تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی۔ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف بنایا نہیں جا سکتا۔ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ مکافات عمل کا قانون اٹل ہے اور اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
عمران خان بال بال بچے تو ایک دوست کو انہوں نے پیغام بھیجا: میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ خوشامدیوں کے جلو میں‘ آدمی اگر خود کو برگزیدہ سمجھنے لگے؟ اللہ بے نیاز ہے‘ کسی کی اسے ضرورت نہیں۔ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کوئی اپنے ماں باپ چُنتا ہے اور نہ ماحول‘ جینیاتی اثرات اور نہ وہ لوگ جو اس کے رجحانات کی تشکیل کریں گے۔ آدمی کا کوئی ذاتی وصف ہوتا ہے اور نہ کارنامہ۔ جو کچھ بھی ہے‘ اللہ کی عطا ہے۔
غلامی کی صدیوں سے گزرنے والی ایشیائی سرزمینوں میں جہاں بندہ و آقا کی تمیز غالب رہتی ہے‘ احساس کمتری سے شاذ ہی کوئی بچتا ہے۔ مبالغہ آمیز ستائش اسی لیے خوش آتی ہے۔ بڑے بڑوں کو اس مرض میں ہم نے مبتلا دیکھا۔ کبھی لکھا تو پچھلی صدی کے ''اکابر‘‘ سے متعلق چند نکات عرض کروں گا۔
اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب دو ممتاز مثالیں ہیں۔ اپنے گرد تقدس کا ہالہ انہوں نے بنا۔ بہت سے لوگ ان سے متاثر ہیں جو نہیں جانتے کہ تصوف کیا ہے۔ وہ تو خیر پڑھے لکھے آدمی تھے۔ حسن کلام ان کا شعار‘ داستان گو۔ جہلم کے عرفان الحق نے ایک تماشا بہت دنوں سے رچا رکھا ہے۔ عمران خان سمیت اچھے خاصے لوگ اس کے ہاتھ سے الّو بنے۔
احساس کمتری‘ دعوے پر آمادہ کرتا ہے۔ مقبولیت کی پاگل کر دینے والی تمنا‘ دولت اور اقتدار کی ہوس سے کم نہیں ہوتی۔ یہ ابوالکلام ایسے شخص کو اپنا قصیدہ لکھنے پر اکساتی ہے۔ ایک مذہبی مکتبِ فکر‘ اصلاً جو ایک سیاسی تحریک ہے‘ نسل در نسل مقدسین کے گروہ جنم دیتا رہا۔ ایک ممتاز عالم دین نے‘ بوجوہ جن کا احترام ہے‘ ایک بار مجھ سے کہا: اساتذہ ہی کیا‘ وہاں تمام طالب علم اور چپڑاسی تک اولیا اللہ ہوا کرتے تھے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ مدینہ منورہ تک میں عبداللہ ابن ابی موجود تھے۔
کردار کا تعلق خطے‘ قبیلے اور مکتب فکر سے ہوتا ہے‘ نہ خاندان اور نسل سے۔ یہ ایک شخصی چیز ہے۔ پانچ سات بھائی بہنوں میں سے‘ ہر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ شاذو نادر ہے کہ کسی خاندان میں سب کے سب غلط کار ہوں یا سب کے سب حسن اخلاق کے امین۔ احسن رشید مرحوم کے درجات اللہ بلند کرے۔ کہا جاتا تھا کہ ان کا پورا کنبہ ہی اُجلا ہے۔ محبوب اور متواضع‘ منکسر اور صداقت شعار۔ اسحق ڈار ان کے گھر گئے اور دیر تک بیٹھے رہے۔ فرمایا: اب کی بار ہم نے کرپشن نہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ناچیز نے ان سے کہا: حضور! عادات بھی کہیں بدلتی ہیں۔
میری تجویز پر درجنوں تنور انہوں نے کھول دیئے۔ تبھی شہباز شریف نے سستی روٹی منصوبے کا ڈول ڈالا۔ اربوں روپے برباد کر دیئے۔ اس کام میں شریف خاندان کا ثانی کوئی نہیں۔ دوگنی قیمت پر موٹروے‘ غیر ضروری میٹرو‘ گلگت بلتستان کا الیکشن جیتنے کے لیے ساٹھ ستر ارب کے وعدے۔ اگلے برس آزاد کشمیر کا الیکشن ہے۔ تین چار سو ارب ان پہ برباد ہو سکتے ہیں۔ اتفاق فائونڈری قومیائے جانے کے بعد‘ وہ عام سے کاروباری تھے۔ جنرلوں کی سرپرستی میں اقتدار پانے کے بعد سرکاری رسوخ کے بل پر دولت کے انبار جمع کیے۔ اندازہ ہے کہ تین سو ارب سے زیادہ۔ اس کے باوجود اصرار ان کا یہ ہے کہ ان کا دامن‘ دامنِ مریم ہے۔ شمار ان کا مقدسین میں ہونا چاہیے۔
فرمایا: ہم شریف خاندان والے کرپشن نہیں کرتے۔ بجا ارشاد۔ پھر جنرل پرویز مشرف سے خفیہ سمجھوتے کی ضرورت کیوں پڑی؟ وہ معاہدہ کیا تھا‘ جس کے تحت حمزہ شریف ہر تین ماہ بعد پانچ کروڑ کی قسط بینک میں جمع کرایا کرتے؟ ماڈل ٹائون لاہور کے مکان سرکار کے حوالے کیوں کیے؟... بعدازاں جو شاہ عبداللہ کی عنایت سے واپس ملے۔
یہ 2010ء کا دسمبر تھا۔ ساتویں مالیاتی ایوارڈ کے لیے چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ نیلے پانیوں والے گوادر پہنچے۔ میاں شہباز شریف نے رئوف کلاسرا کو اگلی صبح کے ناشتے کی دعوت دی۔ پنج ستارہ ہوٹل میں‘ جس کے کشادہ کمرے پر نیلے رنگ کا غلبہ تھا اور الگ سے جس میں ایک ڈرائنگ روم تھا۔فواکہات‘پھلوں کا رس اور انواع و اقسام کی نعمتیں۔ اخبار نویس سے انہوں نے کہا: اتفاق فائونڈری کے بارے میں جو کہانی آپ نے لکھی ہے‘ وہ درست نہیں۔ تین چار ارب کے ہم مقروض ہیں مگر فائونڈری کی زمین دس ارب روپے مالیت کی ہے‘ وہ ہم بینکوں کے حوالے کر چکے۔ اس زمین کا خریدار کوئی نہ تھا۔ شریف خاندان سے لوگ خوف زدہ تھے۔
''قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ سکیم کے ہنگام‘ میاں محمد نواز شریف نے یہ ادارہ بینکوں کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فوراً ہی رشتہ داروں نے نالش کر دی کہ ہمارا بھی اس میں حصہ تھا۔ شہباز شریف کبھی ان دنوں کی کہانی کہتے ہیں تو ان کا لہجہ رنج آلود ہو جاتا ہے۔ پانچ ارب کی ادائیگی کا فیصلہ اس وقت ہوا جب اس زمین کی قیمت بارہ ارب سے زائد ہو چکی تھی۔ قرض واپس کر کے سات ارب کما لیے۔
قرض کا بڑا حصہ نیشنل بینک آف پاکستان کا تھا‘ جس کے سربراہ کا تقرر وزیر اعظم فرماتے ہیں۔ اسی نے فیصلہ صادر کیا۔ اب کی بار یہ ایک دانا بھتیجے کی فرمائش پر ہوا... تایا جان کو جو بہت عزیز ہے‘ گاہے ان کے پائوں دباتا اور انہی کے کمرے میں سو رہتا ہے۔
عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں شریف خاندان کے خلاف آسانی سے کوئی فیصلہ صادر نہیں ہو سکتا۔ غالباً 2004ء میں شہباز شریف نے 23 ججوں کے نام بھجوائے تو سلمان تاثیر ڈٹ گئے۔ صدر زرداری سے انہوں نے کہا: ان 23 میں سے 12 کشمیری ہیں۔ وہ اپنے تحفظ کا انتظام کر رہے ہیں۔ شریف خاندان ہی کیا‘ سبھی نے اس قوم کو زخم دیئے اور سبھی معصوم بنتے ہیں۔ بعض تو انقلابی بھی‘ ''شہیدوں‘‘ کے وارث‘ جو اقتدار کی جنگ میں مارے گئے۔
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
میاں محمد شہباز شریف نے یہ کہا: قرض معاف کرنے والے چودھریوں (چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی؟) اور ترینوں (جہانگیر ترین؟) کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ہونی چاہئیں۔ 1996ء میں میاں محمد نواز شریف صدر لغاری کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے: براہ کرم قرض معاف کرانے والوں پر الیکشن میں حصہ لینے کی پابندی ختم کر دی جائے۔ ان کی پارٹی میں ایسے لیڈروں کی ایک قابل ذکر تعداد تھی۔ لغاری صاحب کے گورنر شاہد حامد کے ریکارڈ پر ہیں۔
کبھی کسی نے سنا ہے کہ ایک ملک کا وزیر اعظم غیر قانونی ذرائع سے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرے؟ پھر اس کا سمدھی اور اس کا وزیر خزانہ عدالت میں اس کا اعتراف کرے کہ یہ کارنامہ اس نے انجام دیا۔ بیرون ملک دھڑلے سے اپنا کاروبار وہ جاری رکھے۔ اس کی اولاد وہاں نگراں ہو۔ سرکاری طور پر ان ممالک کے وہ دورے کیا کرے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج اور کیا ہوتا ہے؟
سب قصوروار ہیں۔ چودھری برادران‘ زرداری خانوادہ اور خود شریف خاندان بھی۔ پارسائی کا دعویٰ قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ؎
اتنا نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
اپنی غلطیوں کا اعتراف کیجیے‘ سمندر پار سے اپنی دولت واپس لائیے۔ کاروبار اور سیاست میں ایک کا انتخاب کیجیے۔ سیاست کرنی ہے تو کاروبار اپنی اولاد اور ملازمین کے سپرد کر دیجئے۔ یہ بہت کشادہ ظفر قوم ہے۔ معاف کر دے گی۔ احمقوں کا ٹولہ وہ بہرحال نہیں۔ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۔
تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی۔ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف بنایا نہیں جا سکتا۔ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ مکافات عمل کا قانون اٹل ہے اور اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔