اس طالب علم کا اندازہ یہ ہے کہ اگلے تین برس میں سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔ اگر نہیں تو زیادہ سے زیادہ پانچ چھ برس میں۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
کیا عجب کہ ملک کا سیاسی منظر‘ اگلے چند برس میں یکسر بدل جائے۔ جس تیزی کے ساتھ تحریک انصاف پروان چڑھی‘ پیپلز پارٹی تحلیل ہوئی‘ اب متحدہ جس طرح موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے‘ حکمران مسلم لیگ کو جو چیلنج درپیش ہیں۔ اس کے جو المناک تضادات ہیں‘ آخر کار اسے وہ کہاں لے جائیں گے۔
آدمی جلد باز ہے۔ گاہے اس طرح کے لوگ بھی تعجیل کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ جن سے عاقبت اندیشی اور دانائی کی امید کی جاتی ہے۔ ہمایوں اختر خان اور ہارون اختر خان نے اپنے خیرخواہوں کی سنی ہوتی تو شاید وہ انہیں شریف خاندان سے وابستہ ہونے کا مشورہ نہ دیتے۔ ہمایوں اختر کے جوشِ عمل اور تجزیہ کرنے‘ ہارون اختر کی غیر معمولی استعداد کا میں بہت مداح ہوں۔ جھوٹ تو کیا ہارون خان کو میں نے کبھی بہانہ تراشتے نہیں دیکھا۔ ان کم یاب لوگوں میں سے وہ ایک ہیں‘ جو بات کو ٹالنے کی کوشش بھی کم ہی کرتے ہیں۔ وزیر تجارت کی حیثیت سے ہمایوں اختر کی کارکردگی غیر معمولی تھی۔ پانچ برس میں برآمدات میں دو گنا تک اضافہ ہوا؛ اگرچہ یہ ان کی کاوشوں کا نتیجہ نہ تھا بلکہ حکومت اور صنعتی شعبے کی مجموعی کارکردگی کا۔ تاہم ان کی جگہ کوئی دوسرا وزیر اگر ہوتا تو شاید نتیجہ ایسا شاندار نہ ہوتا۔ اقتصادی حرکیات کا وہ ادراک رکھتے ہیں اور ان سے زیادہ ہارون خان۔
وسیع تر تناظر میں زیادہ بہتر تجزیہ کرنے میں ہارون اختر خان نواز حکومت کی مدد کر سکتے ہیں۔ وہ ایک صاف ستھرے آدمی ہیں مگر اس تجزیے کا بہت محدود سا فائدہ ہی ملک کو پہنچ سکتا ہے۔ آخری تجزیے میں ایک خاندان کی حکومت ہے۔ زرداری صاحب کی طرح۔ معاشی پالیسیوں کی تشکیل پہ فیصلہ کن میاں محمد نوازشریف ہیں یا ان کے سمدھی زاہد عابد اسحق ڈار۔ وہ ناراض ہو جاتے ہیں‘ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ان کا سرمایہ سمندر پار کیوں ہے۔ بگڑ کر وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کا نہیں یہ ان کے فرزندوں کا کاروبار ہے۔ منی لانڈرنگ کے سلسلے میں‘ ایک عدالت میں دیا گیا ان کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔ احتساب کا پہیہ حرکت کرتا ہوا ان تک پہنچے گا تو انہیں جواب دینا ہوگا۔ حساب دینا ہوگا۔ سب بندوبست دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ انسانی تقدیروں کے فیصلے زمین نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔
آجائو گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
طوفانی موسم میں اس جہاز میں آدمی کوسوار نہیں ہونا چاہیے‘ جس کے ڈوبنے کا اندیشہ ہو۔ اقتدار کی کشش لیکن بڑی ہی خوفناک ہوتی ہے۔ لوہے کے باریک ذرات‘ جس طرح مقناطیس کی مزاحمت نہیں کر سکتے‘ غلبے کی انسانی جبلت کبھی اچھے بھلوں کو تنکا سا کر دیتی ہے‘ آندھی جسے اڑا لے جائے۔ سیاستدانوں کا تو ذکر ہی کیا۔ تاریخ کی شہادت ہے کہ دربار میں بار پانے کی تمنا اہل علم تک کو سبکسار کرتی رہی ؎
متاعِ دین و ایماں لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی
صوفیا یہ کہتے ہیں کہ سب سے مشکل کام اپنے باطن کو ٹٹولنے کا ہوتا ہے‘ خود اپنا سامنا کرنے کا۔ اپنے باطن میں اتر کر اپنی خامیوں کا سراغ لگانا اور پھر ان سے نجات کی منصوبہ بندی کرنا۔ علم کے باوجود‘ ادراک کے باوجود آدمی حجاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ دولت اور اختیار ہی نہیں‘ حبِ جاہ‘ مقبولیت کی تمنا‘ دوسروں کے مقابل ممتاز ہونے کی آرزو‘ اپنے تعصبات کی آبیاری‘ کتنے ہی خوش نما فریب اس دنیا میں ہوتے ہیں۔ ایک لحظہ ذہنی طور پر آدمی پھسلتا ہے تو پھسلتا ہی چلا جاتا ہے۔ قرآن کریم اسی لیے یہ قرار دیتا ہے کہ صرف اہلِ علم ہی‘ خشیتِ الٰہی کے سزاوار ہوتے ہیں۔ پھر یہ تلقین کرتا ہے کہ الجھ جائو تو اہلِ ذکر کے پاس جائو۔ وہ جو اللہ کو دائم یاد رکھتے ہیں۔ پیہم جو اپنے آپ سے برسرِ جنگ رہتے ہیں۔ مشرق کا عظیم شاعر‘ قرآنِ کریم کا وہ عظیم طالب علم‘ اقبال ان میں سے ایک تھا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری نے ایک بار کہا تھا: بابو لوگو! قرآن پڑھا کرو۔ سید احمد شہید کی طرح نہیں تو کم ا ز کم اقبال کی طرح۔ اس نے قرآن پڑھا تو ہندوستان کے بت کدے میں اللہ اکبر کی صدا ہو گیا۔ نیک طینت مگر سادہ اطوار خطیب کو مغالطہ ہوا۔ اقبالؔ قرآن کو اس سے زیادہ سمجھتے تھے‘ جیسا کہ ان کے ہم عصر علماء اور ان کے پیش رو۔ وہ گداز اور رچائو‘ وہ خاکساری‘ جس نے علمی مجدد کے مقام پر انہیں فائز کیا‘ اسی کی دین تھی... اور انہوں نے یہ کہا تھا۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
برسر تذکرہ اقبال کی فکر خامیوں سے پاک نہیں۔ ہم ایسے تو نہیں مگر اہلِ علم ایسے بھی ہیں جو ان پر نقد کرنے کے اہل ہیں؛ بایں ہمہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے سکالر تھے۔ انکسار ان میں ایسا تھا کہ جس سے محبت کی‘ اس پہ مر مٹے‘ مثلاً ان کا یہ ارشاد کہ؎
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں‘ وہی تبریز ہے ساقی
بخدا عظمتِ علم میں مولانا روم سے وہ کم نہ تھے مگر وہ ان کی حیرت انگیز سادگی۔ تہمد باندھے اور بنیان پہنے‘ چارپائی پہ وہ بیٹھے رہتے اور فکرو نظر کے موتی رولتے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ''زندہ رود‘‘ اس عظمت کی ایک عمدہ تصویر کشتی ہے۔ ہاں! مگر مفکر کے آخری مہ و سال کے بارے میں ڈاکٹر چغتائی کی تصنیف۔ کہیں کہیں ایسے لعل و گہر اس میں ہیں کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ انسانی فکر کیا اس قدر رسا بھی ہو سکتی ہے۔
بات کہیں اور نکل گئی۔ بدلتے سیاسی منظرنامے کا ذکر تھا‘ اسی حوالے سے اقبال یاد آئے۔ شیطان کی زبان سے انہوں نے کہلوایا ؎
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہ افلاک
سیاست کار‘ سب کے سب سیہ کار نہیں ہوتے۔ تاریخ کی شہادت‘ تاہم یہ ہے کہ افضل و اعلیٰ بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بیشتر سیاستدان ادنیٰ قسم کے کیوں ہیں۔ ہزاروں برس کی ملوکیت ہے اور صدیوں کی غلامی۔ تعلیم کبھی فروغ نہ پا سکی۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے عملی سیاست میں آتے نہیں۔ کسی قوم کا مزاج صدیوں میں بنتا ہے اور آسانی سے بدلتا نہیں۔
ایک واقعہ بہرحال رونما ہو چکا۔ کپتان نے کتنی ہی غلطیاں کی ہوں‘ وہ ایک عظیم عمل انگیز (Catalyst) ثابت ہوا ہے۔ لاکھوں نوجوان اس کے طفیل سیاست میں آئے۔ اگرچہ اکثر لیڈر وہی روایتی ہیں۔ قیادت اسی طرح کی۔ مگر تابہ کے؟ تحریک انصاف ان کی خیرہ کن توانائی سے فائدہ نہ اٹھا سکی تو کوئی اور اٹھا لے گا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا بچنا محال ہے۔ اتنی بیماریوں کے ساتھ کوئی نہیں جیتا۔ ن لیگ کے امراض بھی کم و بیش وہی ہیں‘ جو پیپلز پارٹی کے ہیں۔ شریف خاندان کو اپنا کاروبار ملک سے زیادہ عزیز ہے۔ اس طالب علم کا اندازہ یہ ہے کہ اگلے تین برس میں سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔ اگر نہیں تو زیادہ سے زیادہ پانچ چھ برس میں۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں