یہ لوحِ محفوظ میں لکھا ہے اور رحمۃ اللعالمینؐ نے پڑھ کر سنا دیا تھا۔ یاد رکھنے کی بات اقبالؔ نے کہی تھی۔ بیچارے نوازشریف اور بیچارے عمران خان اگر ادراک کر سکیں ؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں
کشمیر آزاد ہو کر رہے گا۔عوامی تحریکیں کبھی نہیں مرا کرتیں۔ عزم ان کا کھرا ہے۔ اپنے باطن میں وہ آزاد ہو چکے۔ جب کوئی خوف سے نجات پا لے تو تادیر غلام نہیں رہ سکتا۔ ہر حربہ بھارت نے آزمالیا۔ جعلی الیکشن‘ ہر طرح کے جوڑتوڑ کا‘ ترقیاتی منصوبوں کا‘ جوابی عسکریت کا‘ کرپشن کا۔ سب سے بڑھ کر جبر کا۔ 1989ء سے اب تک شہید ہونے والوں کی کم از کم تعداد ترانوے ہزار ہے۔ آزاد سیاسی رہنمائوں کی زندگیاں دوبھر ہیں۔ قیدو بند تو ہے ہی‘ ہر طرح سے اذیت دی جاتی ہے۔ کشمیر کی پاک باز بیٹیاں دوہری آزمائش میں۔ اپنے شوہروں‘ باپوں‘ بیٹوں اور بھائیوں کی جدائی کا عذاب سہتی ہیں اور وقت آ پڑے تو تن کر ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ گن پائوڈر چھڑک کر کشمیریوں کی مارکیٹیں جلا دی جاتی ہیں اور ان کے گبھرو گرفتار۔ باغ جلا دیئے جاتے ہیں۔ ان کے جو عہدِ آئندہ کے فردوس کا سپنا دیکھتے ہیں۔ سات آٹھ لاکھ فوج! تاریخ میں آبادی کے تناسب سے عساکر کا سب سے بڑا اجتماع۔ ریاست میں رائے شماری کا وعدہ کرتے ہوئے‘ نہرو نے کہا تھا: ''ہم ایک جبری شادی کے آرزو مند نہیں‘‘ پھر مکر گئے۔ بھارتی نیتا اب یہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں پرانی ہو گئیں۔ کیا چیز پرانی ہو گئی؟ انسانوں کا آزاد رہنے کا جواز؟ ووٹ کا حق؟ کیا چیز پرانی ہو گئی؟
کل کی برہم عسکریت کے برعکس آج ایک تعلیم یافتہ نسل میدان میں ہے۔ اس کے انداز جدید ہیں۔ مرعوبیت اس کی کھال میں داخل نہیں ہوتی۔ اکیسویں صدی کے حربوں سے وہ آشنا ہیں‘ جو نتیجہ خیز اور ثمربار ہوں گے۔
آدمی بدلتا ہے‘ مگر نہیں بدلتا۔ آدم زاد کی جبلتیں وہی ہیں۔ اقوام اور افراد میں غلبے کی وہی خواہش‘ انتقام کی وہی تمنا۔ عالمگیر کے عہد میں بھارتی قوم پرستی کا بھوت غاروں سے نکلا اور وحشیانہ ناچ ناچنے لگا۔ تب وہ شیوا جی کی صورت میں متشکل ہوا۔ اس کا تو خیر ایک جواز بھی تھا کہ اقلیت تادیر اکثریت پہ حکومت نہیں کیا کرتی۔ گاندھی تک آتے آتے‘ بھارتی سماج نے بظاہر سیکولرازم اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اپنے باطن میں مگر وہ ہندو ہی رہا۔ سرسید احمد خان نے اس بات کو سمجھ لیا تھا۔ کانگرس وجود میں آئی تو مسلمانوں کو انہوں نے اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ اردو زبان پر اصرار کیا کہ مسلمانوں کا نظریاتی اور ثقافتی وجود مرتب رہے۔ آغازِ کار میں اقبالؔ اور جناح نے کانگرس کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لیا۔ چودھری رحمت علی کی موجودگی میں محمد علی جناح نے کہا تھا: Pakistan? No questionلیکن پھر غیر معمولی بصیرت اور دیانت کے اس آدمی کو اندازہ ہوا کہ کانگرس مسلمانوں کو غلام بنانا چاہتی ہے۔ 1930ء میں اقبال نے بھارت کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں دو مسلمان ریاستوں کا تصور پیش کیا۔ 1938ء میں اس یقین کے ساتھ وہ دنیا سے اٹھے کہ پاکستان بن کر رہے گا۔ لندن سے جناح لوٹ آئے تھے اور اب انہیں قائداعظم کہا جاتا تھا۔ دیوبند سے اقبال کا اختلاف مسلکی نہ تھا۔ اس کے سیاسی ایجنڈے سے پریشان تھے۔ فلسفی کے آخری برسوں کی
روداد پڑھیے تو احساس یہ ہوتا ہے کہ ایک درد کے ساتھ مسلم برصغیر کے بارے میں‘غورو فکر میں وہ ڈوبے رہا کرتے۔ مفکر نے اپنا قرض چکا دیا تھا۔ احساس کمتری کے مارے‘ مایوس اور غلام ہندوستان میں وہ پیدا ہوا تھا‘ اپنی خارا شگاف شاعری سے‘ تاریخ جس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کرتی‘ فکری دنیا کو اس نے بدل ڈالا تھا۔ ان کی زبان اور لب و لہجے کو بھی۔ آزادی ہی نہیں‘ اس نے انہیں ایک نئی اور خالص مذہبی فکر کے احیا کا درس بھی دیا۔ اپنی خودی کی بازیافت‘ قرآن کریم اور مجسم قرآن‘ سرورِ کائناتؐ سے سچی وابستگی کا۔ عصر حاضر کے تقاضوں کا ادراک کرنے‘ ملّا اور ریاکار سیاسی لیڈروں سے خبردار رہنے کا۔
وہ ہندوستانی مسلمانوں کے باپ تھے۔ عطاء اللہ شاہ بخاری آتے مگر اقبال سیاست پر ان سے کبھی بات نہ کرتے۔ کم عمر ہونے کے باوجود ان کے حقّے کی نے پکڑ لیتے اور شغل میں شریک ہو جاتے۔ اقبالؔ ان سے قرآن کریم کی تلاوت سنا کرتے‘ عرب لہجے میں ایک سحر انگیز لحن۔ فلسفی غیر معمولی حسِ مزاح کا حامل تھا۔ اِدھر اُدھر کے موضوعات پر شگفتہ طبعی سے وہ بات کرتا رہتا۔
ایک بار لاہور کے جلسۂ عام میں انہوں نے کہا تھا: بابو لوگو! قرآن پڑھا کرو‘ سید احمد شہید کی طرح نہیں تو اقبالؔ کی طرح‘ جس نے قرآن پڑھا تو ہندوستان کے بت کدے میں اللہ اکبر کی صدا ہو گیا۔ اقبالؔ اپنے ملاقاتی کی سادہ لوحی سے آشنا تھے مگر شاہ جی اپنے عصر کے مفکر کی وسعتِ فکر سے ہرگز نہیں۔ اقبالؔ نے قرآن میں شہید سے زیادہ دل لگایا تھا‘ زیادہ دیر منہمک رہا کرتے۔ صبح کی طویل تلاوت کے علاوہ‘ دن میں سات آٹھ بار۔ مزید برآں وہ اسلام کی علمی روایت‘ تاریخ اور عصری تہذیبوں کو خوب سمجھتے تھے‘ مسلمان‘ جن سے دوچار تھے۔
محمد علی جوہرؔ بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔ اس واقعے کو لطیفے کے طور پر لیا جاتا ہے‘ جب جوہرؔ نے ان سے کہا: تمہاری نظمیں پڑھ کر ہم جیل جا پہنچتے ہیں اور تم یہاں حقہ گڑگڑایا کرتے ہو۔ اقبالؔ اس شعلہ گفتار سے زیادہ جانتے تھے۔ ان کا جواب یہ تھا: محمد علی کیا کبھی قوال کو بھی وجد آتا ہے۔
ہر آدمی کا ایک وظیفہ ہوا کرتا ہے‘ ایک شخصیت اور زندگی کی بساط پر اس کا کردار۔ وہی صلاحیت اسے عطا کی جاتی ہے اور وہی ذمہ داری اسے سونپی جاتی ہے‘ معاشرے کے چمن میں جو اس گل کو روا ہو۔ اسی طرح زندگی اپنے غیر معمولی تنوع میں برپا ہوتی ہے۔ اقبالؔ کا کام فکری رہنمائی تھا۔ وہ اپنے عہد کے علمی مجدد تھے۔ مجدد وہ ہوتا ہے جو ماضی کو سمجھتا ہو‘ حال کے ہر سوال کا جواب دے اور مستقبل کے لیے اشارات چھوڑ جائے۔ کشمیر پر لکھی گئی اقبالؔ کی نظموں کو اس پس منظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔
توڑ اس دستِ جفا کیش کو یا رب جس نے
روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا
اقبالؔ اور جوہر جلد ہی جان ہار گئے‘ چند برس ہی گزرے ہوں گے کہ سری نگر سے ایک طالب علم لاہور آیا۔ وہ ایک مزدور کا بیٹا تھا۔ سکول میں تعلیم دلانے کے وعدے پر اسے بھیجا گیا تھا۔ میزبان نے اسے گھریلو ملازم بنا کر رکھ دیا۔ پون صدی بعد شائع ہونے والی ایک کتاب میں اس نے لکھا کہ شاموں کی تنہائی میں گہرے کرب کا شکار‘ وہ اقبالؔ کے مرقد پر چلا جاتا۔ قطعاً اسے معلوم نہ تھا کہ قبر میں سونے والے کا روحانی مرتبہ کیا ہے‘ مگر یہیں وہ سکون پاتا۔ دیر تک وہ وہاں بیٹھا رہتا تا آنکہ حالات بدلے۔ لوٹ کر وہ گھر گیا‘ پھر پلٹ کر آیا اور یہیں تعلیم پائی۔ اس بچے کا نام علی گیلانی ہے۔ ستر برس سے جو کشمیر کے مقتل میں کھڑا ہے۔ سرسید احمد خان سے علی گیلانی تک‘ نسل در نسل یہ ایک بے مثال جدوجہد ہے‘ شہیدوں کے لہو سے سینچی گئی۔ پاکستان اس کا پہلا ثمر تھا‘ کشمیر انشاء اللہ دوسرا ہوگا۔ پھر اس آویزش کا در کھلے گا‘ بھارتی قیادت آج کل جس کی تیاری کر رہی ہے۔ جنرل صاحبان! وہ جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔ غزوہ ہند کی ختم المرسلینؐ نے پیش گوئی کی تھی اور بشارت دی تھی۔ یہ بات سیکولر کی سمجھ میں نہیں آتی‘ مگر اس کی سمجھ میں تو اور بہت سی باتیں بھی نہیں آتیں۔ قائداعظم اور اقبالؔ بھی اس کے ادراک میں نہیں آتے۔ افغان اور کشمیری مسلمان بھی۔
مسلم برصغیر کا مقدر فنا نہیں‘ ظفرمندی اور عظمت ہے۔ یہ لوحِ محفوظ میں لکھا ہے اور رحمۃ اللعالمینؐ نے پڑھ کر سنا دیا تھا۔ یاد رکھنے کی بات اقبالؔ نے کہی تھی۔ بیچارے نوازشریف اور بیچارے عمران خان اگر ادراک کر سکیں ؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں