سانحۂ قصور کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان رسوا ہوا۔ واقعہ سنگین اور شرمناک ہے۔ مکمل اور منصفانہ تحقیق اس کی ہونی چاہئے کہ مجرم کیفرکردار کو پہنچیں۔ اس قدر چیخ و پکار کے بعد کچھ نہ کچھ امید بھی کی جا سکتی ہے۔ بعض باتیں البتہ سمجھ سے بالاتر ہیں‘ مثلاً عمران خان کا یہ بیان کہ پولیس افسر اور سیاستدان اس میں ملوث ہیں۔ کون سے سیاستدان اور کون سے افسر؟ مثلاً جرم کا شکار ہونے والوں کی تعداد 284ہے۔ اس تعداد کا تعیّن کس طرح کیا گیا؟ اسی طرح ویڈیو کلپوں کی تعداد بھی مبالغہ آمیز ہے۔ ناقابل فہم یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی طرف سے نوٹس لئے جانے‘ مجرموں کو کسی حال میں معاف نہ کرنے اور عدالتی تحقیقات کے بعد وزیراعظم کو بیان داغنے کی ضرورت کیا تھی؟۔
کوئی بے حس یا احمق ہی معاملے کی سنگینی سے انکار کر سکتا ہے مگر واقعہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کے ایک حصّے نے مبالغہ آرائی کی انتہاء کردی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں ملک کی ایک گھنائونی تصویر ابھری۔ دنیا بھر میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ شاید مغرب میں اس سے کہیں زیادہ۔ لازم ہے کہ واقعات اور اعدادوشمار پوری صحت سے بیان کئے جائیں۔ ہدف یہ ہونا چاہئے کہ حادثے کی نوعیت کو سمجھ لیا جائے۔ عوامل کا ادراک کیا جائے تاکہ سدّباب کی راہ کھلے اور مجرم بچ نہ پائیں۔ بے بسی اور لاچارگی کا شکار ہو کر چیخ و پکار سے کیا حاصل؟۔
عالم عرب کے مشہور اور معتبر چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ کے بنیادی نکات یہ ہیں: صوبہ پنجاب کے افسروں نے وفاقی سطح پر ملک کی تاریخ سے سب سے بڑے سکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس میں تقریباً تین سو بچے ملّوث ہیں۔ واقعات کی 400 ویڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں۔ ایک چھ سالہ کمسن سمیت زیادہ تر بچوں کی عمریں 14 سال سے کم ہیں۔ ویڈیوز کی ہزاروں کاپیاں بنائی گئیں اور حسین خان والا گائوں میں فروخت کی گئیں۔ سانحہ اس وقت نمایاں ہوا جب پولیس سے المیے کا شکار ہونے والے بچوں کے والدین کا تصادم ہوا۔ اس لئے کہ حکومت مجرموں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
الجزیرہ کی رپورٹ مبالغہ آمیز ہی نہیں بلکہ بعض اعتبار سے صریح کذب بیانی بھی ‘ اگرچہ اس کے ذمہ دار خود پاکستان کے بعض پرائیویٹ ٹی وی چینل ہیں۔ سنسنی پھیلانے یا شاید دبائو ڈالنے کی خواہش میں جنہوں نے تحقیق اور احتیاط کے تمام تقاضے بھلا دیئے۔ کس قدر ظالمانہ الزام ہے کہ ملزموں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ۔ سات کے سات ملزم گرفتار ہیں‘ البتہ ان میں سے بعض کے بزرگوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی‘ پولیس نے جسے منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے‘ جب تک یہ سطور شائع ہوں گی شاید ان کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہوںگی۔ معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ باخبر لوگوں کے مطابق ملوث نوجوانوں کے بزرگوں کو محض جذبۂ اِنتقام کے تحت پھنسایا گیا۔ قصورواروں کا بچ نکلنا ایک المیہ ہوتا ہے مگر بے قصوروں کو موردالزام ٹھہرانا‘ رسوا کرنا اور ممکنہ طورپر سزا دلوانا کیا اتنا ہی بڑا المیہ نہیں؟۔
پیر کا دن اس ناچیز نے تحقیق میں صرف کیا۔ اس نے پولیس افسروں کو ایک دوسرے سے کہتے سنا کہ حکومت اور میڈیا کے دبائو میں ہم بعض بے گناہوں کو اذیت پہنچانے کے مرتکب ہیں۔ ایک سرکاری افسر نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو صرف اپنی فکر لاحق ہے۔ وہ صرف میڈیا اور اپنے امیّج کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ متاثرین کی تعداد زیادہ سے زیادہ 27 ہو سکتی ہے۔ معلوم نہیں 284 کی داستان کسی نے تراشی ہے۔ اگر بے گناہوں کو سزا دی گئی تو کیا مستقل طور پر قائم رہنے والی دشمنیاں وجود میں نہیں آئیں گی؟ کیا اس طرح قتل و غارت کے واقعات کا اندیشہ نہیں؟۔ اس سوال کے جواب میں ایک پولیس افسر نے یہ کہا جی ہاں‘ مگر ہم میڈیا اور حکومت کے سامنے بے بس ہیں۔ ظلم کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد بھی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہے۔ اب تک صرف سات چہرے شناخت کئے جا سکے۔ اندازہ ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہو سکتے ہیں مگر تین سو کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔چھ سو گھروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گائو ں میں ہزاروں ویڈیو کیسے بک گئیں؟
اگر ایک بچہ بھی ہدف ہوتا تو یہ اذیت ناک تھا‘ ایک قتل سے بھی زیادہ اذیت ناک۔ شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔ وہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں یا جرم کی راہ پر چل نکلتے ہیں مگر واویلا کرنے کے لئے جھوٹ کیوں گھڑا جائے؟۔ ''عجیب قوم ہے‘‘ ایک پولیس افسر نے کہا ''ساری دنیا میں خود کو بدنام کرنے کے درپے‘‘۔ ایک اخبار نویس کا تبصرہ یہ تھا: ''اس بے لگام میڈیا کے ساتھ یہ ملک کیسے چلے گا۔ اس میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا ہوگا‘ اس کی حدود کا تعین کرنا ہوگا‘‘۔ ڈی آئی جی شہزاد سلطان کے مطابق ویڈیوز کی تعداد 30 عدد ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ400 کیسے ہوگئی؟۔
واقعے کا انکشاف 26 مئی کو ہوا‘ جب مبین غازی نام کے ایک شخص نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر سے شکایت کی۔ اسی روز گائوں کی مساجد میں منادی کرا دی گئی‘ کسی نے پولیس کے پاس شکایت درج نہ کرائی۔ 30جون کو بند ٹوٹ گیا اور طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ 94 کنال سرکاری زمین کی خریداری کے تنازع میں ملوث فریقین میں سے ایک نے جب لطیف سرا نامی وکیل کو بتایا کہ ان کے مخالف اس معاملے میں ملوث ہیں۔ 2009ء میں شاملات کی یہ زمین نیلام کردی گئی تھی۔ گائوں کے کچھ لوگ عدالت میں چلے گئے کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اراضی گائوں کی مشترکہ ملکیت تھی۔ بچوں کے لیے کھیل کود کے علاوہ دوسرے اجتماعی مقاصد کے لئے مختص‘مثلاً کسی وقت سکول یا ہسپتال کے لیے ضرورت پڑے۔ بجا طور پر انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ نیلامی کا فیصلہ منسوخ ہونا چاہئے۔ ایک سوال البتہ ہے کہ زمین فروخت کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ شہبازشریف پر عائد ہوتی ہے، ہر چیز بیچ کر جو سرکاری خزانہ پُر کرنے پر تلے تھے تاکہ اپنی ترجیحات کے مطابق دونوں ہاتھوں سے سرمایہ لٹا سکیں۔ خریدنے والوں کا جرم کیا ہے؟ بدقسمتی یہ کہ اسی خاندان کے بعض نوجوانوں پر گھنائونے جرم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ مقدمے کی تیاری کے دوران وکیل صاحب ضروری نکات مرتب فرما رہے تھے تو سرسری طور پر کسی نے یہ حوالہ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر وہ چونکے اور یہ کہا بس اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو مطلوبہ دبائو قائم ہو جائے گا۔
گنڈا سنگھ والا تھانے میں اب تک ایک مقدمہ بھی درج نہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد لین ڈوری لگ گئی۔ یکم جولائی کو مقدمات نمبر190‘ 191 اور 192 درج ہوئے۔ 4 جولائی کو 201‘ 5 جولائی کو مقدمہ نمبر212 اور 13 جولائی کو 218 اور 219 ۔ کیا یہ زمین کی نیلامی سے متعلق مدعیوں کی کاوش کا نتیجہ تھا یا کچھ اور عوامل بروئے کار لائے؟۔ اس سوال کا جواب نہیں ملتا‘ گمان ہے کہ یہ پہلو لازماً اثرانداز ہواہوگا۔ گائوں کا آدمی زمین سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک محدود سے دائرے میں وہ بروئے کار آتا ہے۔ حسد کا جذبہ اس میں زیادہ شدّت سے ابھرتا ہے۔ دشمنی کو وہ برقرار رکھتا ہے‘ اس کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ انسانی تاریخ کے منفرد حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ کبھی کسی گائوں میں کوئی پیغمبر نہ اتارا گیا ہے‘ بیشتر قصبات میں‘ جہاں زندگی زیادہ مرتب اور استوار ہوتی ہے۔
(جاری )