اللہ کا دائمی قانون یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ کئی اور کی باری بھی آ سکتی ہے ع
خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
ایک ذرا سا غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بات سمجھ میں آنے لگتی ہے‘ آدمی اپنی تقدیر خود نہیں لکھتا۔ جدوجہد برحق کہ حیات اسی سے شادکام ہوتی ہے۔ رزق مگر مقرر ہے‘ عمر طے شدہ ہے۔ زندگی کے تمام امکانات آدمی کی شخصیت میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم قرار دیتا ہے کہ جہاں جہاں کسی کو رکنا اور ٹھہرنا ہے‘ بالآخر جہاں اسے پہنچنا ہے‘ وہ پہلے سے متعین ہے ؎
تو اپنی خود نوشت کو اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں
یہ اقبالؔ نے کہا تھا لیکن پھر عطیہ فیضی کے نام اپنے خط میں انہوں نے لکھا: اقبال تو ایک میت ہے‘ جس نے خود کو تقدیر کے سپرد کر دیا ہے۔ تاریخ کے چوراہے پر مسلم برصغیر کو غفلت سے جگانے کے لیے شاعرانہ مبالغے اور خطیبانہ اصرار کی ضرورت تھی۔ عجیب بات ہے‘ انسان کے لیے اللہ کا حکم بھی یہی ہے کہ پیہم وہ تگ و تاز سے کام لے۔ اس کی بہترین مثال پیغمبرانِ عظام ہیں‘ چن لیے گئے‘ جلیل القدر اور بابرکت لوگ‘ کتاب میں جن کا ذکر اس محبت اور اکرام کے ساتھ ہے کہ آدمی چونک اٹھتا ہے۔ ''سلامتی ہو نوحؑ پر‘‘، ''سلامتی ہو ادریسؑ پر‘‘، ''سلامتی ہو ابراہیمؑ پر‘‘۔ آزمائش سے وہ دوچار کیے گئے‘ دکھ اور انتظار سے گزارے گئے۔ انہوں نے زخم کھائے اور صبر کیا۔ رہے سرکارؐ تو قرآن کریم انہیں ''دمکتا ہوا سورج‘‘ کہتا ہے، ''رحمۃ للعالمین‘‘ حتیٰ کہ پروردگار نے اپنے دو نام ہی انہیں بخش دیئے ''رئوف اور رحیم‘‘۔ قدرت کے قوانین میں استثنیٰ مگر ان کے لیے بھی نہیں‘ جن پر دائم درود پڑھا جائے گا۔ عالی مرتبت ''انشاء اللہ‘‘ کہنا بھول گئے تو انہیں یاد دلایا گیا ۔
فرمایا ''انما الاعمال بالنیات‘‘۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ نتائج کا نہیں‘ آدمی کاوش کا ذمہ دار ہے۔ چھ ماہ ہوتے ہیں‘ آخر شب کی ملاقات میں‘ جناب شعیب شیخ نے جب یہ کہا کہ وہ دنیا کے سب سے امیر آدمی بننا چاہتے ہیں تو میں دنگ رہ گیا۔ اگلے دن ان کے ادارے نے کوائف مانگے تو معذرت کر لی۔ زیادہ سے زیادہ کتنی تنخواہ ایک اخبار نویس کو درکار ہو سکتی ہے۔ سٹار صحافیوں کے معاوضے مصنوعی ہیں۔ میڈیا نے اچانک اور تیزی سے فروغ پایا۔ پیشہ ورانہ مہارت اور پذیرائی کی صلاحیت رکھنے والے کم تھے۔ تادیر یہ صورت حال برقرار نہ رہے گی۔ معاوضے اب کم ہونے لگیں گے‘ خاص طور پر اس حادثے کے بعد جو رونما ہے۔ ہر چیز میں ایک سبق ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک سے زیادہ مگر افسوس کہ ہم غور نہیں کرتے اور اکثر اس لیے نہیں کرتے کہ اپنی خواہشات‘ تعصبات اور تکبرات کے اسیر ہوتے ہیں۔
چودھری شجاعت حسین بعض اوقات بہت پتے کی بات کہتے ہیں۔ لال مسجد کا سانحہ رونما ہو چکا تو جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کو چودھری نے پوٹھوہار کے لاثانی شاعر میاں محمد بخش کا مصرع سنایا۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے‘ سجناں وی مر جاناں
دوستوں اور محبوب لوگوں کو کیا‘ آدمی کو خود بھی چلے جانا ہے اور ایک دن اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اس دن کے لیے اللہ تعالیٰ دشمنوں کو بھی اپنی امان میں رکھّے۔
فرمایا: کبریائی اللہ کی چادر ہے۔ دعویٰ تو اولیائِ کرام‘ حتیٰ کہ پیغمبرانِ عظام کو زیبا نہیں جو اللہ کی پناہ میں ہوتے ہیں‘ چہ جائیکہ کہ ایک عامی اس پر اصرار کرے۔ پرسوں پرلے روز اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے‘ گوجرانوالہ کے قریب‘ ایک گاڑی دیکھی‘ جس پر لکھا تھا ''سب سے بڑا میڈیا گروپ‘‘۔ مسافر دنگ رہ گیا۔ یا رب تو بڑا ہی بے نیاز ہے‘ کچھ دیر میں خیال آیا ع
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
تین دن دنیا ٹی وی کا پروگرام نمٹا کر‘ پیر کو اسلام آباد کا قصد تھا کہ راہ میں اس سنگین واقعے کا پتہ چلا ع
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
سفر ملتوی کر کے کالم لکھنے کے لیے واپس آیا۔ ساری شام‘ پوری شب اور منگل کا پورا دن اسی مباحثے میں بیت گیا۔ بعض معتبر اور جہاندیدہ لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ روز اس بستی میں ڈاکے پڑتے ہیں‘ کون پوچھتا ہے۔ لیکن یہ مغرب میں ہوا تھا اور فریاد کی لے بلند تھی۔ 24 برس ہوتے ہیں‘ بی سی سی آئی بینک بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوا تھا۔ معاملے کی نوعیت اگرچہ کچھ مختلف تھی۔ شعبہ باز وہ نہیں تھے۔ فقط یہ کہ آگے بڑھ کر ہاتھ مارنے کی کوشش کی تھی۔ بینک کے بانی آغا حسن عابدی بیمار ہوئے تو مہم جوئی کرنے والوں نے تمام حدود پامال کر دیں۔ سرمایہ بہت تھا اور نودولتیے عربوں کی پشت پناہی بھی۔ کیونکر ہوش و حواس برقرار رہتے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
قوموں کے مزاج صدیوں میں بنتے اور آسانی سے تبدیل نہیں ہوتے۔ مسلم برصغیر کبھی کاروباری نہ تھا۔ یہ ہندوئوں اور سکھوں کا کام تھا۔ آزادی کے بعد خلا پیدا ہوا۔ اب کاروباریوں کی جو نسل میدان میں آئی‘ اس کی پشت پر 1947ء کی فضا تھی۔ راتوں رات جب لوگ لکھ پتی اور کروڑ پتی ہو گئے۔ غیر مسلم اس خطے میں 22 ارب روپے کی جائیدادیں چھوڑ گئے تھے۔ جو شاید اب 4000 ارب کی ہوں گی۔ بھارت سے آنے والوں کی زمینیں اور گھر دو ارب سے زیادہ مالیت کے نہیں تھے۔
کاروبار ایک زینے کی طرح ہے۔ ایک کے بعد دوسری سیڑھی۔ دنیا بھر میں دس پندرہ فیصد منافع کافی سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس سے زیادہ ہو تو سبحان اللہ۔ ہمارے لوگ ہر سال سرمایہ دو گنا کرنے کی خواہش کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ سلیقہ مند اور خوش قسمت وہ ہیں‘ قاعدے‘ قرینے کو جو ملحوظ رکھتے ہیں۔ باقی آخر کار رسوا ہوتے ہیں۔ کوئی نہیں بچتا‘ آخر کار کوئی نہیں بچ سکتا۔
حکم لگانا مشکل ہے کہ کل کیا ہوگا۔ یہ تو مگر آشکار ہے کہ آسانی سے رہائی نصیب نہ ہوگی۔ زخم کاری ہے اور جلد مندمل نہیں ہو سکتا۔ ان اخبار نویس دوستوں پر ملال ہوتا ہے‘ جنہوں نے اس ادارے سے وابستگی اختیار کی۔ ان میں سے چند ایک قابل رشک صلاحیت اور کردار کے حامل بھی ہیں۔ مگر ایک بہت اہم نکتے کو انہوں نے نظرانداز کردیا۔ انگریزی میں کہتے ہیں: Too good to be true۔ کوئی پیشکش اتنی اچھی اور ایسی پرکشش ہوتی ہے کہ عقلِ عام کو اسے قبول کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔
سامنے کی بات یہ تھی کہ ٹی وی میزبانوں کے معاوضے پہلے ہی بہت زیادہ ہو چکے۔ اداروں کے لیے بوجھ اٹھانا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کا بار باقی کارکنوں پر پڑتا ہے۔ مقبولیت کی دوڑ میں سمجھوتے کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سچائی‘ میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہوا کرتی ہے۔ مقبولیت کی دوڑ میں بہت سے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ملک کے ٹی وی چینلوں پر بھارت میں بننے والے اشتہارات کی بھرمار‘ کیا ایسی چیز نہیں کہ غور کیا جاتا؟ ظاہر ہے کہ کوئی ایک آدھ ادارہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ مگر کیا ان کی کوئی اجتماعی اخلاقی ذمہ داری نہیں؟ کیا یہ ملک ان کا گھر نہیں؟
خود کردہ را علاجے نیست اور پنجابی کا محاورہ یہ ہے: سو دن چور کا‘ ایک دن سادھ کا۔ عمارت وہی باقی بچتی ہے‘ جس کی بِنا پائیدار ہو۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: دوام اس چیز کو ہے‘ مخلوقِ خدا کے لیے جو فائدہ بخش ہو...
مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ ایگزیکٹ کے گرفتار ملازمین کی جس طرح نمائش کی گئی‘ بار بار ان کے چہرے‘ جس طرح دکھائے گئے‘ کسی اچھے ذوق کا مظاہرہ وہ بہرحال نہ تھا۔ قانون حرکت میں ضرور آئے۔ مرتکب ہونے والا مگر یہ واحد ادارہ نہیں‘ ایسے بھی ہیں‘ جو غیر ملکیوں‘ حتیٰ کہ دشمن ممالک سے مدد حاصل کرتے رہے۔ ان کے کارنامے بھی کسی غیر ملکی اخبار میں چھپوائے جائیں تو وزیراعظم کو خبر ہوگی؟ ...ع
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
حکمران طبقات کو احساس نہیں‘ حبس تادیر رہے تو آندھی آیا کرتی ہے۔ معاشرہ دولت مندوں کی چراگاہ بن کر رہ جائے تو آخر کار طوفان اٹھتا ہے۔ مظلوم کی آہ اور عرش الٰہی کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔
اللہ کا دائمی قانون یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ کئی اور کی باری بھی آ سکتی ہے ع
خدا کی بستی دکاں نہیں ہے