پیش گوئی مشکل ہے مگر ایک دن شریف خاندان کا یوم حساب بھی تو آنا ہے۔ اس طرح نہ سہی، کسی اور طرح سے۔ الّا یہ کہ وہ توبہ کریں، دور دور تک جس کے آثار نہیں۔
انٹرویو تمام ہوا‘ اور جیسے اچانک ہی تمام ہوا تو جنرل صاحب سے اجازت چاہی۔ موضوع دلچسپ اور مختلف تھا۔ پاکستان کی دفاعی تاریخ کے مختلف ادوار‘ پھر بھارتی خطرے کی موجودہ صورتِ حال۔ حبیب اکرم کا خیال تھا اور میری رائے میں درست ہے کہ 6 ستمبر کو اس عنوان پر بات کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف موزوں ترین آدمی ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں وہ شریک تھے اور بعد کا زیادہ تر زمانہ‘ بہت قریب سے انہوں نے دیکھا ہے۔ بہت سا خود نمٹایا ہے۔ انٹرویو کے دوران جو شاید دنیا ٹی وی پر آپ دیکھ چکے ہوں گے‘ ایک سینئر اخبار نویس کے ساتھ کار میں سفر کرتے ہوئے‘ کھاریاں چھائونی میں رکے۔ ایک میجر جنرل کے پاس جو بڑے ہی باوقار اور سادہ سے آدمی تھے‘ بزرگ اخبار نویس کے رشتہ دار۔ احترام اور بے تکلفی کے ساتھ وہ ان سے بات کرتے رہے۔ چیچنیا کے جنگی لیڈر اور سربراہ کی شہادت کا واقعہ ابھی ابھی پیش آیا تھا۔ اس پر ان کا دل گداز تھا‘ شاید اس لیے کہ انہی دنوں قلب کا عارضہ انہیں لاحق ہوا تھا۔ سبکدوشی کے لیے ذہنی طور پر وہ تیار تھے۔ راضی برضا قسم کے آدمی۔ پرویز مشرف اس زمانے میں شاید میجر جنرل ہوں گے۔ سینئر صحافی نے ان سے مستقبل کی عسکری قیادت کے بارے میں سوال کیا۔ جنرل پرویز مشرف کا انہوں نے نام لیا اور کہا کہ بہت اچھے افسر ہیں‘ بس یہ کہ نام ان کا ٹھیک نہیں‘ تبدیل کر لینا چاہیے۔ اس ایک بھلے آدمی کے سوا‘ جس کانام تک حافظے میں باقی نہیں‘ کون اس وقت یہ گمان کر سکتا تھا کہ ایک دن وہ بری فوج کے سربراہ ہوں گے اور بعض فیصلہ کن رجحانات کا آغاز کریں گے۔
رخصت ہونے کا وقت آیا تو جنرل صاحب بولے: رک جائو‘ چائے کی پیالی پیتے ہیں‘ کچھ گپ شپ کرتے ہیں۔ انٹرویو تشنہ رہا‘ ہمیشہ تشنہ ہی رہتا ہے۔ بہت سے سوالات ذہن میں کلبلا رہے تھے۔ سیاست پر سرے سے بات ہی نہ ہوئی تھی۔ مجھے وہ معمول کے چست آدمی دکھائی نہ دیئے۔ انٹرویو سے قبل کی مختصر سی گفتگو میں ان سے پوچھا تھا کہ کیا ورزش میں باقاعدگی برقرار ہے۔ جواب ملا: ہاں‘ ہاں بالکل۔ آواز میں طنطنہ مگر کم تھا۔ راتوں کو جاگنے والوں کی آنکھیں پوری طرح شام ہی کو کھلتی ہیں۔ گھنٹے بھر سے میر صاحب کے اشعار ذہن میں گونج رہے تھے ؎
سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا‘ جہانِ دیگر تھا
اور وہ جو امجد اسلام امجد کو بہت پسند ہے ؎
آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں‘ دیواروں کے بیچ
یہ خیال دل میں ترازو رہا کہ بڑی تصویر دیکھنے والے کم ہیں۔ وہ جو عاقبت اندیش ہوتے ہیں‘ صرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ ملکوں‘ قوموں اور معاشروں کے آنے والے کل کے بارے میں غوروفکر کیا کرتے ہیں۔ اپنے آپ سے گزر جاتے ہیں اور نور کی تمنا پالتے ہیں۔ لاہور کے اس سیاہ پوش گم سم ساغر صدیقی نے کہا تھا ؎
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
کہیں سے ان کو بلائو بڑا اندھیرا ہے
ہمارے عہد کا عارف کل سے روشنیوں کے اس دیار ہے‘ پھر سے جس کے بقعۂ نور بننے کا امکان جاگا ہے۔ ہفتے کی دوپہر اسی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ایک ضیافت تھی‘ جہاں اپنا قیام ہے‘ ہم تو مگر نصف شب کو پہنچے۔ تھکے ماندے بلکہ نڈھال۔ پچھلے دو دن سخت مصروفیت میں بیتے تھے۔ اتوار کو دو بجے آرٹس کونسل میں ان کا لیکچر تھا۔ ایک آدھ نہیں‘ کئی دوستوں نے اس میں شرکت کی دعوت دی۔ خوشی ہوئی کہ غلام محمد جمال ان میں شامل تھے اور بدر شاہ بھی۔ مشکل یہ تھی کہ ٹھیک اسی وقت ہمیں جنرل کا انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا۔ 3 ستمبر کو اس متفکر اور بہادر پولیس افسر شاہد حیات سے ملک کی صورتِ حال پر بات ہوئی تو اختتام پر انہوں نے کہا: درویش سے بات کیجیے‘ ملک کے لیے وہ بھی دعا کریں۔ عرض کیا: وہ تو پیہم اور سراپا دعا ہیں۔ مرحلے تو حکمت‘ ریاضت اور ایثار سے طے ہوتے ہیں۔ وہ کراچی آ رہے ہیں۔ آپ ان سے ملئے۔ اپنے عہد کے تقاضوں اور تاریخ کے تیوروں سے جو آشنا ہوں‘ وہی اپنے زمانے کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ یہ اہلِ علم کو زیبا ہے اور اہلِ علم وہ ہیں‘ جو ماضی کو سمجھتے ہوں‘ اپنے دور کے بارے میں ہر اہم سوال کا جواب دے سکیں اور مستقبل کے امکانات کا ادراک کرسکیں۔ عارف کے سوا، اس مسافر نے کسی کو اس مقام پر فائز نہ پایا۔ معلومات سے مسلح، اتفاق اور اعتماد سے لبریز۔ لیڈر لوگ ادھورے ہیں۔ کم جانتے ہیں، کنفیوژن کا شکار زیادہ رہتے ہیں۔ جہاں تک توکل کا تعلق ہے تو محمد علی جناح آخری آدمی تھے۔
چائے کی میزپر جنرل مشرف نے اس نکتے کو دہرایا کہ سیاسی رہنمائوں کو اپنی ہی فکر لاحق ہوتی ہے۔ مشاغل کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا کہ دو بجے سے مہمانوں کی آمد شروع ہوتی ہے۔ عام لوگ اور ممتاز بھی۔ سیاسی لیڈر اور سفارشی یا مشورے کے متلاشی۔ چھ بجے کے بعد، معلوم ہوا کہ زیادہ تر خوش وقتی۔ کہا: بہت سا وقت برج کھیلنے میں اڑ جاتا ہے۔ بعد ازاں حیرت کے ساتھ میں سوچتا رہا کہ اگر وہ سب کچھ لکھ ڈالیں جو ان پر بیتا ہے‘ جو بھگتا اور دیکھا ہے۔ عرق ریزی چاہیے۔ کتنے ہی باقاعدہ لکھنے والے درماندہ ہوئے، جن کے قلم کی روانی پہ رشک آیاکرتا۔ جنرل صاحب باقاعدہ صاحب قلم نہیں، اگرچہ بات کھل کر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں تو ڈٹ کر کہتے ہیں۔
اب کی بار سیاست سے تھوڑی سی اکتاہٹ بھی ان میں نظر آئی۔ مسلم لیگوں کے اتحاد کی کوشش، ایک سنجیدہ سعی ہے۔ چودھری صاحبان ہوا میں تیر نہیں چلا رہے۔ جنرل پرویز مشرف پوری طرح آمادہ ہیں، پیر صاحب پگاڑا کسی قدر تامل کا شکار ہیں۔ ان کے تحفظات اگر دور کیے جاسکے تو ایک نیا محاذ وجود میں آ جائے گا۔ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی پگھل رہی ہے۔ باقی ماندہ پورے ملک، خاص طورپر شہری سندھ میں خلقِ خدا اس سے نالاں ہے۔ کرپشن کے ایسے معیار اس نے قائم کیے ہیں کہ آئندہ عشروں میںاس پر حیرت کی جاتی رہے گی۔ سندھ کی 27 شوگر ملوں میں سے کم از کم 17 عدد کے بارے میں وثوق سے کہا جاتا ہے کہ ایشیا کے نیلسن منڈیلا کی ملک ہیں۔ دعویٰ ہے کہ ان میں سے ایک دیوان یوسف کی تھی، ایک دن جو جبراً ہتھیا لی گئی۔ کہانی کے مطابق ذوالفقار مرزا ایک دن کاغذ لے کر گئے اور دستخط کرانے کے بعد لوٹے۔ کیا ان کی کسی کمزوری سے فائدہ اٹھایا گیا یا مجبور پا کر دبا لیا گیا۔ اخبارنویس تحقیق کریں تو بات کھلے۔ دیوان یوسف یا زرداری بولیں تو پتہ چلے۔ اس طرح کے قصے مگر ادھورے ہی رہتے ہیں۔ زمانے کے تاریک گوشوں میں برپا ہونے والی المناک داستانیں۔
تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی
اسی طرح یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں
ایک سنسنی خیز سائوتھ سٹی ہسپتال کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سعدیہ نامی کی ایک خاموش طبع خاتون نے تعمیر کرایا اور زمانے بھر میں اس کے ماہرین کا چرچا ہے۔ سندھ کے شاہی خاندان کی طرف سے ایک دن پیغام ملا کہ وہ اس کے حوالے کر دیا جائے۔ مفت میں حوالے کر دیا جائے، جی ہاں، الزام یہی ہے۔ پندرہ دن تک وہ سو نہ سکیں۔ پھر ایک معروف شخصیت سے بات کی۔ فرط جذبات سے وہ رو پڑیں۔ بے بسی اور لاچاری۔ اس اثنا میں صوبائی حکومت نے اپنے بلڈوزر بھیجے‘ دھمکانے کے لیے۔ کہا گیا ہے کہ ہسپتال کی عمارت اور سب کچھ ڈاکٹرعاصم کے حوالے کردیں۔ اگر یہ درست ہے تو ڈھٹائی اور بے شرمی کی کون سی سطح اس کیلئے درکار ہے؟۔ اگر یہ ڈکیتی نہیں تو اور کیا ہے۔ ان صاحب نے مجھے بتایا: کراچی کے کور کمانڈر جنرل نوید مختار سے گزارش کی گئی۔ اگلے دن اس خاتون کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ مدتوں کے بعد وہ سکھ کی نیند سوئی ہیں۔ یہی وہ صوبائی حکومت ہے، جس کے باب میں عسکری قیادت اور وفاقی حکومت پرمداخلت کا الزام ہے۔ کیا اس طرح کے حکمران اللہ کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ایک اندازہ یہ ہوا کہ مسلم لیگوں کے اتحاد کی بات آگے نہ بڑھی تو ممکن ہے کہ جنرل صاحب سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی پسپائی سے ایک خلا تو جنم لے رہا ہے۔ کسی نہ کسی کو اسے پر کرنا ہے۔ لیگیں اگر اتحاد کرلیں تو ایک طوفان اٹھ سکتاہے، ناقابل شکست طوفان۔
پیش گوئی مشکل ہے مگر ایک دن شریف خاندان کا یوم حساب بھی تو آنا ہے۔ اس طرح نہ سہی، کسی اور طرح سے۔ الّا یہ کہ وہ توبہ کریں، دور دور تک جس کے آثار نہیں۔