"HRC" (space) message & send to 7575

کارگل آپریشن ، ایک عینی شاہد کا نقطۂ نظر… (2)

یہ اقتباسات، حال ہی میں شائع ہونے والی جنرل عبد المجید ملک کی خودنوشت ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘، سے لیے گئے ہیں ۔
''وزیرِ اعظم نواز شریف ، جو کہ اس میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے، انہوں نے اس ساری بحث کو غور سے سنا اور اپنی حتمی رائے کا اظہار نہ کیا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اگر کارگل کے اس معاملے سے کلی طور پر بے خبر ہوتے تو وہ یہ بات پرویز مشرف سے آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ جنرل صاحب آپ نے مجھے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی لیکن شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک معاملات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ اب یہ پوچھنا مناسب نہیں تھا۔ نوا زشریف نے اس میٹنگ میں نہ ہی کسی واضح ردّعمل کا اظہار کیا اور نہ ہی زیادہ سوالات پوچھے ۔ صرف یہ پوچھا کہ کیا ہماری پوزیشن مضبوط ہے تو جواباً جنرل محمود اور جنرل عزیز وغیرہ نے کہا کہ ہم بہت ہی مضبوط ہیں ۔
پرویز مشرف کو 17مئی کے فوراً بعد چین جانا پڑا۔ اس دوران وزیرِ اعظم ہائوس میں کارگل آپریشن پر دوسری بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ بریفنگ ایکٹنگ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سعید ظفر کی سربراہی میں ہوئی ۔ اس بریفنگ میں بھی پہلی بریفنگ کی تمام باتوں کی تکرار کی گئی اور میں نے وہی نکات اٹھائے اور اب کی بار بھی ان کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ کوئی نئی بات سامنے نہ آئی اور شرکاء کی اکثریت غیر مطمئن نظر آئی ۔
پرویز مشرف چونکہ اس اہم ترین معاملے کی تشویشناک صورتِ حال کے بارے میں فکر مند تھے ، اس لیے انہوںنے بیجنگ میں اپنے ہوٹل کے کمرے سے ٹیلی فون کر کے چیف آف
جنرل سٹاف جنرل عزیز سے ایک طویل گفتگو کی اور اس بریفنگ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا سب مطمئن ہیں یا نہیں اور کیا کسی نے کوئی خاص اعتراض تو نہیں کیا ؟ تو انہوں نے میرے موقف کے بارے میں کہا کہ باقی سب مطمئن ہیں مگر "Mr. Malik is still not satisfied"
جنرل عزیز کے یہ الفاظ اور دیگر ساری گفتگو انڈیا کی ایجنسیوں نے ٹیپ کر لی اور بعد ازاں ان کو بہت نشر کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کا ایک نہایت حساس اور اہم ترین ملکی معاملے پر بیرونِ ملک سے اپنے چیف آف جنرل سٹاف کے ساتھ اس طرح اوپن ٹیلی فون لائن پر بات کرنا ایک بہت بڑی غلطی (Breach of Security)تھی ۔ صدر مشرف کا یہ اقدام نہایت سنگین اور ناقابلِ معافی جرم تھا ۔ اس سے ہندوستانی حکومت کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ کارگل کے معاملے میں پاک فوج ملوّث ہے ۔
کارگل کا معرکہ اب ایک جانب تو میڈیا کی سطح پر شروع ہو چکا تھااور دوسری جانب ہندوستان نے کارگل کی طرف بہت سے آرٹلری یونٹس لا کر توپخانے کا زبردست فائر شروع کر دیا ۔ ہندوستان نے یہ چوٹیاں واپس حاصل کرنے کے لیے جو آپریشن کیا اس کوانہوں نے ''آپریشن وجے‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ پاکستان کے فوجی جو اس وقت ان چوٹیوں پر موجود تھے ، انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ ہمارے حوصلے انہی چوٹیوں کی طرح بلند ہیں ۔ پاکستانی فوجی جوانوں نے جرأت، استقلال ، شجاعت اور حب الوطنی کے وہ بے مثال نمونے پیش کیے کہ اسلامی تاریخ کے مجاہدین کی یاد تازہ ہو گئی ۔ کارگل کی چوٹیوں تک پاکستان کی جانب سے جنگی سامان کی رسد چونکہ بہت ہی دشوار تھی اس لیے جب اس میں قدرے تعطل پیدا ہوا تو کارگل پر پاکستانی جانبازوں نے ایک تاریخی اور دلیرانہ پیغام بھیجا کہ ہمیں کھانے کو کچھ بھیجیں یا نہ بھیجیں مگر اسلحہ ضرور روانہ کریں ۔
ہندوستان کے پے درپے حملوں کے باوجود کارگل پر ہمارے فوجی ڈٹے رہے ۔ ہندوستانی فوج نے اگرچہ کچھ چوکیوں پر قبضہ بھی کرلیا مگر اسے زیادہ تر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس معرکے میں ہماری جانب سے کافی شہادتیں بھی ہوئیں لیکن ہندوستان کا بھی بہت جانی نقصان ہوا۔ اسی دوران ہندوستان نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ، جس کے نتیجے میں ان کا ایک لڑاکا جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی مار گرائے گئے مگر عالمی حالات اور ہندوستانی پراپیگنڈے کے باعث رفتہ رفتہ صورتِ حال ہندوستان کے حق میں ڈھلنے لگی اورپاکستان پر ہر جانب سے دبائو بڑھنے لگا۔ ایسے حالات میں پاکستان آرمی اور سول لیڈر شپ کے ذہنوں میں یہ خیالات پرورش پانے لگے کہ اس جنگ سے کس طرح باعزت طور پر سرخرو ہوا جائے۔
ادھر یہ محدود جنگ جاری تھی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر زور پکڑ رہاتھا کہ چونکہ پاکستانیوں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے ، اس لیے اس جنگ کی ذمہ داری بھی پاکستان پر عائد ہوتی ہے ۔ صحیح معنوں میں یہ کہنا پڑتاہے کہ اس وقت پاکستان کو بقا کا مسئلہ درپیش آگیا تھا کیونکہ کچھ خدشات یہ تھے کہ فریقین کی طرف سے نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کا خطرہ موجود ہے ۔ اس امر کا اظہار پرویز مشرف نے اپنی کتاب "In the line of fire"میں بھی کیا ہے ۔
حکومتِ پاکستان نے امریکہ کے توسط سے اس معاملے کو باعزت طریقے سے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس سلسلے میں وزیرِ اعظم پاکستان نے امریکہ کے صدر بل کلنٹن سے رابطہ کیا۔ بالآخر 4جولائی 1999ء کو وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف نے واشنگٹن جانے کا فیصلہ کیا تاکہ امریکہ کے صدر کے ذریعے اس معاملے کو آبرومندانہ طریقے سے سلجھایا جائے۔ا س سے قبل امریکہ کے جنرل زینی کمانڈر سنٹرل کمانڈ جو کہ صدر مشرف کے د وست تھے، پاکستان آکر پاکستانی عسکری قیادت سے یہ بات کہہ چکے تھے کہ آپ کارگل کی چوٹیاں چھوڑ دیں ‘ کیونکہ لائن آف کنٹرو ل کے مطابق یہ چوٹیاں ہندوستان کی طرف ہیں ۔ جنرل مشرف سے جنرل زینی کی کئی ملاقاتوں کے تذکرے ہیں۔ جنرل مشرف نے جب نواز شریف اور جنرل زینی کی ملاقات کرانا چاہی تو نواز شریف پہلے تو جنرل زینی سے ملنے پر آمادہ نہ ہوئے لیکن مشرف کے کہنے پر ان سے ملاقات کی۔ جنرل زینی نے امریکی حکومت کی طرف سے مشرف اور وزیرِ اعظم دونوں حضرات پر صاف ظاہر کیا کہ پاکستان کو کارگل کی چوٹیاں ضرور چھوڑنا ہوں گی ۔
نواز شریف نے اس سلسلے میں 2جولائی کو صدر کلنٹن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا او ران سے کارگل کے معاملے میں میٹنگ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ کلنٹن نے فوری طور پر تو کوئی جواب نہ دیا مگر 3جولائی کو فون کر کے نواز شریف سے بات کی اور کہا کہ آپ 4جولائی کو واشنگٹن میں ملاقات کے لیے آجائیں ۔ شنید ہے کہ اسی دوران کلنٹن نے واجپائی سے رابطہ کرکے اس کو بھی واشنگٹن آنے کی دعوت دی مگر اس نے انکار کر دیا اور ساتھ ہی صدر کلنٹن کو کہاکہ پاکستان کو کارگل کی چوٹیاں خالی کرناپڑیں گی ۔ یاد رہے کہ 4جولائی امریکہ کا قومی دن ہے اور امریکی اپنے قومی دن کو بہت شایانِ شان طریقے اور سنجیدگی سے منانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس موقعے پر ان کے صدر اور وزراء بہت مصروف دن گزارتے ہیں۔ اس سارے تناظر میں کلنٹن کا 4جولائی کو میٹنگ کے لیے وقت دینا اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ اس میٹنگ کی ان کی نظر میں کتنی اہمیت تھی ۔ نواز شریف نے فوری طور پر یہ فیصلہ کیا کہ امریکہ میں ان کے ساتھ سرتاج عزیز ، نثار علی خان ، سعید مہدی ، فارن آفس کا ایک نمائندہ اور عبد المجید ملک شریک ہوں گے ۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں