کب تک؟ خدا کے بندو کب تک خوابِ غفلت میں پڑے رہو گے۔ کب تک اہلِ اقتدار من مانی کرتے رہیں گے؟ کب تک یہ قوم تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کر سوئی رہے گی؟ کب تک؟
تاجر ایک بار پھر ہڑتال کے درپے ہیں۔ مطالبہ یہ کہ بینک سے روپیہ نکلوانے پر اعشاریہ تین فیصد کی شرح سے جو ٹیکس عائد ہوا ہے، وہ واپس لیا جائے۔ منگل کو تیل کا بحران اس لیے بھی بڑھا کہ اسی مطالبے پر ٹینکرز ایسوسی ایشن نے کاروبار بند کر دیا۔
پلوں کی تکمیل پر کروڑوں کے اشتہارات جاری کرنے والی حکومت شروع میں واضح نہ کر سکی کہ نفاذ ان پر نہیں ہوگا، جو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ شور و غوغا ہوا تو جناب اسحق ڈار بروئے کار آئے۔ بدقسمتی سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے فوراً ہی ناراض تاجروں کی حمایت کر دی۔ ظاہر ہے کہ ان کے ووٹ حاصل کرنے کی امید میں۔
پاکستانی معیشت عجیب ہے۔ آدھی سے زیادہ ریکارڈ پر ہے ہی نہیں۔ کاروباری ہیں، جو بڑے بڑے مکانات کے مالک ہیں۔ زیورات سے ان کی بیگمات لدی پھندی رہتی ہیں۔ تقریبات پر وہ ہن لٹاتے ہیں۔ ان کے بچے گراں قدر فیسوں والے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں، جہاں آکسفورڈ کا نصاب رائج ہے۔ گرمی کی چھٹیاں وہ بیرونِ ملک گزارتے ہیں اور خریداری کے لیے دبئی کا رخ کرتے ہیں مگر ٹیکس؟ ٹیکس دینے پر وہ کسی طرح آمادہ نہیں۔ ملازمت پیشہ جتنی ادائیگی ایف بی آر کو کرتا ہے، اس کے برابر کمانے والا تاجر اکثر اس کا دسواں حصہ بھی نہیں دیتا۔ دیتا ہے تو رشوت۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے قرض لیتی ہے یا کرنسی نوٹ چھاپتی ہے۔ بار عام آدمی پر پڑتا ہے۔ کاروباری آدمی قیمتوں میں اضافے سے ازالہ کر لیتا ہے۔
یہی ایک حیران کن بات نہیں کہ آدھی معیشت بے نام و نشان ہے ۔ زرعی آمدن پر عملاً کوئی ٹیکس نہیں ۔ اس لیے کہ اسمبلیوں پر زمینداروں کا غلبہ ہے ۔ ٹیکس آمدن پر ہوتاہے ، خواہ کسی بھی ذریعے سے حاصل ہو ۔ زمینداروں کا استدلال یہ ہے کہ وہ کھاد ، بیج او رڈیزل سمیت ہر اس چیز پر ٹیکس دیتے ہیں ، جو ان کے استعمال میں آتی ہے ۔ یہ دلیل مان لی جائے تو کارخانہ داروں اور اشیا کے خریداروں کو بھی استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے۔ مصنوعات کے لیے خریدی جانے والی ہر شے پر ٹیکس ادا کیا جاتاہے ۔ تنخواہ دار اپنی آمدن کا ایک قابلِ ذکر حصہ حکومت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔ نہایت پابندی کے ساتھ پورے کا پورا۔ پھر وہ ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے یا جوتا او رکپڑا خریدنے پر اتناہی ٹیکس کیوں ادا کریں، جتنا ایک زمیندار کرتاہے ۔
ٹیکس کلچر اس لیے فروغ نہیں پا سکا کہ قانون کبھی سختی سے نافذ نہ ہو سکا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے دو رمیں جو شرح 16فیصد تھی ،اڑھائی سال قبل آدھی رہ گئی ، صرف آٹھ فیصد۔ 30ماہ کی جدوجہد سے صرف ایک فیصد اضافہ ہو سکا۔ سب سے بڑھ کر حکمران طبقہ ذمہ دار ہے ۔ معلوم نہیں کئی عدد شوگر ملوں ،سرے محل سمیت دنیا بھر میں پھیلی جائداروں اور کم و بیش پچاس ہزار ایکڑ اراضی کے مالک جناب آصف علی زرداری ٹیکس کتنا دیتے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کے سابق وکیل اعتزاز احسن نے بتایا تھا کہ 1995-1996ء میں انہوں نے صرف پانچ سو روپے ادا کیے ۔ جلا وطنی کے بعد پاکستان آنے پر 2010ء میں غالباً پانچ ہزار روپے ۔ عمران خان نے شور مچایا کہ میاں صاحب مفلوک الحال ہیں ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ان کی مدد کی جائے ۔ دبائو بڑھا تو ٹیکس بڑھنے لگا۔ امسال غالباً اٹھارہ لاکھ روپے انہوں نے ادا کیے ہیں ۔ بغل بچوں کا استدلال یہ تھا کہ میاں صاحب کی ذاتی آمدن برائے نام ہے ۔ کاروبار بچوں کے نام پر وہ منتقل کر چکے ۔ اب آمدن کیسے بڑھ گئی ۔ جن دنوں یہ بحث جاری تھی ، دو افواہیں عام تھیں ۔ ایک یہ کہ جناب شہباز شریف اپنا فارم ہائوس پچاس کروڑ روپے میں بیچ رہے ہیں ۔ ثانیا شریف خاندان مزید ایک شوگر مل خرید رہا ہے ۔ ایک ارب بیس کروڑ روپے مالکان نے مانگے۔ روایت کے مطابق میاں صاحبان نے 80 کروڑ روپے قیمت لگائی ۔ کہا کہ ادائیگی گنا پیلنے کا ایک موسم گزر جانے کے بعد ہوگی ، یعنی عملاً ساٹھ ستر کروڑ روپے ۔ باقی 40کروڑ؟ اس کے عوض کچھ مواقع فراہم کر دیے جائیں گے ۔
زرداری صاحب نے کراچی کی ایک مشہور شخصیت کو بلایا او رکہا کہ فلاں پلاٹ درکار ہے ۔ وہ قیمت ادا کروں گا، جس پر مالک نے خریدا تھا۔ اس نے سر پیٹ لیا۔ قیمت پانچ چھ گنا بڑھ گئی تھی ۔ بعض دوستوں پر عالی جناب نے اقتدار کے دنوں میں عنایات کی تھیں۔ انہیں بلایا اور کہا کہ میرا حصہ ادا کرو۔ ذوالفقار مرزا والا قضیہ سبھی کو معلوم ہے ۔ وہی شوگر مل کا معاملہ۔ بات اختلاف سے شروع ہو کر مخالفت تک پہنچی اور اب عناد میں ڈھل چکی‘ جس میں حریف ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی تمنا پالتے ہیں ۔ سچ ہے کہ بدترین دشمن بہترین دوستوں میں سے نکلتے ہیں ۔
بتیس لاکھ ٹیکس نا دہندگان کی فہرست ایف بی آر کے پاس پڑی ہے ۔ تحریری انتباہ تک نہ کیا گیا۔ جناب اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ دس ہزار افراد(یا کچھ زیادہ ) کو نوٹس بھجوائے گئے ۔ دو وجوہ ہیں،ایک تو کاروباری طبقہ شریف خاندا ن کوعزیز بہت ہے ۔ ووٹر ہی نہیں بلکہ پشت پناہ۔ پارٹی کو الیکشن کے لیے عطیات دیتے ہیں۔ خواہ وہ بجلی چوری کے مرتکب ہوں یا توانائی کے قحط میں بروقت دکانیں بند کرنے سے انکار کریں ، شریف حکومت محجوب ہو کر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ جیسے کسی دولت مند خاتون کاناکارہ شوہر۔ حد یہ ہے کہ شہباز شریف ایسا تگڑا منتظم لاہور کے دکانداروں کو فٹ پاتھ برتنے سے روک نہیں سکتا۔ منہ کھائے ، آنکھ شرمائے۔
رقوم نکلوانے پر ٹیکس اصل میں معیشت کو دستاویزی کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ تاجر بھی یہ بات خوب جانتے ہیں ۔ اسی لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہیں ۔ ایک رئیس کے لاڈلے بچے سکول جانے سے گریزاں تھے ۔آخر کار ایک استاد تلاش کیاگیا، جس کی ہنر مندی کے چرچے تھے۔ پہلے دن ،بچوں کے لیے وہ چار خرگوش لایا ۔ دو چھوڑ دیے اور چھوٹے سے پوچھا: باقی کتنے ہیں؟ بڑے بھائی نے چلّا کر کہا ''منّے خبردار‘ وہ ہمیں پڑھانے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔
کالی معیشت ریکارڈ پر آجائے تو سرکاری آمدن 5000 ارب ہوجائے گی ۔ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیے بغیر بتدریج یہ 7000ارب تک پہنچ سکتی ہے ۔ حکمرانوں کو مگر اپنی مثال پیش کرنا ہوگی ۔ صرف ادائیگی نہیں بلکہ سرمایے کا فرار روکنے میں بھی ۔ میاں محمد نواز شریف پورا ٹیکس ادا کردیں تو کتنوں کی مجال ہے کہ مزاحمت کریں ۔ باہر پڑی اپنی دولت واپس لائیں تو سرمایہ کاروں کا اعتماد اس ملک پر بحال ہو اور استحکام پیدا ہونے لگے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ دہشتگردی سمٹ رہی ہے ۔ کاروبار استحکام میں فروغ پاتاہے ۔ آزادی اور امن میں انسانی صلاحیت جاگ اٹھتی اور کرشمے دکھاتی ہے ۔
قطعاً ہم ایک غریب ملک نہیں بلکہ اپنے حکمرانوں اور کاروباریوں کے طفیل کشکول اٹھائے رکھتے ہیں۔ امن بحال ہو جائے، پھر کراچی ، لاہور ، پشاور اور دا رالحکومت کے لیے موٹر وے جیسی مثالی پولیس بنا دی جائے ۔ شاہراہیں محفوظ کر دی جائیں تو سرمایے کا فرار ہی نہ رکے، سمندر پار سے دولت اور ذہانت واپس آنے لگے۔ پاکستانی معیشت چوکڑیاں بھرنے لگے۔
کب تک ؟ خدا کے بندو کب تک خوابِ غفلت میں پڑے رہو گے ۔ کب تک اہلِ اقتدار من مانی کرتے رہیں گے ؟ کب تک یہ قوم تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کر سوئی رہے گی ؟ کب تک ؟