آپ کی ناک تلے دہشت گرد پھلتے پھولتے رہے۔ آپ کی ناک تلے ملک دشمن این جی اوز فروغ پاتی رہیں۔ تقریروں سے‘ میٹرو سے‘ موٹروے سے آپ ہمیں بہلاتے رہے۔ کب تک بہلاتے رہیں گے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ بجٹ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ صرف زائد رقوم مہیا کر دینے سے نہ کوئی محکمہ سنورتا ہے اور نہ عام آدمی کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ اس کی بہترین یا بدترین مثالیں‘ خادم پنجاب کے سات سالہ اقتدار میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سستی روٹی کا انجام کیا ہوا؟ کئی بار وہ کہانی میں لکھ چکا کہ تحریک انصاف پنجاب کے صدر احسن رشید نے‘ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے‘ سستے تنور کھولنے کا فیصلہ کیا‘ روٹی جب دو سے تین روپے کی ہو گئی۔ لاہور میں پچاس ساٹھ تنور انہوں نے کھولے ہوں گے کہ میاں شہبازشریف پریشان ہو گئے۔ اربوں روپے انہوں نے سستی روٹی کے لیے مختص کر دیے اور سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد اس میں کھپا دی۔ زیادہ سے زیادہ دو تین فیصد آبادی کو اس سے فائدہ پہنچا ہو گا‘ بالآخر دو برس کے بعد یہ نظام سمیٹ دینا پڑا۔
ایک دن بیٹھے بٹھائے پولیس کی تنخواہیں انہوں نے دو گنی کردیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ تھانوں کا ماحول کیا بدل گیا؟ رشوت ستانی کیا کم ہوئی؟ عام شہریوں کے ساتھ پولیس کے طرزِ عمل میں ایک ذرا سی تبدیلی بھی رونما ہوئی؟ بارہا توجہ دلائی گئی کہ معمولی جرائم ہی نہیں دہشت گردی کے ختم کرنے میں بھی پولیس کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کو کتنا ہی بہتر بنا لیا جائے‘ ایک خاص حد سے آگے وہ نہیں جا سکتیں۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ جرم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا‘ مجرم اگر خوف زدہ نہ ہوں۔ اس کے لیے پولیس کی بھرتی‘ تربیت اور تقرر کا نظام بہتر بنانے کی
ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا کوئی نظام موجود ہی نہیں۔ پنجاب کی حد تک بھرتی میں اب بہتری ہے مگر تربیت وہی پرانی‘ تقرر کا وہی شاہانہ انداز۔ ڈسکہ کا حادثہ ہوا تو اس موضوع پر ایک ذرا سی تحقیق کی کہ کیا پولیس افسروں کو اپنے اعصاب قابو میں رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ساری دنیا کے برعکس انہیں اس موضوع پر کچھ پڑھایا‘ سکھایا نہیں جاتا۔ حالانکہ پاکستان میں اس کی ضرورت شاید سب سے زیادہ ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری اپنی جگہ‘ بے سمت معاشرہ ہیجان کا شکار ہے۔ ہمہ وقت سیاسی لیڈر ایک دوسرے کی کردار کشی کے در پے رہتے ہیں۔ تعلیم ناقص ہے اور ہر سال تعلیمی اداروں سے بے روزگاروں کی فوجیں نکلتی ہیں۔ ایک وہ مہنگے انگریزی سکول ہیں‘ جہاں تعلیم پانے والے بچے اپنے ملک اور معاشرے سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ ان میں سے ہر ایک مغرب میں جا بسنے کا آرزو مند ہوتا ہے... آدھے تیتر‘ آدھے بٹیر۔
دینی مدارس کے ''طالبان‘‘ ہیں۔ صدیوں پرانے قبائلی ماحول میں جیتے ہیں۔ انہیں تعلیم دینے والے اساتذہ کی تنخواہیں شرمناک حد تک کم ہیں۔ بعض مدارس کے منتظم پجیرو حتیٰ کہ لینڈ کروزر گاڑیوں میں شاد گھومتے ہیں۔ کانفرنسوں میں شرکت کرتے اور فتوے جاری کرتے ہیں کہ شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کو خلع کا حق نہیں۔ مدارس سے فیض پانے والے اکثر بچے فرقہ واریت پھیلانے کے لیے عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔ ملازمت کر سکتے ہیں اور نہ کاروبار۔ ان میں سے ہر ایک کو امامت کے لیے مسجد درکار ہوتی ہے یا مدرسہ۔ مفتی محمود مرحوم نے کہا تھا: ہم وہ لوگ پیدا کرتے ہیں جو معاشرے کا حصہ ہی نہیں بن سکتے۔ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کا وہ قول اس پر یاد آتا ہے: تمام دانائی کا نصف یہ ہے کہ دوسروں میں گھل مل کر رہا جائے۔
پھر سرکاری سکول ہیں‘ مبلغ 65000۔ 27000 میں ضروری سہولیات مہیا نہیں۔ کہیں فرنیچر نہیں‘ کوئی ٹائلٹ سے محروم ہے‘ بعض میں تو پینے کا پانی اور تختہ سیاہ تک نہیں۔ اس زمانے میں جب تعلیم کمپیوٹر پر دی جاتی ہے‘ ان سکولوں اور کالجوں سے نکلنے والے بچے اردو زبان کے چند جملے بھی لکھ نہیں سکتے۔ 99فیصد گریجویٹس کا حال یہ ہے کہ وہ اس عبارت کا پروف نہ پڑھ سکیں گے۔
ایک کے بعد گنواروں کی دوسری کھیپ میدان میں اترتی ہے۔ سات برس میں خادم پنجاب نے ان کے لیے کیا کیا کہ اب 320 ارب روپے سے معجزہ برپا ہوگا؟ اول تو یہ رقم ناکافی ہے‘ ثانیاً اس کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اساتذہ کی تربیت کا کوئی حقیقی نظام موجود نہیں۔ ایسا نہیں یہ کام ممکن نہ ہو۔ شام کے وقت اساتذہ کو پڑھایا جا سکتا ہے۔ گرمیوں کی طویل تعطیلات میں بھی۔ سرکار والا تبار کی توجہ مگر آزادی چوک پر ہے‘ میٹرو پر‘ موٹروے پر۔ اگر ایک پوری قوم جاہل کی جاہل رہ گئی تو شاندار سڑکیں‘ پل‘ میٹرو اور موٹروے کس کام کی؟
ججوں کی تنخواہیں بھی خادم پنجاب نے دو گنا کردی تھیں۔ کیا عدالتوں میں اب انصاف ملتا ہے؟ کیا اب بھی مقدمات سالہا سال اسی طرح رینگتے نہیں رہتے؟ کیا اب بھی نچلی عدلیہ اسی طرح کرپشن کا گڑھ نہیں؟ عدالتوں میں زیر سماعت 70 فیصد مقدمات کا تعلق پولیس اور پٹوار سے ہوتا ہے۔ اگر پولیس کی اصلاح کی جا سکتی۔ اگر پٹواری کی نگرانی ہوتی جس طرح پختون خوا میں ہے۔ اگر زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کردیا جاتا تو مقدمات نصف رہ جاتے۔ اگر جھوٹا مقدمہ دائر کرنے پر سزا ہو تو شاید بتدریج ایک تہائی سے بھی کم رہ جائیں... پروا مگر کس کو ہے؟ پورے پنجاب کا ریکارڈ 180 دن میں کمپیوٹرائزڈ ہو سکتا ہے۔ سات سال میں کیوں نہ ہو سکا؟
وزیراعلیٰ شہبازشریف کا مزاج یہ ہے کہ... بگولا رقص میں رہتا ہے‘ صحرا میں نہیں رہتا۔ فرمایا: میٹرو بنانا اگر جرم ہے تو سو بار میں کروں گا۔ شوق سے کیجیے۔ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا‘ بجھائے جا۔ اللہ نے آپ کو نہ صرف اقتدار بخشا ہے بلکہ دانش و تدبر سے محروم اپوزیشن بھی۔ من مانی کیجیے اور ڈٹ کر کیجیے۔ آپ کا فیصلہ اگر یہی ہے کہ بس اپنا دل ''پشاوری‘‘ کرنے کے لیے فیصلے صادر کریں گے تو آپ کو روکنے والا کون ہے۔ بس ایک یہ بات کہ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ ایک دن آئے گا کہ بھٹو خاندان کی طرح آپ بھی پچھتا رہے ہوں گے۔ ہمارا کیا ہے۔ ہماری ہزار نسلوں نے غربت‘ محرومی‘ ناانصافی اور ملوکیت میں پرورش پائی ہے۔ چندے اور سہی۔ کوئی دن جاتا ہے کہ پھر سے وہی منظر ہوگا۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو‘ آسماں جیسے
اللہ دیکھ رہا ہے اور اس کے بندے بھی۔ سڑکوں اور پلوں کا پورا بجٹ صرف ہو گیا۔ 116 کے 116 ارب۔ باقی ترقیاتی بجٹ آدھا بھی خرچ نہ ہو سکا؟ کاشتکار برباد ہوئے۔ چاول 2600 کی بجائے 1300 پر بکا۔ فی ایکڑ 5 ہزار زر تلافی ادا کرنے کا آپ نے وعدہ کیا۔ کس کو دیا آپ نے؟ گندم کھلیانوں میں سڑتی رہی۔ اکثر کو ایک بوری بھی رشوت کے بغیر نہ ملی۔ زرعی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ کسان کی حالت چار فصلوں سے سدھر سکتی ہے۔ آلو‘ پیاز اگانے سے یا زیتون اور انگور کے باغات سے۔ اس کی آمدن دس گنا تک بڑھ سکتی ہے۔ اس کے لیے آپ نے کیا کیا؟ کسان کی رہنمائی کے لیے کوئی ایک قدم؟ لچھے دار تقریروں سے دنیا بدل سکتی ہے تو ضرور آپ کا ذکر شیر شاہ سوری کے ساتھ ہوگا۔ باتیں بنانے میں تو رحمن ملک بھی آپ سے کم نہیں۔
برسوں سے معیشت دان چیخ رہے ہیں کہ تعمیرات کے ذریعے تیزی سے قومی آمدن میں دو فیصد سالانہ اضافہ ممکن ہے۔ آپ سنتے کیوں نہیں؟ ایک زمانے سے چیخ و پکار ہے کہ ٹیکس وصولی میں کم از کم سو فیصد اضافہ ممکن ہے۔ ٹیکس تو آپ کیا لیں گے‘ آپ کے چہیتے تاجر‘ بروقت دکانیں بند کرنے پر آمادہ نہیں۔ کیوں ہوں؟ وہ آپ کے ووٹر ہیں‘ ہم تو فقط رعایا۔
آپ کی ناک تلے دہشت گرد پھلتے پھولتے رہے۔ آپ کی ناک تلے ملک دشمن این جی اوز فروغ پاتی رہیں۔ تقریروں سے‘ میٹرو سے‘ موٹروے سے آپ ہمیں بہلاتے رہے۔ کب تک بہلاتے رہیں گے؟