے ہیں‘ جب تک کہ وہ خود کو غلط ثابت نہ کردے‘ کرتے رہتے ہیں۔ خود دیکھ لیجیے‘ میں بھی مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔
مکہ مکرمہ والا کارکن بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ کہا: ہمارے 13 ہزار کے مقابلے میں نون لیگ والے ایک ہزار کے قریب ہوں گے۔ ان کی جلی کٹی سننا پڑتی ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو آپ سمجھاتے کیوں نہیں؟
کس کس کو سمجھایئے! ہماری سنتا کون ہے؟ بات یہ ہے کہ سمجھتا وہی ہے‘ سمجھنے پر جو آمادہ ہو‘ جو لچک رکھتا ہو۔ ہر مشورہ صائب نہیں ہوتا لیکن بہت سے لوگ جب ایک ہی بات کہیں تو اس پہ غور کرنا چاہیے۔ فاروق اعظمؓ نے کہا تھا: سب کی سنو اور پھر خود فیصلہ کرو۔
شخصیت پرستی نے اس ملک کی سیاست کو برباد کیا ہے؟ بھٹو اگر بیدار مغز تھے تو کیا لازم ہے کہ ان کی آل اولاد بھی؟ صاحبزادی کے شوہر نامدار بھی؟ نواسے اور پوتے بھی؟
شریف خاندان میں ایک کشمکش برپا ہے۔ سرگوشیوں میں لوگ بتاتے ہیں کہ بڑے میاں صاحب کی اولاد‘ اب اپنے استحقاق پہ اصرار کر رہی ہے۔ ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ فواد حسن فواد واپس آنے والے ہیں بلکہ شہباز شریف کے بھیجے گئے‘ کئی اور افسر بھی۔ ان کے مطابق اب کوئی اور ہے‘ جو نام تجویز کرتا ہے۔ پرسوں پرلے روز ایک صاحب اتفاقاً ملے۔ ان سے کہا کہ فلاں کام کا ایک سال قبل آپ نے وعدہ کیا تھا۔ دوردراز اس گائوں کے لوگ اب تک انتظار میں ہیں۔ بولے: میں تو خود کھڈے لائن لگا ہوں۔ فاتحین کے لشکر کے ساتھ وہ بھی لاہور سے اسلام آباد گئے تھے۔
پیپلز پارٹی کے کچھ جیالے پی ٹی آئی سے وابستہ ہو گئے۔ باقیوں میں سے اکثر ڈپریشن کا شکار ہیں‘ حالانکہ یہ مرض اس جماعت کے لوگوں کو نسبتاً کم لاحق ہوتا ہے۔ وہ ہنسنے کھیلنے والے ہیں۔ ایک بوڑھے کارکن سے ملاقات ہوئی۔ کہا: اگرچہ زینکس کی دو گولیاں روزانہ کھاتا ہوں لیکن اگر بھٹو ایسا لیڈر ملے تو اب بھی ویسا ہی کرشمہ دکھا سکتا ہوں۔ بھٹو ا یسا لیڈر کہاں سے ملے؟ بہت سے کارکنوں کی امیدیں‘ بلاول بھٹو سے وابستہ ہیں مگر وہ تو فون پر بھی کارکنوں سے خطاب کرنے پر آمادہ نہیں۔ زرداری صاحب نے جب سے انکشاف کیا ہے کہ ایک سال پہلے بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے بلاول سیاسی طور پر اب نابالغ ہو چکے‘ کارکن ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم کی تصویر ہیں۔ جو باخبر ہیں‘ وہ دعا مانگتے ہیں کہ باپ بیٹے کی صلح ہو جائے۔ خود زرداری صاحب کو بھی احساس ہے؛ چنانچہ اس کے نام پر لیاری میں ایک ادارہ بنانے کا اعلان کیا۔ یہ بھی کہا کہ ایک ارب روپے کا پیکیج اس کے کہنے پر دیا۔ اب وہ بیچارہ تردید تو کرنے سے رہا۔ ایک اور الجھن اس اعلان سے کھڑی کردی کہ آصفہ اور بلاول جلد ہی پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے۔ خدا ان بچوں کو سلامت رکھے مگر لیڈر دو نہیں ہوا کرتے۔ وہی بات کہ اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں نہیں پہنائی جاتیں۔ یہاں تو چار ہیں زرداری صاحب‘ ان کی ہمشیرہ محترمہ‘ بلاول بھٹو زرداری اور اب آصفہ بھی۔ قائم علی شاہ کو شامل کر لیجیے تو پانچ عدد۔
شریف خاندان کا عالم بھی یہی ہے۔ بڑے اور چھوٹے میاں صاحب‘ حمزہ شہباز‘ سلمان شہباز‘ محترمہ مریم نواز؛ اگرچہ ان کی حدود نسبتاً متعین ہیں۔ حیرت ہے کہ حسین نواز کا نام ہی نہیں‘ دوسروں سے جو زیادہ پڑھا لکھا ہے اور اوائل عمری سے طے کردہ فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے۔
کب تک؟ آخر کب تک؟ شاہی خاندانوں کی پوجا کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ پارٹیوں میں جمہوریت کی ابتدا کب ہوگی کہ ملک میں جمہوریت پھلے پھولے؟