سیاست میں ایک دیرپا حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی مزاج اور امنگوں سے جس کا گہرا تعلق ہو۔ کیا عمران خان اس بھید سے واقف ہیں؟
2013ء کے الیکشن میں بڑے پیمانے کی دھاندلی نہیں ہوئی‘ اتنی ہی آشکار حقیقت یہ ہے کہ چند حلقوں میں یقینا ایسا ہوا۔ جہانگیر ترین کے حلقے میں 20 ہزار ووٹر ایسے ہیں‘ جن کے شناختی کارڈ نمبر غلط لکھے گئے۔ کیسے مان لیا جائے کہ انتخابی کارروائی شفّاف تھی۔ نقل کرنے میں تعجیل کا ارتکاب ہو سکتا ہے‘ دوچار‘ ہر پولنگ سٹیشن پر۔ ایک حلقے میں زیادہ سے زیادہ دو تین سو۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں ہوں تو ظاہر ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت۔ ایاز صادق کے حلقے میں بھی سب سے اہم نکتہ یہی تھا‘ 6 ہزار غلط نمبر؛ اگرچہ دوسرے نکات بھی تھے۔ نون لیگ نے جسٹس کاظم ملک پر یلغار کا جو فیصلہ کیا‘ آخری تجزیے میں وہ تباہ کن ثابت ہوا۔ اس کے مزید مضر اثرات سامنے آئیں گے۔ اوفا کانفرنس میں وزیر اعظم کی طرف سے کشمیر کا ذکر گول کرنے پر حیرت ہوئی حیرت۔
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گلِ تر کی صورت
کیا نون لیگ کی قیادت اب بھی قوم کو چکمہ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ بھارت کے ساتھ بات چیت میں قومی مفادات کو بھلایا کیسے جا سکتا ہے۔ فوج نے اگر اظہار کیا تو اندر خانہ مگر اخبار نویس اور سیاستدان پھٹ پڑے۔ وہ سول سوسائٹی بھی‘ جو این جی اوز کی طرح پا بہ زنجیر نہیں۔
تاثر پیدا ہوا کہ بھارت کے معاملے میں وزیر اعظم کچھ زیادہ قابل اعتبار نہیں۔ ایسی برق رفتاری سے دہلی کے ساتھ وہ دوستی کے آرزومند ہیں‘ جس میں حقیقت پسندی کا شائبہ تک نہیں۔ بلوچستان‘ کراچی اور قبائلی پٹی میں‘ بھارت دہشت گردوں کا مددگار
ہے۔ وزیر اعظم مودی نے مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کا برملا اعتراف کیا۔ کشمیر میں قتل عام کے علاوہ‘ سرحدوں کو گرم رکھنے پر وہ تلے ہیں۔ اوفا میں وزیر اعظم کی طرف سے محبت کے مظاہرے کا مطلب کیا تھا؟ دشمن رعایت کیا کرتا ہے اور نہ اسے رعایت دی جاتی ہے۔ مزید برآں خارجہ پالیسی کی اپنی نزاکتیں‘ باریکیاں اور حرکیات ہوتی ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ میاں صاحب کے بھارت کی طرف اس طرح لپکنے کی لم کیا ہے‘ جس طرح بچہ اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے۔ بھارتی تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ ان کی بے تابانہ ملاقاتوں کا مطلب کیا؟ کیا وہ برلا اور ٹاٹا بننے کا خواب دیکھتے ہیں اور وہ بھی بھارت کی کاروباری دنیا کے تعاون سے؟ کیا انہیں کوئی سپنا دکھایا گیا ہے یا امریکہ سمیت مغربی ممالک کا کوئی خفیہ دبائو ہے‘ جو سطح آب پہ ظاہر نہیں؟ کچھ بھی ہو‘ ہر کہیں اس سے زیادہ تحفظات پھوٹے۔ دودھ کا جلا اب چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پئے گا۔ پاکستان میں تجارتی راہداری کو ہر حال میں سبوتاژ کرنے کا اعلان کرنے والے دہلی کے باب میں خوش فہمی کا جواز کیا ہے‘ کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو ختم کرنے کے خواب دیکھتی ہے۔ اس کا میڈیا اور فلم انڈسٹری پیہم پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس کے اخبار نویس پڑوسی ملک کے بارے میں مفروضے پالتے اور حیران کر دینے و الی یک رخی گفتگو۔
جسٹس کاظم ملک کی شہرت اچھی ہے۔ ان کے بارے میں نون لیگ کے اگر تحفظات تھے تو اس کا پلیٹ فارم سپریم کورٹ تھا۔ ایاز صادق کا یہ فرمان کہ انہوں نے روپے کی بنیاد پر فیصلہ کیا یا تعصب پر‘ بجائے خود چونکا دینے والا تھا۔ اس پر رانا ثناء اللہ کا یہ اصرار کہ اپنے صاحبزادے کے لیے خوشاب سے وہ صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ چاہتے تھے اور یہ کہ اینٹی کرپشن کے سربراہ کی حیثیت سے اسمبلی میں طلب کیے جانے پر ناخوش۔ جج صاحب نے ایک الزام کا مسکت جواب دے دیا ہے۔ جناب والا! کسی درخواست کی نقل‘ امیدوار کی طرف سے فیس جمع کرنے کی کوئی رسید؟ دوسرے الزام کا جواب بھی واضح ہے: اپنا تحفظ آپ نے پہلے بیان کیا ہوتا۔ اڑھائی برس بعد کیوں؟
واضح طور پر یہ حلقہ 154 پر اثرانداز ہونے کی کوشش تھی۔ دوسرے جج کی شہرت بھی اچھی ہے۔ وہ لاہور میں تھے تو سائیکل پر عدالت جایا کرتے۔ ایسے آدمی کا آپ کیا کر سکتے ہیں؟ مزید یہ کہ اس سے خود عدلیہ میں ردعمل پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی سپریم کورٹ میں جائے یا کوئی دوسری قانونی راہ اختیار کرے۔ ایسے میں نون لیگ مزید مشکل میں پڑے گی۔ اس تاثر نے بھی جنم لیا کہ شریف خاندان مستحکم ہو جائے تو فوجی اور سول اداروں کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ راولپنڈی میں سوال پھوٹے گا کہ اگر ان کی طاقت حد سے بڑھ گئی تو خود پسندی سے گزر کر نون لیگ انتقامی انداز اختیار کر سکتی ہے۔
خدا خدا کر کے آخرکار اب ایک اچھا فیصلہ اس نے کیا ہے (اگر کیا ہے) کہ دوبارہ ووٹروں سے رجوع کیا جائے۔ یہ ہے جمہوری اندازِ سیاست اور گرہ اس سے کھلتی ہے۔ سعد رفیق نے پہلے کہا تھا کہ انہیں ووٹروں کے پاس جانے دیا جائے۔ ایک سیاسی کارکن کے شایان شان یہی ہوتا ہے۔ حکمت ایک چیز ہے اور چالاکی بالکل دوسری۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے: سیانا کوّا گندگی پہ گرا کرتا ہے۔
عدالتی کمیشن کے فیصلے نے جو دبائو تحریک انصاف پر قائم کیا تھا‘ اب نون لیگ پر منتقل ہو چکا۔ افسوس کہ وہ وقار اور ہوش مندی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ اس کے لیے مواقع اب بھی ہیں۔ دہشت گردی کم ہو رہی ہے۔ پٹرول کی قیمت گری ہے‘ کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں امن کے امکانات فروغ پذیر ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں زوال کے باوجود‘ معیشت بحیثیت مجموعی مثبت اشارے دے رہی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے بعد‘ پیپلز پارٹی کے تحلیل ہونے کا عمل تیز ہو گیا ہے؛ تاہم اپنی غلطیوں سے ان دونوں پارٹیوں نے سیکھنے سے انکار کر دیا۔ بظاہر موت ہی اب ان کا مقدر ہے۔ شہری اور دیہی سندھ کے علاوہ‘ پنجاب میں بھی ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو اب تحریک انصاف اور نون لیگ میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ان کی امنگوں اور رجحانات کا ادراک کرنے کی بجائے‘ لیگی قیادت ایک بے ثمر جنگ میں سرگرم ہے۔ عمران خان کے خلاف پروپیگنڈے کی وحشت نہیں بلکہ امن و امان‘ نظامِ عدل اور معیشت کو مضبوط بنا کر ہی‘ وہ سرخرو ہو سکتی ہے۔ بحران اپوزیشن کو مدد دیتا ہے‘ حکمران کو نہیں۔ طویل سیاسی تجربے کے باوجود یہ بات میاں صاحبان کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی؟ خوئے انتقام؟ شریف خاندان بھگت چکا مگر سیکھتا نہیں۔ کس بلا کا شعر افتخار عارف نے کہا ؎
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
عمران خان کو نفسیاتی برتری حاصل ہوئی‘ جس کے برقرار رہنے کا انحصار‘ ان کی حکمت عملی پر ہو گا۔ الیکشن کمیشن پر ان کے اعتراضات بڑی حد تک درست ہیں‘ مگر اس کے خلاف احتجاج کو بے قابو نہ ہونا چاہیے۔ چند سو کارکنوں کی موجودگی کافی رہے گی۔ پارٹی کی تنظیم اور اس کے جھگڑے چکانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ چودھری سرور اور ریحام خان کا میدان ہے۔ تحمل کے ساتھ چودھری سرور دیر تک بات سن سکتے ہیں۔ فریق وہ نہیں سمجھے جاتے۔ ریحام خان بھی نہیں۔ معاشرے میں خواتین کا جو احترام ہے‘ اسے بروئے کار لا کر‘ ایک مرحلہ وار منصوبے کا وہ آغاز کر سکتی ہیں۔ اگر ایک دو نائبین کے ساتھ فریقین کو وہ سنیں۔ نرمی اور اپج سے کام لیں تو نتائج غیر معمولی ہوں گے۔ عمران خان فاسٹ بائولر والی تباہ کرنے کی جبلّت (Killer instinct) رکھتے ہیں۔ کبھی جارحانہ انداز مفید ہوتا ہے‘ کبھی انتظار کی ضرورت۔ جو پتنگ باز ڈھیل نہ دے سکے‘ اپنے حریف کو ہرا نہیں سکتا۔ سندھ میں عمران خاں معجزانہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ کراچی میں فوراً اگر وہ جلسہ کریں۔ پھر سندھ کے شہروں میں تو وہاں سے اٹھتی تحریک تین ماہ کے اندر پنجاب میں فضا بدل سکتی ہے۔ یہ کہنا البتہ مشکل ہے کہ کپتان اور اس کے ساتھیوں کا سیاسی ادراک کتنا ہے۔ ان کی پارٹی میں موجود مخبروں سے خوف آتا ہے۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
سیاست میں ایک دیرپا حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی مزاج اور امنگوں سے جس کا گہرا تعلق ہو۔ کیا عمران خان اس بھید سے واقف ہیں؟