آدمی چلے جاتے ہیں اور یاد باقی رہ جاتی ہے۔ اللہ کے بندوں سے جس نے محبت کی اور جو چاہا گیا‘ خالق کی نگاہ میں وہ کیوں سرخرو نہ ہوگا‘ جس کا فرمان یہ ہے کہ مخلوقِ خدا اس کا کنبہ ہے۔
پروگرام جاری تھا‘ موبائل فون کی سکرین جگمگائی اور جنرل حمید گل کا نمبر اس پر نمودار ہوا۔ یہ ان کے صاحبزادے عبداللہ گل تھے۔ بتایا کہ شام پانچ بجے مرحوم کے لیے دعا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بے بسی کا احساس ہوا کہ راولپنڈی سے بہت دور لاہور میں پڑا ہوں۔
اس دن بھی یہی ہوا جب ان کی علالت کی اطلاع ملی۔ غالباً کراچی میں تھا‘ جب معظم رشید نے فون پر بتایا کہ وہ برین ہیمرج کا شکار ہوئے ہیں۔ کہا: کسی طرح سی ایم ایچ لے جائو۔وہ بھوربن میں تھے۔ اتنے میں خبر آ گئی کہ سپاہی جاں سے گزر گیا۔
پورا مہینہ سفر میں بیت گیا‘ کراچی‘ کوئٹہ اور لاہور۔ ہر ہفتے ایک دو دن ہی کے لیے گھر جانے کا موقعہ ملا۔ ہر بار ارادہ کیا کہ سفر کی تھکان سے نجات پا کر اگلے دن تعزیت کے لیے جائیں گے‘ مگر وہ اگلا دن کبھی نہ آیا۔ عبداللہ گل کا فون آیا تو خود پر مجھے غصہ آنے لگا۔ ایسی بھی کیا مصروفیت کہ مکروہاتِ دنیا ہی میں آدمی الجھا رہے۔ اپنے پیاروں کی تیمارداری اور تعزیت کے لیے بھی وقت نکال نہ سکے۔
کئی برس ہوتے ہیں‘ جنرل صاحب کی ہمیشہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے دعا کے لیے کہا۔ بیس برس ہوتے ہیں‘ ایک دن ارادہ کیا کہ ان سب لوگوں کے لیے پابندی سے دعا کی جائے‘ جو کبھی زندگی کا حصہ تھے۔ والدین‘ عزیز رشتہ دار‘ اساتذہ اور دفاتر کے ساتھی۔ پھر یہ معمول ہو گیا کہ ہر صبح ان میں سے ہر ایک کے لیے
اللہ کی بارگاہ میں التجا کی۔ فراق تمام نہیں ہوتا اور موت کا غم نہیں دھلتا مگر ایک قرار سا ہوتا ہے کہ جن سے تعلق تھا‘ وہ اب بھی برقرار ہے۔ بہت دن پہلے‘ ایک دن دبے لفظوں میں نے ان سے کہا: الحمدللہ‘ آپ کی مرحوم بہن کے لیے دعا میں کبھی ناغہ نہیں ہوا۔ لہجے میں اداسی آ گئی۔ بولے: وہ اس قابل تھیں کہ اللہ کے بندے‘ انہیں یاد رکھیں۔ جس دن جنرل صاحب دنیا سے اٹھے‘ ان کی ہمشیرہ کے ساتھ‘ ان کے نام کا اضافہ کرتے ہوئے‘ دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ نماز فجر کا وقت تھا‘ اتفاق سے آنکھ کھل گئی۔ ان سب لوگوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا‘ جن کے ساتھ کبھی اس شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گھوما کرتے۔ فاروق گیلانی‘ سعید صفدر اور خلیل ملک۔ ایک عشرہ ہوتا ہے‘ جب اچانک ایک دن خبر آئی کہ سارا دن چھنگلی میں سگریٹ دبائے رکھنے والے سعید صفدر کینسر میں مبتلا ہو گئے۔ شوکت خانم ہسپتال میں پڑے ہیں۔ اس سے پہلے کہ لاہور جانا ہوتا‘ ان کے انتقال کی خبر آ گئی۔ بھاگم بھاگ پہنچے تو مرقد پر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
پھر ایک دن فاروق گیلانی جان ہار گئے۔ زندگی بھر میرے یار نے اپنے تمام فیصلے اسی طرح صادر کیے۔ چپ چاپ‘ مگر پتھر پہ لکیر۔ موت کو بھی ایسی ہی آمادگی کے ساتھ قبول کیا۔ وہ ان سعید روحوں میں سے ایک تھے‘ جنہیں ادراک ہو جاتا ہے۔ وفات سے تین برس پہلے‘ ایک دن بولے: ریلوے سٹیشن قریب آ پہنچا ہے‘ یہ سامان سمیٹنے کا وقت ہے۔ سلیم الطبع تھے لیکن اب تاکید کرتے کہ کسی کا ذکر منفی انداز میں نہ ہو۔ کچھ اور چیزوں سے بھی کنارہ کشی کر لی۔ مہمان نوازی کو شعار کر لیا۔ ان کی ناگہانی وفات پر اظہار الحق نے مرثیہ لکھا تو رونے والوں کو کچھ اور بھی رلایا۔ ہمیشہ سے مطالعے میں وہ باذوق تھے۔ آخری برسوں میں قرآن کریم‘ حدیث اور سیرت میں بہت جی لگایا۔ شام کی ملاقاتوں میں اب وہ اور بھی موتی بکھیرنے لگے۔ تگ و تاز کے کتنے ہی میدان تھے‘ شہسوار نے جن میں گھوڑے دوڑائے تھے۔ معاشیات‘ ادب‘ سیاست اور تاریخ۔ اس انہماک سے پڑھنے والا دوسرا آدمی نہیں دیکھا۔ جس کتاب کو پڑھ چکتے‘ اس کا خلاصہ ایسی بلاغت کے ساتھ بیان کرتے کہ سننے والا دنگ رہ جاتا۔ اب خیال آتا ہے کہ یہ حدیثِ مبارک گویا پورے جمال اور شوکت کے ساتھ ان کے قلب پر اتر گئی تھی ''موتوا قبل ان تموتوا‘‘ مرنے سے پہلے ہی مر جائو۔ یوں بھی نجیب آدمی تھے مگر آخری عشرے میں بالیدگی بڑھتی گئی۔ ہمیشہ کے صداقت شعار تھے‘ نہایت ہی صاف ستھرے۔ لیکن اب ایک طرح داری سی آ گئی۔ مذہبی لوگوں کا مسئلہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ قدیم زمانوں میں جیتے اور زندگی کی قبا کو مختصر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ شاہ صاحب مختلف تھے‘ اپنے عہد کے آدمی۔ اب ان کی آنکھیں خلا میں کچھ ڈھونڈا کرتیں۔ ایسا لگتا کہ دوسری دنیا کا خواب اس میں بس گیا ہے۔ اپنے مرحوم والد سید سعید گیلانی کو کچھ زیادہ یاد کرنے لگے ؎
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں‘ اندھیری رات میں
بہت زور مجھ پر دیتے رہے کہ فلاں فلاں سیاسی لیڈر سے بات کر کے‘ ایک متحدہ محاذ بنانے میں مدد کرو۔ میں عرض کرتا کہ شاہ جی‘ سیاستدان بہت ٹیڑھے لوگ ہوتے ہیں‘ سخت گیر سودے باز۔ ان کی آنکھوں میں شکایت ابھری۔ گفتگو کے نہیں‘ وہ عمل کے آدمی تھے۔ وہ جو سرسید احمد خان کی وفات پر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎
ہماری سب باتیں ہی باتیں ہیں‘ سید کام کرتا تھا
مت بھولو فرق جو ہے کہنے والے اور کرنے والوں میں
خلیل ملک کے مرنے کی خبر دفعتاً آئی اور اب تک ایک زخم کی طرح زندہ ہے۔ ایک وصف اس میں ایسا تھا کہ شاذ ہی دیکھا۔ ٹالسٹائی نے کہا تھا: جب کوئی محفل کسی کو پھبتیوں کے لیے چنتی ہے تو اس کے پیچھے فقط ہنسنے ہنسانے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ مرحوم اکثر ہدف ہوتا اور حیران کن یہ ہے کہ دوسروں سے زیادہ خود داد دیا کرتا۔ ایک بے ریا اور شفاف ہنسی‘ گویا ایک جوئے رواں ہو۔ جنرل حمید گل کے ساتھ بہت ہی وہ بحث کرتے۔ مگر جنرل صاحب کبھی برا نہ مانتے۔
جنرل حمید گل ایک محفل آرا آدمی تھے۔ خاندان اور دوستوں میں شاد ہی رہتے مگر اجنبیوں کے ساتھ بھی۔ اللہ کی مخلوق کے ساتھ ان کی محبت لامتناہی تھی۔ یکسر تنہائی میں بھی انہیں کسی کو برا کہنے کو بہت تامّل ہوتا ؎
یہ اعتماد ہے مجھ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جائوں غریبِ شہر نہیں
مہمان نواز‘ خلیق‘ وضع دار‘ لباس میں شائستگی‘ گفتگو میں اس سے زیادہ۔ ذاتی کاوش سے بلند مناصب پر جا پہنچنے والوں میں ایک طرح کا زعم اکثر ہوتا ہے۔ وہ اس سے پاک تھے۔ عام آدمیوں کے ساتھ بھی غیر معمولی احترام سے پیش آتے ۔ تعلقات نبھانے والے‘ شائستہ‘ درد مند اور خوش گمان۔ احتیاج مند کی سفارش میں کبھی نہ جھجکتے۔ احباب کا حلقہ ایسا وسیع تھا کہ باید و شاید۔ صاحبِ مطالعہ‘ خوش گفتار‘ یادداشت غیر معمولی‘ معلومات بے پناہ۔ ایک حیران کر دینے والی اپنائیت۔ سیاستدان‘ مذہبی رہنما‘ اخبار نویس‘ تاجر اور صنعتکار‘ فوجی افسر‘ ادیب اور شاعر‘تعجب ہوتا کہ سبھی کے ساتھ روانی سے وہ بات کرتے۔ خوش اخلاقی ان کا سب سے بڑا وصف تھا! برہم کبھی نہ ہوتے‘ غصہ پی جاتے‘ ناراضی گوارا کرتے اور اکثر معاف کر دیا کرتے۔
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: رحم کرو تم پر رحم کیا جائے۔ بے شک وہ ایسے ہی تھے۔ آدمی چلے جاتے ہیں اور یاد باقی رہ جاتی ہے۔ اللہ کے بندوں سے جس نے محبت کی اور جو چاہا گیا‘ خالق کی نگاہ میں وہ کیوں سرخرو نہ ہوگا‘ جس کا فرمان یہ ہے کہ مخلوقِ خدا اس کا کنبہ ہے۔