ہم اندھے، ہمارے حکمران اندھے۔ ہمیں سرکارؐ کا قول کوئی کیوں یاد دلائے: جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا، اللہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔
سیّدنا عمر فاروقِ اعظم ؓ نے کیا خود اپنے پروردگار سے جا ملنے کی آرزو کی تھی؟ آخر آخر ان کا دل اور زیادہ پگھل گیا تھا۔ وہ حیرت انگیز جذباتی توازن کے امین تھے۔ خود کہا تھا: ہم دھوکہ نہیں دیتے مگر دھوکے کی سب شکلوں سے واقف ہیں۔ خوب جانتے تھے کہ درجات علم کے ساتھ ہیں۔ تجزیے میں ایک ذرا سی رو رعایت بھی گوارا نہ تھی۔
کسی نے حال پوچھا تو بھائی کا نام لے کر کہا: جب سے زید گئے، ٹھنڈی ہوا ادھر نہیں آتی۔ کہا: کاش میں تنکے کی طرح ہوتا۔ کاش میری ماں نے مجھے جنا نہ ہوتا۔ صاف لگتا تھا کہ دنیا سے امیرالمومنینؓ کا دل اُچاٹ ہو گیا، آنے والی ہزار نسلوں کو جن سے سیکھنا تھا۔ رحمۃ للعالمینؐ کے بعد تاریخ پہ اثر انداز ہونے والی سب سے نمایاں ہستی۔ وہ شہسوار کہ عہدِ جاہلیت میں بھی خود ترحمی کا جس میں گزر نہ ہوا۔ آخر وہ کیوں موم ہو گیا تھا؟
بیت اللہ اور شہرِ نبیؐ کے درمیان، آتش فشانی چٹانوں سے بکھرنے والی چھوٹی چھوٹی ہموار کنکریاں جمع کیں۔ ان پر چادر بچھائی اور لیٹ گئے۔ آسمان پہ نگاہ کی اور یہ کہا: اے میرے رب، میری عمر بڑھ گئی، میری رعایا پھیل گئی۔ ہمت کم ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ کوئی غلطی ہو، دنیا سے مجھے اٹھا لے۔ یہ کنکریاں کس چیز کی علامت تھیں۔ اقبالؔ زندہ ہوتے تو کوئی ان سے سوال کرتا یا خواجہ مہر علی شاہؒ سے۔ آشکار یہ ہے کہ دھڑکا انہیں لگا رہتا کہ آدھی دنیا کی مسلسل فروغ پاتی حکمرانی میں کوئی خطا سرزد نہ ہو۔ یہ جملہ بہت دُہرایا گیا: فرات کنارے کوئی کتا بھوکا مر گیا تو ذمہ دار میں ہوں۔ یہ بھی کہا تھا: عراق کے دلدلی راستوں پر اگر کوئی خچر پھسل کے گر پڑا تو عمر سے سوال کیا جائے گا۔
بدّو سے معذرت کی تو اس نے کہا: عمر اللہ کو کیا جواب دو گے؟ آنکھیں بھیگ گئیں۔ اپنا کرتا اتار کے دے دیا۔ نہاوند سے لوٹ آنے والے نے موتیوں کی ڈبیا پیش کی۔ کہا: مسلمان لشکر نے فیصلہ کیا کہ توڑ کر بانٹے نہیں جا سکتے۔ ایک آدھ موتی کسی کے کام کا نہیں؛ چنانچہ امیرالمومنین کی نذر کر دیا جائے۔ لپک کر اٹھے اور وہ خوف زدہ ہو کر بھاگا۔ فہم و فراست کے پیکر۔ قبر پہ کھڑے ہو کر جناب عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تھا: آج علم کے دس میں سے نو حصے دنیا سے اٹھ گئے۔
ہاں مگر بہت ہی بے ساختہ۔ اپنے آپ سے ہمیشہ برسرِ جنگ۔ ذرا ہمارے لیڈروں کو دیکھیے۔ ایک کہتا ہے: میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا۔ دوسرا دعویٰ کرتا ہے: وہ میں ہوں، جو ٹیکس وصول کر کے دکھائے گا۔ حد یہ ہے کہ اپنی پارٹی ڈبونے والے نے خود کو حسینی لشکر کا لیڈر کہا۔ ڈیڑھ ارب مسلمان مغرب کے سامنے شرمندہ کھڑے ہیں کہ خود احتسابی کی فرصت کسی کو نہیں۔ علم کا جویا کوئی نہیں۔ حکمرانوں کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔
یہ وہ تھے، جنہوں نے سر اٹھا کر بات کرنا عامیوں کو سکھایا تھا۔ فرمایا: مہر مقرر کرنے کا میں نے فیصلہ کیا ہے۔ خاتون نے کہا: آپ کو کیا حق ہے، جب سرکارؐ نے متعین نہ کیا۔ ارشاد کیا: بڑھیا نے عمرکو گمراہ ہونے سے بچا لیا۔ خود ارشاد کیا تھا: میرے بعد وہ خوبیاں مجھ سے وابستہ نہ کرنا ، جو مجھ میں نہیں۔ اللہ سب جانتا ہے۔ خود کو وہ تھام لیتے تھے، رک جایا کرتے اور دلیل کے سامنے جھک جاتے۔ آج چودہ سو برس بعد ڈاکٹر مارکس کی 40 سالہ تحقیق بتاتی ہے کہ آدمی خود نہیں سوچتا۔ دو طرح کے خیالات اس پہ وارد ہوتے ہیں۔ ایک کا وہ انتخاب کرتا ہے۔ آدمی اپنی پسند اور ناپسند کا اسیر ہو
سکتا ہے، اپنے جذبات اور تعصب کا۔ دوسروں کی سننی چاہیے؛ حتیٰ کہ فاروقِ اعظمؓ کو ایک معمولی عورت کی۔ ہمارا روشن دماغ وزیر یہ کہتا ہے: عسکری قیادت سے بات کرنے کے لیے فلاںکی مجھے ضرورت نہیں۔ فلاں نے کہا: دوسرے وزیر کا ادارہ سمیٹ دیا جائے کہ میرے منہ کو آتا ہے۔ یہی نہیں، بجلی پیدا کرنے والے کارخانہ داروں کو ڈاکو کہا۔ جواب میں انہوں نے سخت الفاظ استعمال نہ کیے، وگرنہ شاید یہ کہتے: آئینہ دیکھیے حضور، نیپرا نے آپ
کو لٹیرا قرار دیا ہے۔ صوبے کے حاکم نے اپنی بلا دوسرے کے سر منڈھنے کی کوشش کی۔ جواباً اس نے مذاق اڑایا۔ حضور! یہ سڑک یا پل نہیں کہ (ٹھیکیداروں کو ڈانٹ ڈپٹ کر) آپ بنا ڈالیں (بجلی منصوبوں کے لیے دانائی درکار ہے)۔ پھر ان کے دوست کو برا بھلا کہا، چینی کمپنیوں سے جس نے شاید ساز باز کر رکھی ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگا کر کھربوں کمائے جائیں۔ سب ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ سب کے سب پاک باز، سب کے سب معصوم عن الخطا، تنقید سے خوفزدہ۔ دولت کے انباروں پہ کھڑے ہیں مگر بھوکے۔ عمر فاروقِ اعظمؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی راہ روک کر کھڑے ہو گئے تھے۔ کہا: امیرالمومنین، آپ نے اگر کاروبار کیا تو دوسروں کو کون پوچھے گا۔ ایک مزدور کے برابر ان کا وظیفہ مقرر ہوا۔
مخلوق بھوک سے مرتی ہے۔ حکمرانوں کا آدھا وقت اپنے کاروبار کی نذر ہے۔ کتنے ارب ڈالر سے ان کا پیٹ بھرے گا؟ مسلمانوں کا امیر اپنی کمر پہ آٹے کا تھیلا اٹھا کر چلا تو غلام نے منت کی۔ فرمایا: قیامت کے دن کیا تم میرا بوجھ اٹھائو گے؟ مدینہ منورہ کے باہر بھوک سے بلکتے بچّوں کے لیے خود کھانا پکایا۔ پھر ان کی ماں سے کہا: عمر کو تم نے بتایا ہوتا۔ کہا: عمر کو خود معلوم ہونا چاہیے۔ قحط کے مہ و سال میں اپنے خاندان کا حصہ کم کر دیا۔ ایک زرد رو بچّی کو پہچان نہ سکے۔ لوگ حیرت زدہ رہ گئے: آپ کی پوتی ہے، امیرالمومنین۔ کنفیوشس نے کہا تھا، افلاطون نے کہا تھا اور سچ کہا تھا مگرحضور! اللہ کے آخری پیغمبرؐ نے ارشاد کیا تھا کہ کاروبار حکمرانوں کا کام نہیں۔ مگر ڈٹ کر وہ کاروبار کرتے ہیں۔ حکمران شہزادے دودھ اور مرغی کے تاجر ہیں۔
زرداروں کے ٹولے۔ پھر وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منوّرہ تشریف لے جاتے ہیں۔ عالی مرتبتؐ نے تو یہ کہا تھا: اس کے چہرے پر سفر کی گرد ہے اور وہ پکارتا ہے ''اللہ اللہ‘‘ مگر اس کی سنی نہ جائے گی کہ اس کے پیٹ میں حرام ہے۔ اس نے حرام لباس پہن رکھا ہے۔ کیا دلاوری ہے۔ روضے کی جالیوں کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں... اور ہم، ان کی رعایا۔ ہم ان بھکاریوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ کسی درباری میں حیا ہوتی تو انہیں فاروقِ اعظمؓ کا وہ جملہ سناتا، جو اپنے گورنر سے آپؓ نے کہا تھا: مائوں نے انسانوں کو آزاد جنا تھا۔ کب سے تم انہیں غلام بنانے لگے؟ ہر سال مکہ مکرمہ میں سب گورنر خلقِ خدا کے سامنے پیش ہوتے۔ پیٹے گئے مسکین سے کہا، گورنر کے فرزند کو مارو اور خوب مارو... اور وہ گورنر کون تھا؟ فاتحِ مصر، چار ہزار کے لشکر سے جس نے رومیوں کو روند ڈالا تھا۔
ایک آدھ نہیں، امیرالمومنینؓ نے بہت سے نئے شہر بسائے۔ ان گنت علمی، عسکری اور انتظامی کارنامے انجام دیے۔ افضل مگراس لیے ٹھہرے کہ ہر بھوکے کو کھلایا، ہر لاچار کے آنسو پونچھے۔ کرم چند موہن داس گاندھی نے بھارتی وزراء سے کہا تھا: عمر کی پیروی کرو۔ ہمارے حاکم کس منہ سے کہیں؟
آدمی اگر اپنے گریبان میں جھانکے؟ اگر اسے شرم آئے۔ شرم انہیں آتی ہے، جن کا کوئی ضمیر ہو۔ جنہیں یاد ہو کہ کہ چار بالشت کا گڑھا آدمی کا آخری گھر ہے۔ رحمۃ للعالمینؐ اور ان کے ساتھیوں کا ہم کتنا ہی نام جپتے رہیں۔ ہم اندھے، ہمارے حکمران اندھے۔ ہمیں سرکارؐ کا قول کوئی کیوں یاد دلائے: جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا، اللہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔