افراد ہوں یا اقوام ترجیحات طے کرنا ہوتی ہیں۔ یکسوئی اور عرق ریزی سے پھر اہداف کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بات میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کو سمجھائی جا سکتی ہے؟ شاید‘ مگر اوّل خود اس کا ادراک کرنا ہو گا۔
سیاست مقامی ہو یا عالمی‘ اس میں شعبدہ بازی کا ایک عنصر بھی ہوتا ہے۔ امریکیوں نے کچھ خبریں اور تجزیے اہتمام کے ساتھ چھپوائے‘ تاکہ تھوڑا سا دبائو پہلے ہی پیدا کر دیا جائے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے متمنی ہیں‘ خاص طور پر چھوٹا تزویراتی جوہری اسلحہ اور بہت دور تک مار کرنے والے ایٹمی میزائل۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو ان سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ بھارتی بعض چیزوں سے پریشان ہیں۔ پاکستان میں محدود فوجی کارروائی کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا‘ بری حد تک وہ زمین بوس ہو چکا۔ بلوچستان اور افغانستان میں پاکستان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہوں نے سرحدوں پہ گرماگرمی پیدا کی۔ افغانستان میں انہیں کچھ کامیابی ہوئی۔ صدر اشرف غنی ایک ٹیکنوکریٹ ہیں اور جیسا کہ مہاتیر محمد نے ایک پاکستانی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: سیاسی کامیابیوں کے بغیر استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی معاشی نمو ممکن ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کا‘ اسی پر انحصار ہوتا ہے۔ سیالکوٹ کا محاذ کچھ دنوں سے اب ٹھنڈا پڑا ہے‘ وہاں بھارتی توپیں آگ اگل رہی تھیں‘ اس لیے کہ انہیں موزوں جواب دیا گیا۔ ممکن ہے پس پردہ امریکیوں نے بھی کچھ کردار ادا کیا ہو۔ دو ایٹمی طاقتوں میں تصادم کا تصور مغرب کو خوف زدہ کرتا ہے۔
جیسا کہ امریکی صدر کے ترجمان ارنسٹ نے واضح کیا‘ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں؛ تاہم دو محاذوں پر ایسی پیش رفت ہوئی جو پاکستان کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔ اوّل یہ کہ پاکستانی پریس نے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں امریکی عزائم کو بے نقاب کر ڈالا؛ چنانچہ لندن ہی میں وزیر اعظم نے واضح کر دیا کہ کوئی دبائو قبول نہ کیا جائے گا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ فیصلہ عسکری قیادت کو کرنا ہے۔ وہ یہ بات خوب سمجھتی ہے کہ خوف کا توازن ہی خطّے میں امن کی ضمانت ہے۔ رہا غیرفوجی جوہری پروگرام میں تعاون کا سوال تو وزیر اعظم اس میں ابتدائی بات چیت ہی کر سکتے ہیں‘ پیش رفت تاخیر سے ہو گی۔ صحیح خطوط پر آگے بڑھ سکی تو شاید جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ میں؛ اگرچہ یہ کوئی الگ تھلگ موضوع نہیں اور اس کا انحصار دوسرے مسائل‘ خاص طور پر افغانستان کے ساتھ بھی ہے۔ کابل میں امریکیوں کا مخمصہ یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار پاکستان پہ ہے۔ وہ انہیں بات چیت کی میز پر لانا چاہتے ہیں مگر ان کے خلاف ایسی کارروائی کے خواہش مند بھی رہتے ہیں‘ جو ان کا وجود خاکستر کر دے۔ اگر وہ خود نہ کر سکے تو پاکستان یہ معجزہ کیسے کر دکھائے۔ جو بار پاکستان پہ ہے‘ اس میں وہ سرخرو ہے۔ صدر اوباما نے خود تسلیم کیا کہ قبائلی علاقوں میں کی جانے والی کارروائی موثر رہی؛ تاہم مسلح گروہ فرار ہو کر افغانستان چلے گئے۔ افغان سرزمین پر ان سے نمٹنا کس کی ذمہ داری تھی؟ منگل کو جنرل راحیل شریف نے یاد دلایا کہ پاک افغان سرحد پر باہمی تعاون کے بغیر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ ضرب عضب سے پاکستان نے واشنگٹن اور کابل کو مطلع کر دیا تھا۔
گزشتہ ناکام دورے اور روس کے شہر اوفا میں کی جانے والی حماقت کے بعد‘ وزیر اعظم نے اب کی بار یقینا زیادہ تیاری کی ہو گی۔ امریکیوں کو اب وہ جتلا سکتے ہیں کہ افغانستان کو اتنا خطرہ پاکستان سے دراندازی کرنے والوں سے نہیں‘ جتنا پاکستان کو فضل اللہ ایسے لیڈروں سے ہے ‘ بونیر سے کراچی تک‘ جس کے بھیجے ہوئے قاتلوں کے گروہ بے رحمی سے قتل عام کرتے ہیں۔ پشاور چھائونی کے سکول اور پاک فضائیہ کے اڈے پر وحشیانہ حملے تاریخ کا حصہ ہیں۔ کیا یہ امریکیوں کے لیے ناممکن ہے کہ مولوی فضل اللہ کا سراغ لگا کر اسے انجام تک پہنچانے کی کوشش کریں؟ اگر ایسا ہے تو انہیں صدر اشرف سے بات کر کے‘ پاکستان کو ڈرون حملے کی اجازت دینی چاہیے۔
بھارت میں پے در پے ایسے واقعات ہوئے‘ جن سے اس کا سیکولر چہرہ داغ دار ہے۔ بابری مسجد کے انہدام سے بھی بدتر صورت حال ۔ وہ بڑا سانحہ تھا مگر ایک اعتبار سے الگ تھلگ۔ خورشید قصوری کے لیے برپا کی جانے والی تقریب کے ہنگام ایک ممتاز بھارتی رہنما کے منہ پر سیاہی تھوپی گئی۔ خود بی جے پی کے لیے یہ پریشان کن تھا؛ چنانچہ ایل کے ایڈوانی جیسے شخص کو صاف صاف اس کی مذمت کرنا پڑی۔ پھر گائو ماتا کے مسئلے پر ایک کے بعد دوسرا شرمناک واقعہ پیش آیا۔ بھارت کے تمام فائیو سٹار ہوٹلوں میں بیف پیش کیا جاتا ہے‘ خاص طور پر مغربی سیاحوں کے لیے ''اسٹیکس‘‘۔ نریندر مودی ایک تاریخ ساز غلطی کر چکے۔ مداوا اب ان کے بس میں نہیں۔ انہوں نے گائو کشی پر جذباتی تقاریر کی ہیں۔ انتہا پسند ہندو ووٹروں پر انہیں شیوسینا سے مقابلہ درپیش ہے۔ پھر بہار کے الیکشن سر پہ کھڑے ہیں‘ مودی کے لیے جو فیصلہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔ گائو کشی کے حقیقی یا فرضی واقعات سے ہونے والے فسادات کی وہ مذمت نہیں کر سکتے۔ نریندر مودی‘ آصف علی زرداری نہیں مگر بعض اعتبار سے انہی ایسے دانا ہیں۔ سیاسی مفادات کے لیے وہ اپنے ملک اور معاشرے کے دیرپا مفادات کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ وہ ایک چھوٹے سے ہٹلر اور مسولینی ہیں۔ یہ دونوں لیڈر تو پڑھے لکھے تھے اور بعض میدانوں میں اپنی قوم کی بہت کچھ خدمت بھی انہوں نے کی تھی۔ مودی بہت سطحی ثابت ہوئے۔
بھارت کی صورت حال‘ پاکستانی وفد کو سازگار ہے۔ اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے۔ دنیا بہت چھوٹی ہو گئی ہے۔ خطے میں امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہے۔ چین کا کردار بڑھ رہا ہے اور روس کا بھی۔ آئندہ دو تین عشرے تک چینی یلغار جاری رہے گی۔ روس بھی آگے بڑھے گا۔ اپنی معیشت کو ہم نے اس طرح استوار کیا ہے کہ امریکہ کی ہمیں ضرورت ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل کا وہ سب سے بڑا خریدار ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کی ہمیں ضرورت رہتی ہے۔ انکل سام بھی لیکن ہم سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ تحمل اور ہوش مندی کا اگر مظاہرہ کیا جائے تو کچھ کھو دینے کی بجائے کچھ نہ کچھ ہم وصول کر سکتے ہیں۔ افغانستان میں اب انہیں ہماری اور زیادہ ضرورت ہے۔ طاقت مگر ایک نفسیاتی چیز ہے اور کم حوصلہ لوگ حالات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اور نہ ہیجان کا شکار ہو جانے والے جذباتی لیڈر۔
بین الاقوامی تعلقات کا انحصار قوموں کی اہمیت پر ہوتا ہے۔ جغرافیہ ہمارا مددگار ہے اور تاریخ کا دھارا ہمارے خلاف نہیں بہہ رہا۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی معیشت کو ہم نے جدید خطوط پر استوار نہیں کیا۔ اب جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور تعلیم پہ اس کا انحصار ہے۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف ایسے لیڈروں سے اس باب میں کچھ زیادہ امید بھی وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ ایجنڈا سادہ ہے مگر کاروباری لیڈروں کے بس کا نہیں‘ جو ملک کے اندر اور باہر جائیدادوں کی خریداری میں لگے رہتے ہیں۔ اڑھائی کروڑ ایکڑ زمین ملک میں بیکار پڑی ہے۔ پانچ ایکڑ فی خاندان کے حساب سے سرکاری زمین الاٹ کی جائے تو پچاس لاکھ خاندان خوش حال ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک طویل المیعاد منصوبہ ہو گا۔ پانی کے وسائل مہیا کرنے کے لیے کھیتوں میں فوارے لگانا ہوں گے‘ ربع صدی میں ملک یکسر بدل جائے گا۔ کان کنی اس کے سوا ہے‘ دو ہزار ملین ڈالر سے زیادہ کا سونا اور تانبا۔ وسائل مگر کہاں سے آئیں؟ معیشت کو مکمل طور پر دستاویزی کیے بغیر یہ ناممکن ہے۔ ٹیکس وصولی کے بغیر ناممکن۔ معجزے کی امید نہ کی جائے۔ جتنا بوجھ فوج اٹھا سکتی تھی‘ اس نے اٹھا لیا۔ جنرل راحیل شریف سے اب التجا کی جاتی ہے‘ ان کا جواب یہ ہوتا ہے: میرے کندھوں پر دو شہیدوں کا بوجھ ہے۔
افراد ہوں یا اقوام ترجیحات طے کرنا ہوتی ہیں۔ یکسوئی اور عرق ریزی سے پھر اہداف کا تعاقب کیا جاتا ہے۔کیا یہ بات میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کو سمجھائی جا سکتی ہے؟ شاید‘ مگر اوّل خود اس کا ادراک کرنا ہو گا۔