انارکی ہے، یہ انارکی۔ کب تک معاملہ اس طرح چلے گا؟ نہیں حضور، ہرگز نہ چلے گا۔ع
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم۔ سارا بدن ہی زخمی ہے، مرہم کہاں کہاں لگائی جائے؟
وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ میں بالآخر مصالحت ہو گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نیکٹا میں یوں تو سال بھر میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہ ہوئی‘ پچھلے چار ماہ سے مگر معاملہ بالکل ہی ٹھپ تھا۔ وزیرِ داخلہ لاتعلق ہو گئے۔ وزیرِ اعظم نے براہِ راست چارج سنبھال لیا۔ فنڈز جاری ہوئے اور نہ وہ افسر بھرتی کیے گئے، جو صوبائی حکومتوں اور متعلقہ محکموں سے رابطہ رکھتے، انہیں متحرک کرتے۔ پریس کی پیہم چیخ و پکار کے بعد آخرکار وزیرِ اعظم کے برادرِ خورد بروئے کار آئے اور وزیرِ داخلہ کے اختیارات واپس کر دیے گئے۔ چوہدری نثار علی خاں نے آج ایک جلسے سے خطاب کیا۔ کمال ہنر مندی اور فصاحت کے ساتھ قومی ترجیحات انہوں نے واضح کر دیں۔ حیرت سے میں نے سوچا: اگر انہیں اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو کام کرنے دیا جائے؟
میرا خیال تھا کہ ڈسکہ کے سانحہ پر جو سخت ترین بات کہی جا سکتی تھی، میں نے کہہ دی ہے۔ ایک باخبر دوست نے کہا: تمہیں پتہ ہی نہیں کہ وکلائِ کرام نے کیا کیا گل کھلائے۔ ان کے بقول وکلاء کا وفد ایک ناجائز نکاح کا تصدیق نامہ حاصل کرنے گیا تھا۔ تحصیل انتظامیہ کے عملے کی اس نے توہین کی۔ مارا پیٹا تو انہوں نے پولیس سے مدد مانگی۔ وکلاء کا ہجوم بڑھا اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ انہوں نے ہاتھا پائی کی۔
کچھ معتبر لوگوں کی رائے یہ تھی کہ ایسے میں کسی بھی شخص پر پاگل پن سوار ہو سکتا ہے؛ چہ جائیکہ ایک گنوار تھانیدار۔ کسی بھی حال میں قتل کا تو کوئی جواز نہیں۔ اب بھی اس رائے پر یہ ناچیز قائم ہے کہ پولیس والوں کی تربیت اگر ڈھنگ سے کی گئی ہوتی۔ ساری دنیا کی طرح، اگر دبائو میں اعصاب بحال رکھنے کا سبق انہوں نے پڑھا ہوتا‘ تو یہ سانحہ پیش نہ آتا۔ مگر وکیلوں نے ملک بھر میں جو آگ بھڑکا رکھی ہے، اس کے حق میں دلیل کیا ہے؟
ہر اعتبار سے یہ انفرادی نوعیت کا ایک واقعہ ہے۔ مان لیا کہ پولیس بہت بری ہے اور وکیل بہت اچھے۔ ان کا دامن دامنِ مریم ہے مگر سرکاری دفاتر کو نذرِ آتش کرنے کی لِم کیا ہے؟ لاہور میں مال روڈ ان کے احترام میں خالی رکھی گئی۔ بیل جس طرح سرخ کپڑا دیکھ کر بھڑکتا ہے، ہمارے قانون کے علمبردار پولیس کی خاکی پتلون اور سیاہ قمیض کی تاب نہیں لا سکتے۔ کالے کیمرے کی بھی نہیں۔ پنجاب اسمبلی پر وہ چڑھ دوڑے۔ وکلاء رہنمائوں نے غنڈہ گردی کے حق میں دلائل کے دریا بہا دیے۔ حکمرانوں کا تو رونا الگ، کیا ہم سب نے اس ملک کو تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا؟
چانکیہ نے کہا تھا: پڑوسی ملک میں خانہ جنگی برپا ہو اور حکمران اس سے فائدہ نہ اٹھائے تو کاروبارِ سیاست میں یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ بلوچستان، کراچی اور قبائلی پٹی میں بھارت اگر دہشت گردوں کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے‘ اگر ان کے لیے منصوبہ سازی فرماتا ہے تو اس پر تعجب کیوں؟ ڈسکہ کا سانحہ رونما ہونے کے چالیس گھنٹے بعد کراچی کی لیاری ندی کے کنارے تین پولیس والے گولیوں سے بھون دیے گئے۔ کیا ان کا لہو کم سرخ تھا؟ کیا ان کے گھروں میں ماتم گسار سہاگنیں، بچّے، بہنیں اور مائیں نہ تھیں؟ سیالکوٹ پولیس اگر ہڑتال پر تلی رہی تو یہ قابلِ فہم ہے۔ کس بے دردی سے حکمران طبقہ پولیس کو استعمال کرتا ہے۔ کس قدر غیر انسانی ماحول میں، کیسے بے رحم موسم میں وہ فرائض ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا قانون کے دائرے میں کام کرنے کی آزادی انہیں حاصل ہے؟
تین برس ہوتے ہیں، ایک ملاقات میں موٹر وے پولیس کے ایک سابق آئی جی نے انکشاف کیا کہ تھانوں اور پولیس لائنوں سے بچے کھچے اور ناکارہ لوگ انہیں سونپے گئے۔ پھر موٹر وے پولیس بدرجہا بہتر کیوں ہے؟ بتدریج شہروں کی پولیس بھی سنور سکتی ہے مگر کیا کبھی کسی نے یہ کوشش کی؟ کیا وہ وزیرِ اعلیٰ، وزرائِ کرام، ارکانِ اسمبلی اور بارسوخ لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں؟ کیا بدترین پولیس افسروں کو اہم ترین ذمہ داریاں نہیں سونپی جاتیں۔ کیا احسان صادق، ذوالفقار چیمہ اور ڈاکٹر شعیب سڈل ایسے پولیس افسر اکثر عتابِ شاہی کا شکار نہ رہے؟
ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو؟
سانحہء ماڈل ٹائون کے ذمہ دار پولیس افسر تھے یا صوبے کے حکمران؟ اس بستی کی ہر تیسری گلی میں شہریوں کی قائم کردہ رکاوٹیں ہیں۔ منہاج القرآن والوں کے پاس تو حکمِ امتناعی بھی موجود تھا؟ پھر پولیس کیوں چڑھائی گئی؟ سبق سکھانے کے لیے۔ ایک دینی مدرسے والوں کو جو ایک ''دیوتا‘‘ کے پجاری ہیں، آپ کیونکر سبق سکھا سکتے ہیں؟
2001ء کا پولیس آرڈر جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے والا بہترین قانون تھا۔ اگر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا۔ آئی جی کا تقرر اگر میرٹ پر ہوتا اور اگر اسے میرٹ پر ماتحتوں کی تعیناتی کا پابند کیا جاتا۔ اگر تحصیل سے صوبائی صدر مقام تک شہریوں کی کمیٹیاں بنتیں تو ملک بدل چکا ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف کے سامنے پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ رو دیا: جنابِ والا، الیکشن سر پہ کھڑے ہیں۔
بہت دیر میں پختون خوا کے وزیرِ داخلہ کا نام یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ سندھ میں جہاں صورتِ حال سب سے زیادہ گمبھیر ہے، ذوالفقار مرزا کے بعد برسوں وزیرِ داخلہ مقرر نہ کیا گیا۔ اب جو صاحب بنائے گئے، ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ ''ادی‘‘ کے کارندے ہیں۔ پنجاب میں محض ایک نمائشی وزیر ہے۔ ہاں! بلوچستان میں ایک وزیرِ داخلہ موجود ہے، سرفراز بگتی۔ اگرچہ اس کی مجبوریاں ہیں کہ خود اس قبیلے کے لیڈر فساد میں شریک ہیں مگر اس نے فرائض انجام دینے کی کوشش کی۔ تخر یب کاری اب بھی ہوتی ہے مگر کوئٹہ شہر میں چوکیاں آدھی رہ گئیں۔ اغوا برائے تاوان کا سلسلہ تقریباً ختم۔ عاصمہ جہانگیر کو شاید اسی لیے پریشانی لاحق ہے کہ بلوچستان میں امن کیوں لوٹ رہا ہے۔
صوبے میں عسکری قیادت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ احکامات صادر کرنے کی بجائے، وزیرِ اعلیٰ کی پشت پر وہ کھڑے ہو گئے۔ ایف سی اور پولیس کے لیے بہترین افسروں کا انتخاب کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ پختون خوا میں عمران خان پولیس کو غیر سیاسی بنانے پر ڈٹ گئے اور اس کے نتائج سامنے ہیں۔ پروردگارِ عالم ایک ذرّہ خلوص بھی ضائع نہیں کرتا۔ پنجاب اور سندھ میں ایسی کوئی کوشش کبھی تھی ہی نہیں۔ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف ہر دو تین ماہ بعد ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں: پولیس کلچر بدل دیا جائے گا۔ اپنے طویل دورِ اقتدار میں پٹوار کلچر وہ پہلے ہی بدل چکے۔ ارے بھائی یہ کوئی قمیض ہے، جو نئی خریدی جائے گی؟ یہ عمارت کا رنگ ہے، جو تبدیل کر دیا جائے گا؟ بار بار چیف آف آرمی سٹاف نے جتلایا ہے کہ سول ڈھانچہ کہنہ، فرسودہ اور ناکردہ کار ہے۔ سول سروس تباہ ہو چکی۔ چھوٹی عدالتوں میں انصاف سرِ عام بکتا ہے۔ اس کارِ خیر میں وکیل پوری طرح شریک ہیں۔ میڈیا کی ترجیح ریٹنگ ہے۔ انارکی ہے، یہ انارکی۔ کب تک معاملہ اس طرح چلے گا؟ نہیں حضور، ہرگز نہ چلے گا۔ ع
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
پسِ تحریر: کراچی کے تاجر کور کمانڈر سے ملے اور انتظامیہ پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا۔ زرداری صاحب کو کس چیز کا انتظار ہے؟