"HRC" (space) message & send to 7575

زلزلہ

ملک کو اصل خطرہ ان زلزلوں سے نہیں ، جو زیرِ زمین جنم لیتے اور موت کا پیغام لاتے ہیں ،خطرہ ہمیں اپنے آپ سے ہے ، اپنے اعمال اور حکمرانوں سے۔
خوف اور خود ترحمی کی جو لہر پھوٹی ہے ، وہ ازل سے آدمی کے ساتھ ہے ۔ جب وہ اس خاک دا ں میں اتارا گیا،اس کے چاروں طرف جنگل اور بیابان تھے۔ شب اترتی تو درندے دھاڑتے اور خوف زدہ کرنے والی ہوائیں سرسراتیں ۔ آدم زاد کا زیاں اندازِ فکر میں ہوتاہے، طوفانوں اور زلزلوں سے وہ سنبھل جاتاہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ زخم مندمل ہو جاتے ہیں ، بستیاں پھر سے آباد ہوتی ہیں ، آبگینوں میں ہنستے ہوئے ہاتھوں والے بچّے کھلکھلاتے اور آئندہ امکانات کی نوید دیتے ہیں ۔ 
کل جب چترال سے لاہور تک در و دیوار لرز رہے تھے تو کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں سندھ ٹیکنیکل بورڈ آف ایجوکیشن کے امتحان برپا تھے ۔ یہ امتحانات کئی ماہ سے سے ملتوی ہوتے چلے آئے تھے ۔ اب آخر کار ان کا اہتمام ہوا تو طالبِ علم موبائل ٹیلی فونوں کے ساتھ امتحانی کمروں میں داخل ہوئے ۔ ان میں سے بعض کے پاس ایک سے زائد ٹیلی فون تھے۔ درجنوں ایسے لوگ پکڑے گئے جو زائد عمر کے تھے اور دوسروں کی جگہ براجمان تھے ۔ ''اب یہ ایک معمول بن چکا‘‘نگرانی کرنے والے اساتذہ میں سے ایک نے سوال کرنے والے اخبار نویس کو بتایا، جس نے سولہ عدد طالبِ علموں کو پکڑا اور باہر نکال دیاتھا۔'' اس رسان کے ساتھ وہ دھاندلی کا ارتکاب کرتے ہیں ، جیسے یہ ان کا پیدائشی حق ہو ۔‘‘
ایم کیو ایم کے صدر دفتر نائن زیرو سے متصل گورنمنٹ کمپری ہینسو ہائر سکینڈری سکول میں پانچ ایسے طالبِ علم پکڑے گئے ، جن سے نہ صرف سمارٹ فون برآمد ہوئے بلکہ درسی کتابیں بھی ۔ جب ان سے باز پرس کی جانے لگی تو اپنے اساتذہ کو انہوں نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کی کتابیں اور ٹیلی فون واپس کر دیے جائیں ۔ 
امتحانی کمروں میں انہوں نے بیٹریاں الگ کر کے رکھ دیں ۔ کچھ ہی دیر میں معلوم ہوا کہ اکثر کے پاس دوسرا ٹیلی فون بھی موجود ہے یا فالتو بیٹری جو اس کی گود، جیب یا قریب پڑے بیگ میں رکھی ہے ۔ ایک طالبِ علم اپنے استاد سے کہہ رہا تھا ''جی ہاں ، یہ میرا ٹیلی فون ہے مگر کیا آپ نے مجھے اس کواستعمال کرتے ہوئے بھی دیکھا؟‘‘۔ استاد نے جواب دیا ''بیشتر سوال تم پہلے ہی حل کر چکے تھے ۔ فکر نہ کرو ۔ جو فائدہ تم اٹھا چکے، اس سے محروم نہ کیے جائو گے ۔ ہم بورڈ سے ہرگز نہ کہیں گے کہ جو جوابات تم لکھ چکے ہو ، اس پر پورے نمبر تمہیں نہ دیے جائیں ‘‘ 
اساتذہ پریشان تھے اور اپنی پریشانی کا سبب انہوں نے بتایا۔یہ نہیں کہ نئی نسل برباد ہو رہی ہے ، حصول ِ علم میں شائستگی کی بجائے غنڈہ گردی کو اس نے شعار کر لیا ہے بلکہ یہ کہ ہمارا امتحانی مرکز ایسے علاقے میں قائم ہے ، جہاں وہ زیادہ سختی کا ارتکاب نہیں کر سکتے ۔ اخبار نویس سے انہوں نے کہا : ''براہِ کرم ہمیں موردِ الزام نہ ٹھہرائیے ، ہم پہلے ہی حالات کے مارے ہیں ۔ یہ بہت حسّاس علاقہ ہے ۔ ہمیں زندگی گزارنا ہے ۔ براہِ کرم بورڈ کے حکام سے آپ سفارش کیجیے کہ آئندہ اس جگہ امتحانی مرکز قائم نہ کرے ‘‘
نگران ٹیم کے انچارج انجینئر اقبال احمد صدیقی نے کہا : میں نے ہر طرح کی دھاندلی ہوتے دیکھی ۔ پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ خرابی کی جڑ ہیں ۔ وہاں لیبارٹریاں ہیں ، ورکشاپیں اور نہ تربیت کا کوئی نظام۔ وہ روپیہ بنانے کے کارخانے ہیں ۔
اس وقت جب سارا ملک زلزلے سے خوف زدہ تھا ، فیصل آباد کے مغلوب الغضب شیر علی اپنے فرزند کے ہمراہ ملک کے سب سے لائق ، سب سے متحرک اور سب سے زیادہ کامیاب وزیرِ اعلیٰ سے ملاقات کر رہے تھے ۔ وہ صاحب جنہوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی ،یعنی ان کے فرزند کو شہر کا مئیر نہ بنایا گیا ، تو صوبے کے حکمران کو اس نواح میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ اس ملاقات کا حکم وزیرِ اعظم میاں محمدنواز شریف نے دیا تھااور اس کے اختتام پر کئی ہفتے سے چنگھاڑتے ہوئے لیڈر نے اعلان کیاکہ نہ صرف وزیرِاعظم بلکہ وزیرِ اعلیٰ کی قیادت پر بھی اسے مکمل اعتماد ہے ۔ اس ملاقات میں کیا طے ہوا، ہم شاید کبھی نہ جا ن سکیں ، اس لیے کہ یہ ایک خاندان کا اندرونی معاملہ ہے ۔ قوم کا کیااس سے تعلق؟ 
اس وقت جب گھر کے در و دیوار بھونچال سے جاگے اور دہائی دینے لگے ، یہ قاری ایک مسلم لیگی اخبار کے صفحہ ٔ اوّل پر شائع ہونے والا تجزیہ پڑھ رہاتھا۔ پانچ سالہ دورِ حکمرانی کا نصف عرصہ مکمل ہونے پر جس میں نون لیگ کے انتخابی منشور پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ وقائع نگار نے لکھاہے : حکمران پارٹی نے اپنے عہدکا آغاز بے روزگاری ، لوڈ شیڈنگ ، دہشت گردی ، کرپشن اور غربت کا خاتمہ کرنے کے وعدوں سے کیا تھا۔ اس نے عہد کیاتھاکہ وہ سول اداروں کو مضبوط کرے گی ، اقتصادی خوشحالی کا دروازہ کھولے گی اور ملک کا کھویا ہوا امن لوٹادے گی ۔ افسو س کہ عام آدمی کی زندگی میں ہر گز کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ کچھ اور بھی دشوار ہو گئی ہے ۔ 4کروڑ آدمی خطِ غربت سے نیچے ہیں ۔ بے روزگاروں کی تعداد 53لاکھ ہے ۔ ان میں پندرہ لاکھ اضافہ ان اڑھائی برسوں کے دوران ہو اہے ۔ دہشت گردی میں کمی آئی ہے مگر یہ جون 2014ء میں مسلّح افواج کی طرف سے شروع کی گئی ضربِ عضب کا نتیجہ ہے ۔ افراطِ زر کی صورتِ حال قدرے بہتر ہے مگر اس لیے کہ تیل کی قیمت آدھی رہ گئی ۔ سرمایہ کاری اور ٹیکس وصولی کے اہداف پورے نہیں ہو سکے ۔ 2014-15ء کے لیے برآمدات کا ہدف 27ارب تھا مگر 24ارب ہی کی ممکن ہو سکیں۔ حکومت نے سود کی شرح کم کر دی ہے مگر سرمایہ کاری کے میدان میں وہی ویرانی ہے ۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اشیائِ صرف کی قیمتوں میں دو فیصد کمی ہوئی ہے مگر دالیں ، سبزیاں اور چینی اسی بھائو دستیاب ہیں ۔ مسلم لیگ کے منشور میں اعلان کیاگیا تھاکہ غیر ملکی قرضوں کو نچلی سطح پر لایا جائے گا ۔ بالکل برعکس حکومت نے عالمی بینک سے بارہ بلین ڈالر قرض لیا اور500ملین ڈالر حاصل کرنے کے لیے 8.3فیصد کی شرح پر ایک بانڈ جاری کیا ۔ (شریف حکومت نے گزشتہ تین ماہ میں پاکستانی بینکوں سے چار سو ارب کے قرضے لیے ، جو 1947ء سے 1977ء تک کے تین عشروں میں مجموعی غیر ملکی قرضوں سے چار گنا زیادہ ہیں )۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی سرکاری تاریخیں مسلسل بدل رہی ہیں ۔ نئی تاریخ 2018ء قرار پائی ہے ۔ نئے ڈیم تعمیر کرنے کا پیمان تھا مگر داسو اور بھاشا کو اگلی مدّت کے لیے اٹھا رکھا ہے ۔ شفاف حکمرانی کا اعلان کیا گیا تھا مگر اب نندی پورہے ، قائدِ اعظم سولر پارک ہے (اور قطر کی ایل این جی ، جس کی قیمت ہی سرکار بتانے پر آمادہ نہیں )۔ بعض بے قاعدگیوں کی نیب کو تحقیقات کرنا پڑی ہے۔ بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا وعدہ کیا گیا مگر الٹا وہ بڑھا دی گئی ہیں ۔ اعلیٰ عہدوں پر صلاحیت کی بجائے من مرضی کے افسروں کا تقرر ہوا ہے ۔ آڈیٹر جنرل کے مطابق دو برس میں 1000ارب کی بے قاعدگیاں ہوئیں ۔ ٹیکس وصولی کی شرح آج بھی دنیا میں سب سے کم ہے۔ تعلیمی بجٹ کو چار فیصد کرنا تھا ۔ اڑھائی برس گزر جانے کے بعد یہ شرح ایک فیصد ہے ۔ 
ملک کو اصل خطرہ ان زلزلوں سے نہیں ، جو زیرِ زمین جنم لیتے اور موت کا پیغام لاتے ہیں،خطرہ ہمیں اپنے آپ سے ہے ، اپنے اعمال اور حکمرانوں سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں